Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز)
9 - 243
مقامِ دوم : احادیث مؤیدہ
اقول (۱۵) حدیث صحیح میں ہے بعض اجلۂ صحابہ نے کہ غالباً سیّدنا عبدالرحمن بن عوف یا سیّدنا سعدبن ابی وقاص رضی اﷲ تعالٰی  عنہم ہیں، حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے تہبند اقدس (جو کہ ایک بی بی نے بہت محنت سے خوبصورت بُن کر نذر کیا اورحضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کو اس کی ضرورت تھی) مانگا۔حضور اجودالاجودین صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے عطافرمایاصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی  عنہم نے انہیں ملامت کی کہ اُس وقت اس ازار شریف کے سوا حضور اقدس صلوات اﷲ سلامہ علیہ کے پاس اور تہبند نہ تھا، اور آپ جانتے ہیں حضور اکرم الاکرماصلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کبھی کسی سائل کو  رَد نہیں فرماتے، پھر آپ نے کیوں مانگ لیا؟ انہوں نے کہا واﷲ! میں نے استعمال کو نہ لیا بلکہ اس لئے کہ اس میں کفن دیا جاؤں ۔حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اُن کی اس نیت پر انکار نہ فرمایا، آخر اسی میں کفن دئے گئے---
صحیح بخاری میں ہے :
باب من استعدالکفن فی زمن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلم ینکر علیہ حدثنا عبداﷲ بن مسلمۃ فذکر باسنادہ عن سہل رضی اﷲ تعالٰی عنہ ان امراۃ جاءت النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ببردۃ منسوجۃ فیھا حاشیتھا اتدرون ما البردۃ قالوا الشملۃ قال نعم قالت نسجتھا بیدی فجئت لاکسوکہا فاخذھا النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم محتاجاً الیہا فخرج الینا وانھا ازارہ، فحسنھا فلان فقال اکسنیھا ما احسنہا، قال القوم ما احسنت لبسھا النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم محتاجاً الیھا ثم سألتہ وعلمت انہ لا یردقال انی واﷲ ماسألتہ وعلمت انہ لایردقال انی واﷲ ماسألتہ وعلمت انہ لایردقال انی واﷲ ماسألتہ لالبسھا وانما سألتہ لتکون کفنی قال سہل فکانت کفنہ۱؎۔
باب، حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام کے زمانہ میں جس نے کفن تیار کیا اور آپ نے منع نہ فرمایا،حضرت عبداﷲ بن سلمہ نے اپنی سند کے ساتھ حضرت سہل رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے حدیث بیان کی ایک عورت حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی خدمت میں خوبصورت بُنی ہوئی حاشیہ والی چادر لائی، تمہیں معلوم ہے کہ کون سی چادر تھی، انہوں نے جواب دیا وہ تہبند ہے، کہا ہاں، اُس عورت نے عرض کیا کہ میں نے  خود یہ  چادر بُنی ہے آپ کو  پہننے کے لئے پیش کرتی ہوں تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے بڑی خوشی سے قبول فرما ئی تو حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام اس کو تہبند کی صورت میں پہن کر  باہر تشریف لائے تو فلاں صحابی نے اس تہبند کی تحسین کی اور عرض کیا یہ کتنی اچھی ہے مجھے عطا فرما دیجئے۔ اس پر حاضرین نے اسے کہاتو نے اچھا نہیں کیا،حضور علیہ الصلٰوۃ والسلام نے خود اپنے لئے پسند فرمائی تھی، تونے یہ معلوم ہونے کے باوجود  کہ آپ  علیہ الصلاۃ والسلام کسی سائل کو مایوس نہیں فرماتے سوال کرلیا۔ اس نے جواب میں کہا کہ خدا کی قسم میں نے اسے پہننے کے لئے نہیں اپنے کفن کے لئے طلب کیا ہے۔حضرت سہل رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے فرمایا کہ وہ چادر مبارک اس سائل صحابی کا کفن بنی۔(ت)
 (۱؎ صحیح بخاری        کتاب الجنائز     مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۷۰)
 ( ۱۶) بلکہ خود حضور  پُر نور صلوات اﷲ تعالٰی  وسلامہ علیہ نے اپنی صاحبزادی حضرت زینب یاحضرت ام کلثوم رضی اﷲ تعالٰی  عنہما کے کفن میں اپنا تہبند اقدس عطا کیا اور  غسل دینے والی بیبیوں کو حکم دیا کہ اُسے ان کے بدن کے متصل رکھیں۔ صحیحین میں اُم عطیہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا سے ہے :
قالت دخل علینا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ونحن نغسل ابنتہ فقال اغسلنھا ثلٰثا او خمسا او اکثر من ذٰلک ان رأیتن ذلک بماء وسدر واجعلن فی الاٰخرۃ کافورا  اوشیئامن کافور فاذافرغتن فاٰذننی فلما فرغنا اذناہ فالقی الینا حقوہ فقال اشعر نھا ایاہ ۔ ۱؎
فرماتی ہیں ہمارے پاس رسول اﷲ صلی ا ﷲ تعالٰی  علیہ وسلم تشریف لائے جب ہم ان کی صاحبزادی کو غسل دے رہی تھیں، فرمایا اسے پانی اور بیری کے پتوں سے غسل دینا تین مرتبہ یا پانچ مرتبہ، یا اگر تم مناسب سمجھو تو اس سے زیادہ، اور آخری بار کافور ملالینا، فارغ ہونے کے بعد مجھے اطلاع دینا۔ ہم نے جب غسل دے لیا توحضور کو خبر دی۔ سرکار نے اپنا تہبند دیا اور فرمایا اسے اس کے بدن سے متصل رکھنا۔ (ت)
 (۱؎ صحیح بخاری   کتاب الجنائز      مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۱ /۱۶۸)
 (۱۷) علماء فرماتے ہیں یہ حدیث مریدوں کو  پیروں کے لباس میں کفن دینے کی اصل ہے۔لمعات میں ہے  :
ھذا الحدیث اصل فی المتبرک باثارالصالحین ولباسھم، کمایفعلہ بعض مریدی المشائخ من لبس اقمصتھم فی القبر۲؂۔
یہ حدیث صالحین کے آثار اور ان کے لباس سے برکت حاصل کرنے کے سلسلے میں اصل ہے جیسا کہ مشائخ کے بعض ارادت مند اُن کی قمیصوں کا کفن پہنتے ہیں۔(ت)
 (۲؎ لمعات التنقیح      باب غسل میت فصل اول      مطبوعہ المعارف العلمیہ لاہور    ۴/ ۳۱۸)
 (۱۸) یونہی حضرت فاطمہ بنت اسد والدہ ماجدہ  امیرالمومنین مولٰی  علی کرم اﷲ وجہہ ، رضی اﷲ تعالٰی  عنہا کو اپنی قمیص اطہر میں کفن دیا۳؎۔
(۳؎ مجمع الزوائد     بحوالہ معجم اوسط   باب مناقب فاطمہ بنتِ  رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم   مطبوعہ دارالکتاب بیروت   ۹ /۲۵۷)
رواہ الطبرانی فی الکبیر والاوسط وابن حبان والحاکم وصححہ وابونعیم فی الحلیۃ عن انس۔
اسےمعجم کبیر و معجم اوسط میں طبرانی نے اورابن حبان  اور حاکم نے بافادہ صحیح، اور ابو نعیم  نے حلیہ میں حضرت انس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کیا۔(ت)
 (۱۹) وابوبکر بن ابی شیبۃ فی مصنّفہ عن جابر۔
اور ابوبکر بن  ابی شیبہ نے اپنی مصنّف میں حضرت جابر سے (ت)
 (۲۰)  وابن عساکر عن علی۔
ابن عساکر نے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ سے(ت)
 (۲۱) والشیرازی فی الالقاب وابن عبدالبر وغیرھم عن ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہم ۔
القاب میں شیرازی نے ابن عبدالبر وغیرہم نے حضرت ابنِ عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہم سے روایت کیا۔(ت)
 (۲۲) اور  ارشاد فرمایا کہ میں نے انہیں اپنا قمیض مبارک اس لئے  پہنایا کہ یہ جنّت کے لباس پہنیں۔ ابونعیم نے معرفۃ الصحابہ اور دیلمی نے مسند الفردوس میں بسند  حسن حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہا سے روایت کی :
قال لماماتت فاطمۃ اُمّ علی رضی اﷲ تعالٰی عنھا، خلع رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قمیصہ والبسھاایاہ، واضطجع فی قبرھا فلما سوی علیھاالتراب قال بعضھم یارسول اﷲ رأیناک صنعت شیئالم تصنعہ باحد، فقال انی البستھا قمیصی لتلبس من ثیاب الجنۃ واضطجعت معھا فی قبرھا لاخفف عنھا من ضغطۃ القبر، انھاکانت احسن خلق اﷲ نیعا الیّ بعد ابی طالب۔ ۱؎
فرمایاجب حضرت علی کرم اﷲ وجہہ، کی والدہ حضرت فاطمہ بنت اسد رضی اﷲ تعالٰی  عنہا کا انتقال ہوا رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اپنا کُرتا اتار کر انہیں پہنایا اور ان کی قبر میں لیٹے، جب قبر  پر مٹی برابر کردی گئی تو کسی نے عرض کیایارسول اﷲ ! آج ہم نے آپ کو  وہ عمل کرتے دیکھا جو حضور نے کسی کے ساتھ نہ کیا۔ فرمایا اسے میں نے اپنا کُرتا اس لئے پہنایا کہ یہ جنت کے کپڑے پہنے اور اس کی قبر میں اس لئے لیٹا کہ قبر کے دبانے میں اس سے تخفیف کروں یہ ابوطالب کے بعد خلقِ خدا میں سب سے زیادہ میرے ساتھ نیک سلوک کرنے والی تھی۔(ت)
 (۱؎ معرفۃ الصحابۃ    حدیث ۲۸۸   مکتبہ الدار مدینہ منورہ    ۱/ ۷۹ ۔ ۲۷۸)
Flag Counter