اس میں جہنم کے شدید ترین عذابات کے بارے میں سُنا تو خوفِ خدا کے باعث میرے جسم کا رواں رواں کانپ اُٹھا، میرے دل کی کیفیت بدل گئی ، اس کے بعد میں نے تیسرابیان ’’زمین کھا گئی نوجوان کیسے کیسے‘‘ سنا جسے سن کر یہ احساس پیدا ہوا کہ دنیا میں دل لگانا حماقت ہے، دنیا و آخرت کی بہتری صرف عبادتِ الٰہی میں ہے، لہٰذا میں نے بقیہ سانسوں کو غنیمت جانا فوراً اپنے پاک پروردگار عَزَّوَجَلَّکی بارگاہ میں توبہ کی اور دعوتِ اسلامی کے مدنی ماحول سے وابستہ ہو گئی، اسلامی بہنوں کے ہفتہ وار سنّتوں بھرے اجتماع میں شرکت کرنا میرا معمول بن گیا۔ نمازوں کی پابندی اور سنّتوں پر عمل کرنا شروع کردیا، یوں امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ کے سنّتوں بھرے بیانات سننے کی بدولت مجھے سابقہ گناہوں پر افسوس ہونے لگا، قبر و حشر کے متعلق میری فکر بڑھنے لگی اور میں نے نیکیوں بھری زندگی گزارنے کا عزم کر لیا۔ نیز دعوتِ اسلامی کے مدنی کاموں میں حصہ لینے لگی ۔ حسنِ اتفاق سے اُسی سال ۱۴۰۹ ھ 1989ء میں پشاور شہر کا تاریخی سنّتوں بھرا اجتماع ہوا، جس میں باب المدینہ (کراچی) سے شیخ طریقت امیرِاہلسنّت حضرت علاّمہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطارؔ قادری رَضَوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ تشریف لائے اور سنّتوں بھرا بیان فرمایا۔ اس اجتماع کے اختتام پر امیرِاہلسنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ ہمارے گھر پر تشریف لائے، ایک ولی کامل کی آمد پر گھر کا ہر