میری زندگی میں عمل کی بہار کچھ یوں آئی، میرے بڑے بھائی سنّتوں سے کوسوں دور فیشن کی وادیوں میں محصور تھے، خوش قسمتی سے انہیں دعوتِ اسلامی کا مدنی ماحول میسرا ٓگیا، ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت ان کا معمول بن گیا، وہاں ہونے والے سنّتوں بھرے بیانات نے ان کی زندگی کی کایا ہی پلٹ دی، دن بدن اُن کے اخلاق و کردار میں ایک نمایاں تبدیلی آنے لگی، جب سنّتوں بھرے اجتماع سے گھر لوٹتے تو اپنے ہمراہ امیرِاہلسنّت حضرت علاّمہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطارؔ قادری رَضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے سنتوں بھرے انقلابی بیانات کی کیسٹیں اور چند مدنی رسائل بھی لاتے، چونکہ مجھے کہانیاں پڑھنے کا بہت شوق تھا اس لیے ان رسائل کو شوق سے پڑھتی، یوں تو بے شمارکہانیوں کی کتابیں پڑھ چکی تھی مگر مدنی رسائل پڑھنے سے ایک عجب قلبی سکون ملتا، ایک ولی کامل کی عام فہم تحریر پڑھ کر بہت متأثر ہوتی، مزید بھائی جان وقتا ًفوقتاً امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے بیانات چلاتے، خود بھی شوق سے سنتے اور گھر والوں کو بھی سناتے یوں امیرِاہلسنت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کی پُر سوز آواز کانوں کے راستے دل میں اُترتی گئی جس کی برکت سے آنکھوں سے غفلت کے پردے چاک ہوتے گئے اور یہ احساس اُجاگر ہوگیا کہ ہمیں دنیا میں