گے، اُن میں ایک کو منکَر، دوسرے کو نکیر کہتے ہیں،مردے کو جھنجھوڑتے اور جھڑک کر اُٹھاتے اور نہایت سختی کے ساتھ کرخت آواز میں سوال کرتے ہیں۔پہلاسوال:مَنْ رَّبُّکَ؟تیرا رب کون ہے؟دوسرا سوال:مَا دِیْنُکَ؟تیرا دین کیا ہے؟تیسرا سوال:مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھٰذَا الرَّجُل؟ان کے بارے میں تُو کیا کہتا تھا؟“(1)یہ سوچ کر میرا دل ڈوبا جارہا ہے کہ گناہوں کی نحوست کے سبب میری قبرکہیں دوزخ کا گڑھا نہ بنا دی جائے۔ اے کاش!میں نے زندگی میں نیکیاں کمائی ہوتیں،افسوس!میں نے گناہوں سے پرہیز کیا ہو تا،اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کے پیارے حبیبصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے اَحکامات پر عمل کیا ہوتا،آہ ! اب میرا کیا بنے گا!اس کے بعد آنکھیں کھول دیجیے اور اپنے آپ سے مخاطَب ہوکر کہئے کہ ’’ابھی میں زندہ ہوں،ابھی میری سانسیں چل رہی ہیں،اِن حسرت آمیز لمحات کے آنے سے پہلے پہلے مجھے اپنی قبر کو جنّت کا باغ بنانے کی جِدّوجَہد میں لگ جانا چاہیے لہٰذا اب میں خوب نیکیاں کروں گا، سرکارِ عالی وقارصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی پیاری پیاری سنتوں پر عمل کروں گا، گناہوں اور بُرے لوگوں کی صحبت سے دُور رہوں گا تاکہ کل مجھے پچھتانا نہ پڑے۔‘‘
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
……بہارِ شریعت ،۱/۱۰۶-۱۰۷،حصہ ۱