اس کے علاوہ وقتاً فوقتاً قیامت کے امتحان اور میدانِ محشرکے کٹھن وقت کو بھی سامنے رکھ کر اپنے نفس کا محاسبہ کیاجاسکتا ہے ۔
قیامت کے اِمتحان اورمیدانِ محشر کا تصور
عرض:قیامت کے امتحان اور میدانِ محشر کا تصور باندھ کر اپنا مُحاسَبَہ کرنے کا طریقہ بھی اِرشاد فرما دیجیے۔
اِرشاد:قیامت کے امتحان اور میدانِ محشرکا تصور یوں کیجیے کہ میں نے قبر میں ایک طویل عرصہ گزارنے کے بعد اَربوں کھربوں مُردوں کی طرح وہاں سے نکل کر اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں حاضری کے لیے میدانِ محشر کی طرف بڑھنا شروع کردیا ہے۔ سورج نہایت کم فاصلے پر رہ کر آگ بَرسا رہا ہے ، اس کی تپش سے بچنے کے لیے کوئی سایہ بھی مُیَّسر نہیں،گرمی اور پیاس سے بُرا حال ہے، ہجوم کی کثرت کی وجہ سے دَھکے لگ رہے ہیں۔اندرونی کیفیّت یہ ہے کہ زندگی بھر کی جانے والی اللہتعالیٰ کی نافرمانیوں کا سوچ کر دِل ڈوبا جارہا ہے، اِن کے نتیجے میں ملنے والی جہنم کی ہولناک سزاؤں کے تصوّر سے ہی کلیجہ کانپ رہا ہے ،دِل بھی بے چینی کا شکار ہے کہ یہ تو وہی اِمتحان گاہ ہے جس کے بارے میں حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ ”قیامت کے دن اِنسان اس وقت تک قدم نہ ہٹا سکے گا جب تک اس سے پانچ سوالات نہ کر لیے جائیں(۱)تم نے زندگی کیسے بسر کی؟(۲)جوانی کس طرح گزاری؟(۳)مال کہاں سے کمایا؟اور(۴)