Brailvi Books

مدنی مذاکرہ قسط 14:تمام دنوں کا سردار
18 - 31
لہٰذا مسلمان کو کسی بھی  کافر سے دوستی نہیں رکھنی چاہیے کہ یہ ناجائز و حرام ہے۔اب رہی بات جنازے میں شرکت کرنے کی تو اگر مرنے والا کافِر تھا تو اُس کے جنازے میں شریک نہیں  ہو سکتے کیونکہ قرآنِ پاک میںاللہ عَزَّ  وَجَلَّ کا فرمانِ  ہدایت نشان ہے:
وَلَا تُصَلِّ عَلٰۤی اَحَدٍ مِّنْہُمۡ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَاتَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ؕ (پ ۱۰، التوبة:۸۴) ترجَمۂ کنزالایمان:اوران میں سے کسی کی میت  پر کبھی نماز نہ پڑھنا نہ اس کی قبر پر کھڑے ہونا۔
اِس آیتِ مُبارَکہ  کے تحت صدرُالافاضِل حضرتِ علّامہ مولانا سیِّد محمد نعیم الدّین مُراد آبادیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہ ِالْہَادِی فرماتے ہیں: اس آیت سے ثابت ہوا کہ  کافِر کے جنازے کی نماز کسی حال میں جائز نہیں اور کافِر کی قبر پر دفن و زیارت کے لئے کھڑے ہونا بھی ممنوع ہے۔جس شخص کے مؤمن یا کافِر ہونے میں شُبہ ہو اس کے جنازے کی نماز  نہ پڑھی جائے ۔ جب کوئی کافِر مر جائے اور اس کا ولی مسلمان ہو تو اس کو چاہیئے کہ بطریقِ مسنون غسل نہ دے بلکہ نجاست کی طرح اس پر پانی بہا دے اور نہ کفنِ مسنون دے بلکہ اتنے کپڑے میں لپیٹ دے جس سے  سِتر چھپ جائے اور نہ سنّت طریقہ پر