میں ’’کالے بچھو‘‘ لکھا ہوا تھا میں نے اُسے اُٹھایا اور پڑھنا شروع کر دیا۔ رسالے میں موجود عبرت سے بھر پور داستانیں فکرِ آخرت کا درس دے رہی تھیں جنہیں پڑھ کر خوفِ خدا سے میرا رُوآں رُوآں کانپ اٹھا اور ندامت کے مارے گریبان آنسوؤں سے تر ہو گیا۔ میں نے تمام گناہوں سے توبہ کرنے کی نیت کی اور دل ہی دل میں یہ بات ٹھان لی کہ چاہے کچھ بھی کرنا پڑے میں اپنے اندر تبدیلی ضرور لاؤں گا۔ کسی کہنے والے نے سچ کہا ہے کہ جب انسان کی نیت سچی ہو تو منزل آسان ہو جایا کرتی ہے۔ میرے ساتھ بھی کچھ اسی طرح ہوا چنانچہ رَمَضانُ الْمبارک کے آخری عشرے میں مجھے اپنے علاقے کی جامع مسجد بلال میں اعتکاف کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ اس مسجد میں جو حافظ صاحب نمازِتراویح پڑھانے کے لئے آتے تھے وہ انتہائی سنجیدہ و باوقار ہونے کے ساتھ ساتھ نہایت خوش اخلاق اور مِلَنسار بھی تھے ۔ صاف ستھرے سفید لباس میں ملبوس سبز سبز عمامہ شریف سجائے وہ اسلامی بھائی بَہُت بھلے معلوم ہوتے تھے۔ ان کا روزانہ کا معمول تھا کہ تراویح وغیرہ سے فارغ ہونے کے بعد نمازیوں سے ملاقات کے دوران اُنھیں دعوتِ اسلامی کے ہفتہ وار سنتوں بھرے اجتماع میں شرکت کی دعوت دیتے، مجھ پر اُن کی بڑی شفقتیں تھیں ، بسا اَوقات تو دیر تک مجھے اپنے پاس بٹھا کر فکرِ آخرت کا درس دیتے اور گناہوں سے باز رہنے کی تلقین