رہنمائے دین سے کنارہ کش ہونا اور اِستفادۂ مسائل(یعنی مسائل سیکھنا) چھوڑ دینا اس کے حق میں زہرہے اس کاکیانقصان،حدیث میں ہے نبیصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم فرماتے ہیں:”عالِم اگراپنے عِلم پر عمل نہ کرے جب(تو)اس کی مثال شمع کی ہے کہ آپ جلے اور تمہیں روشنی دے۔“یہ سب اس صورت میں ہے کہ وہ عالِم حقیقۃً عالِمِ دین،سُنّی صحیح العقیدہ،ہادیٔ راہِ یقین (سیدھے راستے کی طرف ہدایت کرنے والا)ہو ورنہ اگر سُنّی نہیں توکتنا ہی خلیق (یعنی اچھّےاخلاق والا)کتنا ہی متواضع(عاجزی و اِنکساری کرنے والا) کتناہی خوش مزاج بنے نائبِ ابلیس ہے اس سے کنارہ کشی فرض ہے اور اس سے فتویٰ پوچھنا حرام۔(1)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!معلوم ہوا کہ عالِمِ دین کی کسی خطاکی وجہ سے بدظن ہوکر اس کی صحبت سے دُور نہیں ہونا چاہیے اور نہ ہی اس کی مخالَفت کرنی چاہیے کہ یہ اس کے حق میں زہرِ قاتل ہے،یہ بھی معلوم ہواکہ عالِمِ دین کے یہ فضائل اور اس کی صحبت کی یہ برکتیں اسی صورت میں ہیں جبکہ وہ عالِم ِ دین،سُنّی ،صحیح العقیدہ ہو،رہا بدمذہب عالِم کا معاملہ تو اس کے سائے سے بھی دور بھاگنا چاہیے کہ اُس کی تعظیم حرام اور اُس کی صحبت اِیمان کے
مـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــدینـــہ
…… فتاویٰ رضویہ،٢٣/٧١١ا