Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز)
7 - 243
مسئلہ نمبر ۱۴ : از ملک مالوا شہر اندور چھینپہ باکھل     مرسلہ اسمٰعیل قادری احمد آباد والا

یہاں میت ہوگئی تھی اُس کے کفنانے کے بعد پھولوں کی چادر ڈالی گئی، اس کو ایک پیش امام افغانی نے اتار ڈالا اور کہا یہ بدعت ہے ہم نہ ڈالنے دیں گے۔ دوسرے جو غلاف کا پارچہ سیاہ کعبہ شریف سے لاتے ہیں وہ ٹکڑا ڈالا ہُواتھا اسے ہٹادیا اورکہایہ روافض کا رواج ہے ہم نہ ڈالیں گے اسے الگ ہٹاکے اس نے نماز جنازہ پڑھائی۔
الجواب

پھولوں کی چادر بالائے کفن ڈالنے میں شرعاً اصلاً کوئی حرج نہیں بلکہ نیتِ حسن سے حسن ہے جیسے قبور پر پھول ڈالنا کہ وہ جب تک تر ہیں تسبیح کرتے ہیں اس سے میّت کا دل بہلتا ہے اور رحمت اترتی ہے۔فتاوٰی  عالمگیری میں ہے :
وضع الورد والریاحین علی القبورحسن ۱؎۔
قبروں پر گلاب اور پھولوں کا رکھنا اچھا ہے۔(ت)
 (۱؎ فتاوٰی  ہندیۃ     الباب السادس عشرفی زیارۃ القبور        مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور	۵/ ۳۵۱)
فتاوٰی  امام قاضی خان و امداد الفتاح شرح المصنف لمراقی الفلاح و ردالمحتار علی الدرالمختار میں ہے :
انہ مادام رطبایسبح فیؤنس المیت وتنزل بذکرہ الرحمۃ ۲؎۔
پھول جب تک تر رہے تسبیح کرتا رہتا ہے جس سے میت کواُنس حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار        مطلب فی وضع الجدید ونحوالآس علی القبور        مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر)
یونہی تبرک کے لئے غلافِ کعبہ معظمہ کا قلیل ٹکڑا سینے یا چہرے پر رکھنا بلا شبہہ جائز ہے اوراسے رواجِ روافض بتانا محض جھوٹ ہے۔ اسدالغابہ وغیرہا میں ہے :
لما حضرہ الموت اوصی ان یکفن فی قمیص کان علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام کساہ ایاہ، وان جعل ممایلی جسدہ، وکان عندہ قلامۃ اظفارہ علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام فاوصی ان تسحق وتجعل فی عینیہ وفمہ، وقال افعلوا ذلک وخلوبینی بینی وبین ارحم الراحمین۱؎ ۔
جب حضرت امیر معاویہ کا آخری وقت آیا وصیت فرمائی کہ اُنہیں اُس قمیص میں کفن دیا جائے جونبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے انہیں عطافرمائی تھی ، اوریہ ان کے جسم سے متصل رکھی جائے، ان کے پاس حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے ناخن پاک کے کچھ تراشے بھی تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ باریک کرکے ان کی آنکھوں اور دہن پر رکھ دئے جائیں ۔ فرمایا یہ کام انجام دینا اور مجھے ارحم الراحمین کے سپرد کردینا(ت)۔
 (۱؎ اسد الغابہ فی معرفۃ الصحابہ        باب المیم والعین     مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ ریاض الشیخ     ۴ /۳۸۷)
ان باتوں کو بدعت ممنوعہ ٹھہرانا اگر محض بربنائے جہل ہو تو جہالت ہی ہے اور اگر بربنائے وہابیت یعنی غیرمقلدی یا دیوبندیت ہو تو  وُہ نماز کہ اس نے  پڑھائی باطل محض ہوئی، مسلمان بغیر نماز کے دفن کیا گیا، اور جو جو  اُس امام کی حالت سے آگاہ تھے سب ترک فرض نماز جنازہ کے مرتکب و مستحق عذاب رہے، جبکہ خود وہابی یا وہابیہ کو صالح امام جاننے والے نہ ہوں ، ورنہ بالاتفاق علمائے حرمین شریفین کا فتوی ہوچکا ہے کہ من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفرجو وہابیہ کے کفر میں شک کرے خود کافر ہے۔
والعیاذباﷲ تعالٰی۔ واﷲ تعالٰی اعلم
رسالہ

الحرف الحسن فی الکتابۃ علی الکفن(۱۳۰۸ھ)
 (کفن پر لکھنے کے بارے میں عمدہ گفتگو )
مسئلہ نمبر۱۵: ازمارہرہ مطہرہ باغ پختہ    مرسلہ حضرت صاحبزادہ سیّد محمد ابراہیم    ۹ رجب ۱۳۰۸ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ پارچہ کفن جو اماکنِ متبرکہ سے آئے اوراس پر آیاتِ کلام اﷲ واحادیث وغیرہ لکھی ہوں وہ میّت کو  پہنانا کیسا ہے اور شجرہ قبر میں رکھنا کیسا ہے؟بینوا توجروا
الجواب:بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم
الحمدﷲ الذی سترنابذیل کرمہ فی حیاتنا وبعد الممات وفتح علینا فی التوسل بایاتہ وشعائرہ ابواب البرکات والسلام علی من تبرک باٰثارہ الکریمۃ الاحیاء والاموات وحی ویحیی بامطار فیوضہ العظیمۃ کل موات وعلی اٰلہ وصحبہ واھلہ وحزبہ

عدد کل ماض واٰت۔
سب خوبیاں اﷲ کے لئے جس نے اپنے دامنِ کرم سے ہمیں ہماری زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی چھپایا،اور اپنی آیات وشعائر سے توسّل میں ہمارے اوپر برکتوں کے دروازے کھولے—اور درود وسلام ہو ان پر جن کے آثار گرامی سے زندے اور مردے سبھی نے برکت حاصل کی اور جن کے عظیم فیوض کی بارشوں سے ہربےجان کو زندگی ملی اور ملتی ہے –

اور(درود وسلام ہو)ان کی آل،اصحاب، اہل اور جماعت پر، ہرگزشتہ کی تعداد کے برابر۔(ت)
یہاں چار مقام ہیں:
اول: فقہ حنفی سے کفن پر لکھنے کا جزئیہ کہ بدرجہ اولٰی  قبر میں شجرہ رکھنے کا جزئیہ ہوگا۔ اور اُس کے مؤید احادیث و روایات۔
دوم : احادیث سے اس کاثبوت کہ معظمات دینیہ میں کفن دیا گیا یا بدن میّت پر رکھی گئیں اور اسےمخلِ تعظیم نہ جانا۔
سوم : بعض متاخرین شافعیہ نے جو کفن پر لکھنے میں بے تعظیمی خیال اس کا جواب۔
چہارم : قبرمیں شجرہ رکھنے کا بیان۔
وباﷲ التوفیق
مقامِ اوّل: ہمارے علماءِ کرام نے فرمایا کہ میت کی پیشانی یا کفن پر عہد نامہ لکھنے سے اس کے لئے امیدِ مغفرت ہے۔
 (۱) امام ابوالقاسم صفار شاگردامام نصیربن یحیٰی  تلمیذ شیخ المذہب سیدنا امام ابویوسف ومحرر المذہب سید امام محمد رحمہم اﷲ تعالٰی  نے اس کی تصریح و روایت کی۔
 (۲) امام نصیر نے فعلِ امیرالمومنین فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے اس کی تائید وتقویت کی۔

(۳)  امام محمد بزازی نےوجیزکردری(۴) علامہ مدقق علائی نے درمختار میں اُس پر اعتمادفرمایا۔

(۵) امام فقیہ ابن عجیل وغیرہ کا بھی یہی معمول رہا۔
 (۶) بلکہ امام اجل طاؤس تابعی شاگرد سیدنا عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی کہ انہوں نے اپنے کفن میں عہد نامہ لکھے جانے کی وصیّت فرمائی اورحسب وصیّت ان کے کفن میں لکھا گیا۔

(۷) بلکہ حضرت کثیر بن عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالٰی  عنہم نے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے اور صحابی ہیں خود اپنے کفن پر کلمہ  شہادت لکھا۔
 (۸) بلکہ امام ترمذی حکیم الٰہی سیّدی محمد بن علی معاصرامام بخاری نے نوادرالاصول میں روایت کی کہ خود حضور  پُر نور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا :
من کتب ھذاالدعاء وجعلہ بین صدر المیت وکفنہ فی رقعۃ لم ینلہ عذاب القبر ولایری منکرا و نکیراً و ھوھذا  لاالٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الااﷲ وحدہ، لاشریک لہ لاالٰہ الااﷲلہ الملک ولہ الحمدلاالٰہ الااﷲ ولاحول ولاقوۃ الاباﷲالعلی العظیم۱؎۔

جو یہ دُعاکسی پرچہ پر لکھ کر میّت کے سینہ پر کفن کے نیچے رکھ دے اُسے عذابِ قبر نہ ہو نہ منکر نکیر نظر آئیں،اور وہ دعا یہ ہے: لا الٰہ الااﷲ واﷲ اکبرلاالٰہ الاﷲ وحدہ،لاشریک لہ لاالٰہ الااﷲلہ الملک ولہ الحمد لاالٰہ الااﷲ ولاحول ولاقوۃ الّاباﷲالعلی العظیم۔
 (۱؎ فتاوٰی  کبرٰی  بحوالہ ترمذی        باب الجنائز                    مطبوعہ دارالکتب العلمیۃ بیروت    ۲ /۶)
نیز ترمذی میں سیّدنا صدیق اکبر رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے روایت کی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا: جو ہر نماز میں سلام کے بعد یہ دُعا پڑھے :
اَللّٰھُمَّ فَاطِرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِم الْغَیْبِ وَ الشَّھَادَۃِ الرَّحْمٰن الرَّحِیْم اِنِّیْ اَعْھَدُ اِلَیْکَ فَیْ ھٰذِہِ الْحَیَاۃ الدنیابانک انتَ اﷲ الذی لآ اِلٰہَ اِلّا اَنْتَ وَحْدَکَ لَاشَرِیْکَ لَکَ وَاَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُکَ وَرَسُوْلُکَ فَلَاتَکِلْنِیْ اِلٰی نَفْسِیْ فَاِنَّکَ اِن تَکِلنِی الٰی نَفسی تُقَرِّبنی مِنَ الشِّر وتُبَاعِدنی من الخیر وَاِنِّیْ لَا اَثِقُ اِلَّا بِرَحْمَتِکَ فَاجْعَلْ رَحْمَتَکَ لِیْ عَھْداً عِنْدَکَ تُؤَدِّیْہِ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ اِنَّکَ لَاتُخْلِفُ الْمِیْعَادِ۲؎۔
فرشتہ اسے لکھ کر مُہر لگا کر قیامت کے لئے اُٹھارکھے ، جب اﷲ تعالٰی  اُس بندے کو قبر سے اُٹھائے، فرشتہ وہ نوشتہ ساتھ لائے اور ندا کی جائے عہد والے کہاں ہیں، انہیں وُہ عہد نامہ دیا جائے۔
 (۲؎ نوادرالاصول        اصول الرابع والسبعون والمائۃ            مطبوعہ دارصادر بیروت        ص۲۱۷)
Flag Counter