بددیانتی اور آپس میں لڑائی فساد کا بہت اندیشہ ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے ’’میراث‘‘ کے اکثر اَحکام قرآنِ پاک میں بڑی وضاحت سے بیان فرمائے ہیں اور اِن پر عمل کرنے کو متعدد انداز میں تاکید کے ساتھ بیان فرمایا جیسے شروع میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تمہیں حکم دیتاہے اور یہ حکم بیان کرکے میراث کی تقسیم کا طریقہ بیان فرمایا، یُوۡصِیۡکُمُ اللہُ فِیۡۤ اَوْلٰدِکُمْ ٭ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الۡاُنۡثَیَیۡنِ ۚ فَاِنۡ کُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَیۡنِ فَلَہُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ ۚ وَ اِنۡ کَانَتْ وٰحِدَۃً فَلَہَا النِّصْفُ ؕ وَ لِاَبَوَیۡہِ لِکُلِّ وٰحِدٍ مِّنْہُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنۡ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ ۚ فَاِنۡ لَّمْ یَکُنۡ لَّہٗ وَلَدٌ وَّوَرِثَہٗۤ اَبَوَاہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ ۚ فَاِنۡ کَانَ لَہٗۤ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنۡۢ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوۡصِیۡ بِہَاۤ اَوْدَیۡنٍ ؕ (1)
ترجمۂکنزُالعِرفان: اللہ تمہیں تمہاری اولاد کے بارے میں حکم دیتا ہے، بیٹے کا حصہ دو بیٹیوں کے برابر ہے پھر اگر صرف لڑکیاں ہوں اگرچہ دو سے اوپر تو ان کے لئے ترکے کا دو تہائی حصہ ہوگااور اگر ایک لڑکی ہو تو اس کے لئے آدھا حصہ ہے اوراگر میت کی اولاد ہوتو میت کے ماں باپ میں سے ہر ایک کے لئے ترکے سے چھٹا حصہ ہوگا پھر اگرمیت کی اولاد نہ ہو اور ماں باپ چھوڑے تو ماں کے لئے تہا ئی حصہ ہے پھر اگر اس (میت) کے کئی بہن بھا ئی ہو ں تو ماں کا چھٹا حصہ ہوگا، (یہ سب احکام) اس وصیت (کو پورا کرنے) کے بعد (ہوں گے) جو وہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
1…النساء: ۱۱۔