جب یہ لکھ کر میّت کے ساتھ قبر میں رکھ دیں تو اﷲ تعالٰی اُسے سوالِ نکیرین وعذابِ قبر سے امان دے۔
(۴؎ فتاوٰی کبرٰی بحوالہ ابن عجیل باب الجنائز مطبوعہ رالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۶)
(۹) یہی امام فرماتے ہیں:
من کتب ھذاالدعاء فی کفن المیت رفع اﷲ عند العذاب الٰی یوم ینفخ فی الصور وھوھذا :
جو یہ دُعا میّت کے کفن میں لکھے اﷲ تعالٰی قیامت تک اس سے عذاب اٹھالے اور وہ یہ ہے :
اللھم انی اسألک یاعالم السریا یاعظیم الخطر یاخالق البشر یاموقع الظفر یامعروف الاثر یا ذاالطول والمن یاکاشف الضروالمحن یاالٰہ الاولین و الاٰخرین فرج عنی ھمومی واکشف عنی غمومی وصل اللھم علٰی سیدنا محمد وسلم ۱؎۔
(۱؎ فتاوٰی کبرٰی بحوالہ ابن عجیل باب الجنائز مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲ /۶)
(۱۰) ابن حجر مکّی نے اپنے فتاوی میں ایک تسبیح کی نسبت جسے کہا جاتا ہے کہ اُس کا فضل اُس کی برکت مشہور ومعروف ہیں، بعض علمائے دین سے نقل کیا کہ :
من کتبہ وجعلہ بین صدر المیت وکفنہ لاینال عذاب القبر ولاینالہ منکر ونکیر ولہ شرح عظیم وھو دعاء الانس، (وھو ھذا)
جو اسے لکھ کر میّت کے سینہ اور کفن کے بیچ میں رکھ دے اُسے عذابِ قبر نہ ہو، نہ منکر نکیر اُس تک پہنچیں اور اس دعا کی شرح بہت عظمت والی ہے اور وُہ چین و راحت کی دعا ہے ۔ (وہ دعا یہ ہے:)
سبحٰن من ھوبالجلال موحد بالتوحیدمعروف وبالمعارف موصوف وبالصفۃ علٰی لسان کل قائل رب بالربوبیۃ للعالم قاھر وبالقھر للعالم جبار وبالجبروت علیم حلیم وبالحلم والعلم رؤف رحیم، سبحٰنہ کما یقولون وسبحنہ کما ھم یقولون تسبیحا تخشع لہ السمٰوٰت والارض ومن علیھا ویحمدنی من حول عرشی اسمی اﷲ و انا اسرع الحاسبین ۲؎۔
(۱؎ فتاوٰی کبرٰی بحوالہ ابن عجیل باب الجنائز مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۲/۶)
مصنّف عبدالرزاق اور ان کے طریق سے معجم طبرانی اور ان کے طریق سےحلیہ ابونعیم میں ہے :
اخبرنا معمر بن عبداﷲ بن محمد بن عقیل ان فاطمۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہا لما حضرتہا الوفاۃ امرت علیا فوضع لہا غسلا فاغتسلت وتطھرت، ودعت بثیاب اکفانھا فلبستھا ومست من الحنوط ثم امرت علیا ان لاتکشف اذاھی قبضت وان تدرج کما ھی فی اکفانھافقلت لہ ھل علمت احدا فعل نحو ذلک قال نعم کثیر بن عباس، وکتب فی اطراف اکفانا یشھد کثیر بن عباس ان لا الٰہ الااﷲ۱ ؎۔
معمر بن عبداﷲ بن محمد بن عقیل نے ہمیں خبر دی کہ حضرت بتول زہرارضی اﷲ تعالٰی عنہا نے انتقال کے قریب امیر المومنین علی مرتضٰی کرم اﷲ وجہہ سے اپنے غسل کے لئے پانی رکھوادیا پھر نہائیں اور کفن منگا کر پہنا اور حنوط کی خوشبو لگائی، پھر مولٰی علی کو وصیت فرمائی کہ میرے انتقال کے بعد کوئی مجھے نہ کھولے اور اسی کفن میں دفن فرما دی جائیں۔ میں نے پوچھا کسی اور نے بھی ایسا کیا، کہا ہاں کثیر بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے اور انہوں نے اپنے کفن کے کناروں پر لکھا تھا:کثیر بن عباس گواہی دیتا ہے کہ
لا الٰہ الّااﷲ ۔
(۱؎حلیۃ الاولیاء ترجمہ ۱۳۳ فاطمہ بنت رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم مطبوعہ دارالکتب العربیہ بیروت ۲ /۴۳)
وجیز امام کردری کتاب الاستحان میں ہے :
ذکر الامام الصفار لوکتب علی جبھۃ المیت اوعلٰی عمامۃ اوکفنہ عھد نامہ، یرجی ان یغفراﷲتعالٰی للمیّت، ویجعلہ اٰمنا من عذاب القبر۲ ؎۔
امام صفار نے ذکر فرمایا کہ اگر میّت کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہد نامہ لکھ دیا جائے تو امید ہے کہ اﷲ تعالٰی اسے بخش دے اور عذابِ قبر سے مامون کرے۔
(۲؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوٰی ہندیہ کتاب الاحسان مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۳۷۹)
پھر فرمایا:
قال نصیر ھذہ روایۃ فی تجویز وضع عہدنامہ مع المیّت وقدروی انہ کان مکتوبا علی افخاد افراس فی اصطبل الفاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ، حبس فی سبیل اﷲ ۳؎۔
امام نصیر نے فرمایا: یہ میّت کے عہد نامہ رکھنے کے جواز کی روایت ہے اور بیشک مروی ہوا کہ فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے اصطبل میں کچھ گھوڑوں کی رانوں پر لکھا تھا وقف فی سبیل اﷲ۔
(۳؎ فتاوٰی بزازیہ علی ھامش فتاوٰی ہندیہ کتاب الاحسان مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۶/ ۳۷۹)
(۱۱) دُرمختار میں ہے :
کتب علی جبہۃ المیت وعمامۃ اوکفنہ عھدنامہ یرجی ان یغفراﷲ للمیّت اوصی بعضہم ان یکتب فی جبھۃ وصدرہ بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم ففعل ثم رؤی فی المنام فسئل فقال لما وضعت فی القبرجاء تنی ملٰئکۃ العذاب فلمارأوا مکتوبا علی جبھتی بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم قالو اٰمنت من عذاب اﷲ ۱؎۔
مُردے کی پیشانی یا عمامہ یا کفن پر عہد نامہ لکھنے سے اُس کے لئے بخشش کی امید ہے۔ کسی صاحب نے وصیت کی تھی کہ ان کی پیشانی اور سینے پر
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
لکھ دیں، لکھ دی گئی، پھر خواب میں نظر آئے حال پوچھنے پر فرمایا جب میں قبر میں رکھا گیا عذاب کے فرشتے آئے میری پیشانی پر
بقل بعضھم عن نوادرالاصول للترمذی مایقتضی ان ھذاالدعاء لہ اصل وان الفقیہ ابن عجیل کان یأمربہ ثم افتی بجواز کتابتہ قیاسا علٰی کتابۃ ﷲ،فی نعم الزکٰوۃ۲ ؎۔
بعض علماء نے نوادرالاصول امام ترمذی سے وہ حدیث نقل کی جس کا مقتضٰی یہ ہے کہ یہ دُعا اصل رکھتی ہے، نیز ان بعض نے نقل کیا کہ امام فقیہ ابن عجیل اس کے لکھنے کا حکم فرمایا کرتے ، پھر خد انہوں نے اس کے جوازِ کتابت پر فتوٰی دیا اس قیاس پر کہ زکوٰۃ کے چوپایوں پر لکھا جاتا ہے ﷲ(یہ اﷲ کے لئے ہیں) ۔
(۲؎ فتاوٰی ابن حجر مکی باب الجنائز دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۱۲)
(۱۳) اُسی میں ہے :
واقرہ بعضھم بانہ قیل یطلب فعلہ لغرض صحیح مقصود، فابیح وان علم انہ یصیبہ نجاسۃ۳؎ ۔
اس فتوے کو بعض دیگر علماء نے برقرار رکھا (۱۴) اور اس کی تائید میں بعض اورعلماء سے نقل کیا کہ غرض صحیح کے لئے ایسا کرنا مطلوب ہوگا اگرچہ معلوم ہو کہ اسے نجاست پہنچے گی۔
(۲؎ فتاوٰی ابن حجر مکی باب الجنائز دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۱۲)
ھذا ما اثر، ثم نظر و فیہ نظر کما سیأتی وباﷲ توفیق۔
یہ انہوں نے نقل کیا پھر اس پر کلام کی اور اس پر کلام ہے، جیسا کہ آگے آرہا ہے۔اور توفیق خداہی سے ہے۔(ت)