اِعلان کیا ہے: مجاہِدین کی فوج میدان جنگ کی طرف روانہ ہو رہی ہے۔ آقائے نامدار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اپنے جاں نثار طلب فرمائے ہیں ۔ کتنی بخت بیدار ہیں وہ مائیں جو آج اپنے نوجوان شہزادوں کا نذرانہ لئے دربارِ رسالت میں حاضِر ہوکر اشکبار آنکھوں سے التجائیں کررہی ہوں گی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ! ہم اپنے جگر پارے آپ کے قدموں پر نثار کرنے کیلئے لائی ہیں ، آقا! ہمارے ارمانوں کی حقیر قربانیاں قَبول فرمالیجئے، سرکار! عمر بھر کی محنت وُصُول ہوجائے گی۔ اتنا کہہ کر ماں ایکبار پھر رونے لگی اور بَھرّائی ہوئی آواز میں کہا: کاش! میرے گھر میں بھی کوئی جوان بیٹا ہوتااور میں بھی اپنا نذرانۂ شوق لے کرآقا کی بارگاہ میں حاضِر ہوجاتی۔ مَدَنی مُنّاماں کو پھر روتا دیکھ کر مچل گیا اور اپنی ماں کوچُپ کرواتے ہوئے جوشِ ایمانی کے جذبے کے ساتھ کہنے لگا: میری پیاری ماں ! مَت رو، مجھی کو پیش کردینا۔ ماں بولی : بیٹا! تم ابھی کمسن ہو، میدانِ کار زار میں دشمنانِ خونخوار سے پالا پڑتا ہے، تم تلوار کی کاٹ برداشت نہیں کرسکو گے۔ مَدَنی مُنّے کی ضد کے سامنے بِالآخِر ماں کو ہتھیار ڈالنے ہی پڑے۔ نَمازِ فَجر کے بعد مسجدُالنَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے باہَر میدان میں مُجاہِدین کا ہُجوم ہوگیا۔ ان سے فارِغ ہوکر سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ واپَس تشریف لا ہی رہے تھے کہ ایک پردہ پوش خاتون پر نظر پڑی جو اپنے چھ سالہ مَدَنی مُنّے کو لئے ایک طرف کھڑی تھی۔ شاہِ شیریں مَقا ل، صاحِبِ جُودونَوال، شَہَنشاہِ خوشخصال ، محبوبِ ربّ ذوالجلال، آقائے بِلال صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے حضرت ِسیِّدُنا بِلال