Brailvi Books

مدنی مذاکرہ قسط 11:نام کیسے رکھے جائیں ؟
4 - 43
 ذِمَّہ داری عائد کر دیتے ہیں، علمِ دین سے دوری اور جہالت کے سبب  بچوں کے ایسے نام رکھ دیئے جاتے ہیں جو شرعاً ناجائز ہوتے ہیں یا  جن کے کوئی معانی نہیں ہوتے یا پھر اچھے معانی نہیں ہوتے یا ایسے نام ہوتے ہیں جن میں غرور و تکبر پایا جاتا ہے۔
یاد رکھیے !اچھے نام کا اچھا اور بُرے نام کا بُرا اَثر ہوتا ہے لہٰذا  بُرے نام سے بچتے ہوئے اپنے بچوں کے نام اَنبیائے کرامعَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ،صحابۂ کرام واولیائےعظامعَلَیْہِمُ الرِّضْوَانکے مبارک  ناموں پر رکھنے چاہئیں تاکہ بچوں  کا اپنے اَسْلاف سے روحانی تعلق قائم ہو اور ان نیک ہستیوں کی بَرکت سے اس کی زندگی پر مَدَنی اَثرات مُرتّب ہوں۔مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خانعَلَیْہِ رَحمَۃُ الْحَنَّان فرماتے ہیں:اچھے نام کا اثر نام والے پر پڑتا ہے،اچھا نام وہ ہے جو بے معنیٰ نہ ہو جیسے بدھوا،تلوا وغیرہ اور فخر و تکبر نہ پایاجائے جیسے بادشاہ،شہنشاہ وغیرہ اور نہ بُرے معنیٰ ہوں جیسے عاصی وغیرہ ۔ بہتر یہ ہے کہ انبیاءِ کرام(عَلَیْہِمُ السَّلَام )یا حضورعَلَیْہِ السَّلَام کے صحابۂ عظام، اہلبیت ِاَطْہار(رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن) کے ناموں پر نام رکھے جیسے ابراہیم،اسمعیل،عثمان،علی،حسین وحسن وغیرہ۔عورتوں کے نام آسیہ، فاطمہ،عائشہ وغیرہ اور جو اپنے بیٹے  کا نام محمد رکھے وہ اِنْ شَآءَ اللہبخشا جائے