فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز) |
یسن فی الکفن لہ ازار وقمیص ولفافۃ، ولہا ورع ای قمیص وازاروخمار ولفافۃ وخرقۃ تربط بھا ثدیاھا وبطنھا وکفایۃ لہ ازار ولفافۃ فی الاصح ولھا ثوبان وخمار ویکرہ اقل من ذلک وکفن الضرورۃ لہما مایوجد واقلہ مایعم البدن، تبسط اللفافۃ اولا ثم یبسط الازارعلیھا ویقمص ویوضع علی الازار ویلف یسارہ ثم یمینہ ثم اللفافۃ کذلک لیکون الایمن علی الایسروھی تلبس الدرع ویجعل شعرھا صغیرتین علی صدرھا فوقہ الدرع والخمار فوق الشعرثم یفعل کمامرویعقد الکفن ان خیف انتشارہ والمراھق کالبالغ ومن لم یراھق ان کفن فی واحد جاز، والسقط یلف ولایکفن۱ ؎اھ ملخصا۔
کفن میں مرد کے لئے ازار (تہبند) قمیص اور لفافہ (چادر) مسنون ہے،اورعورت کے لئے درع یعنی قمیص، تہبند، خِمار(اوڑھنی )، چادر اور ایک کپڑا جو پستان اور شکم پر باندھا جائے--اورکفن کفایت مرد کے اصح قول پر تہبد اور چادر --عورت کے لئے دو کپڑے اوراوڑھنی--کفنِ کفایت سے کم دینا مکرہ ہے۔اور کفنِ ضرورت مرد وعورت دونوں کےلئے وُہ ہے جو مل جائے۔ کم سے کم اتنا کہ پُورے بدن کو چُھپالے-- پہلے چادر بچھائی جائے پھر اس پر تہبند بچھایا جائے اور قمیص پہنائی جائے اور تہبندپر رکھا جائے، پھر تہبند لپیٹا جائے پہلے بایاں پھر دایاں، پھر اسی طرح چادر لپیٹی جائے تاکہ دایاں بائیں کے اوپر رہے--عورت کو قمیص پہنا کر اس کے بال دو حصہ کرکے سینے پر قمیص کے اوپر ڈال دئے جائیں اور اوڑھنی بال کے اوپر ہو، پھر ویسے ہی کیا جائے جیسے مرد کے بارے میں بیان ہوا--اور اگر کفن منتشر ہونے کا اندیشہ ہوتواسے تہبند باندھ دیا جائے--مراھق(جوبلوغ کے قریب ہو)کا حکم بالغ کی طرح ہے جو مراہق نہیں اسے اگر ایک کفن دیا جائے تو جائز ہے۔ اور ناتمام بچّے کس کپڑے میں لپیٹ دیا جائے ،کفن نہ دیا جائے اھ بہ تلخیص(ت)
(۱؎ درمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۲۱)
ردالمحتار میں ہے :
قولہ ازار ھومن القرن الی القدم والقمیص من اصل العنق الی القدمین، واللفافۃ تزید علی مافوق القرن والقدم لیلف فیہ المیت وتربط من الاعلی الاسفل، امداد،قولہ ای قمیص، اشارالی ترادفھما، کماقالو اوقدفرق بینہما بان شق الدرع الی الصدروالقمیص الی المنکب قھستانی، قولہ وخماربکسر الخاء ماتغطی بہ المرأۃ رأسھا قال الشیخ اسمٰعیل مقدارحالت الموت ثلثۃ اذرع بذراع الکرباس یرسل علی وجھھماولایلف کذا فی الایضاح والعتابی، قولہ وخرقۃ، الاولٰی ان تکون من الثدیین الی الفخذین نھرعن الخانیۃ قولہ وکفایۃ ھوادنی مایکفیہ بلاکراھۃ فھودون کفن السنۃ، قال فی البحر قالوا اذکان بالمال قلۃ والورثۃ کثرۃ فکفن الکفایۃ اولٰی، وعلی القلب کفن السنۃ اولٰی، قولہ ولھا ثوبان لم یعینھما کالھدایۃ وفسرھما فی الفتح بالقمیص واللفافۃ وعینھمافی الکنز بالازار واللفافۃ قال فی البحرالظاہرعلامہ التعین بل اماقمیص وازار وازار ان والثانی اولٰی لان فیہ زیادۃ فی سترالراس والعنق، قولہ ویکرہ ای عندالاختیار، قولہ ویقمص ای یلبس القمیص بعد تنشیفہ بخرفۃ، قولہ ثم یفعل کمامرای بان توضع بعد الباس الدرع والخمار علی الازار ویلف یسارہ الخ قال فی الفتح ولم یذکر الخرفۃ وفی شرح الکنز فوق الاکفان کیلا تنتشر وعرضہا مابین شدی المرأۃ الی السرۃ وقیل مابین الثدی الی الرکبۃ کیلا ینتشرالکفن عن الفخذین وقت المشی، وفی التحفۃ تربط الخرقۃ فوق الاکفان عندالصدرفوق الثدیین اھ قولہ والمراھق کالبالغ الذکر کالذکر والانثٰی کالانثٰی، قولہ ومن لم یراھق الخ ھذا لوذکراقال الزیلعی وادنی مایکفن بہ الصبی الصغیر ثوب واحدوالصبیۃ ثابان اھ وقال فی البدائع وان کان صبیا لم یراھق فان کفن فی خرقتین ازار و رداء فحسن، وان کفن فی ازار واحدجاز، واما الصغیرۃ فلاباس ان تکفن فی ثوبین اھ اقول فی قولہ فحسن اشارۃ الی انہ لوکفن بکفن البالغ یکون احسن، لما فی الحلیۃ عن الخانیۃ والخلاصۃ، الطفل الذی لم یبلغ حدالشہواۃ، الاحسن ان یکفن فیما یکفن فیہ البالغ اھ وفیہ اشارۃ الی ان المراد بمن لم یراھق من لم یبلغ حدالشہوۃ، قولہ والسقط یلف وکذامن ولدمیتا بدائع ۱؎اھ ملتقطا۔
قولہ ازار--یہ سر سے پاؤں تک ہوگا--اور قمیص گردن کی جڑ سے قدم تک--اور چادر سروقدم سے اس قد ر زائد ہوکہ میت کو پہنا کر اوپر اور نیچے سے باندھ دی جائے --امداد ۔قولہ درع یعنی قمیص کا معنی ایک ہے جیسا کہ علماء نے فرمایا، بعض نے دونوں میں یہ فرق بتایا ہے کہ درع کا چاک سینہ کی طرف ہوتا ہے اورقمیص کا شانہ کی طرف،قہستانی ۔قولہ خِمار—خا پرزیر--جس سے عورت کا سر چھپایا جائے ۔ شیخ اسمٰعیل نے فرمایا: میّت کے لئے اس کی مقدار کر باس کے گز سے تین ہاتھ ہے۔اسے چہرے پر ڈالا جائےگا، لپیٹا نہ جائے گا۔ایسا ہی ایضاح اورعتابی میں ہے۔قولہ وخرقہ(اور ایک کپڑا) بہتر ی ہے کہ سینہ بند پستانوں سے رانوں تک ہو نہر ازخانیہ قولہ کفنِ کفایت--یہ کم سے کم اس قدر ہے جو بلا کراہت کافی ہو تو اس کا درجہ کفنِ سنّت سے کم ہے۔ اور بحر میں ہے کہ علماء نے فرمایا جب مال کم ہو اور ورثہ زیادہ ہوں تو کفنِ کفایت بہتر ہے اور برعکس ہوتو کفنِ سنّت بہتر ہے۔قولہ عورت کے لئے دو۲ کپڑے - - دو کون ؟ اس کی تعیین نہ فرمائی جیسے ہدایہ میں تعیین نہیں۔فتح القدیر کے اندر اس کی تفسیر میں قمیص اور چادر کو بیان کیا--اورکنز الدقائق میں تہبند اور چادر معیین کیا--بحر میں کہا ظاہر عدمِ تعین ہے بلکہ قمیص اور تہبند ہو یا دو تہبند--اور ثانی بہتر ہے اس لئے کہ اس میں سر اور گردن چھپانے کے بقدر زیادہ ہوتا ہے۔قولہ کفن کفایت سے کم مکروہ ہے --یعنی جب مجبوری نہ ہو ۔قولہ قمیص پہنائی جائے یعنی میّت کا بدن کسی کپڑے سے خشک کر لینے کے بعد قمیص پہنائی جائے۔ قولہ پھر ویسے ہی کیا جائے --یعنی یہ کہ قمیص اور اوڑھنی پہنانے کے بعد ازار پر رکھا جائے اور پہلے بایاں لپیٹا جائے الخ--فتح القدیر میں ہے خرقہ کی جگہ نہ بتائی۔ شرح کنز میں ہے کہ سینہ بند کفن کے اوپر ہوتا کہ کفن منتشر نہ ہو۔اس کی چوڑائی پستان سے ناف تک اور کہا گیا کہ گھٹنے تک ہوگی تاکہ چلتے وقت رانوں سے کفن منتشر نہ ہو۔تحفہ میں ہے : سینہ بند کفن کے اوپر سینہ کے پاس پستان کے اوپر باندھا جائے ۔قولہ مراہق بالغوں کی طرح ہے--مذکر، مذکر کی طرح اورمونث،مونث کی طرح۔قولہ جومراہق نہیں بالخ--یہ حکم مذکر کا ہے۔زیلعی نے فرمایا: چھوٹے بچّے کو کم سے کم ایک اور بچّی کو دو۲ کپڑے دئیے جائیں گےاھ۔ بدائع میں ہے اگر ایسا بچّہ ہے جو قریب البلوغ نہیں اسے اگر دو کپڑے--تہبند اور چادر--میں کفن دیا تو اچھا ہے اور اگر ایک تہبند میں کفن دیں تو جائز ہے مگر کمسن لڑکی کو دو کپڑے دئیے جائیں تو حرج نہیں اھ--میں کہتا ہوں بچّے کو دو کپڑے دینے کو ''اچھا ''کہنے میں اس طرف اشارہ ہے کہ اگر اسے بالغ کا پورا کفن دے دیا تو ''زیادہ اچھا'' ہے کیونکہ حلیہ میں خانیہ اورخلاصہ سے نقل ہے جو بچّہ حدِّ شہوت کو نہ پہنچا ہو اسے بالغوں کا کفن دینا بہتر ہے اھ اس عبارت میں یہ اشارہ ہے کہ غیر مراہق سے مراد وہ ہے جو حدِّ شہوت کو نہ پہنچا ہو۔ قولہ ناتمام بچہ۔۔۔۔۔۔یہی حکم اس کا بھی ہے جو مُردہ پیداہوا۔بدائع ، اھ (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر ا /۵۷۸ تا ۵۸۰)
عالمگیری میں ہے :
اماالمراۃ فتسبط لھا اللفافۃ والازار علی نحومابینا للرجل ثم توضع علی الازار و تلبس الدرع ویجعل شعرھا ضفیرتین علی صدرھا فوق الدرع ثم یجعل الخمار فوق ذلک ثم یعطف الازار واللفافۃ کمابینا فی الرجل ثم الخرقۃ بعد ذلک تربط فوق الاکفان فوق الثدیین۔ کذا فی المحیط۱؎ اھ قال العبد الضعیف غفراﷲ تعالٰی لہ وھذا کماترٰی نص صریح لایقبل التاویل فی ان الخرقۃتربط فوق الاکفان جمیعا حتی اللفافۃ وھو الذی قدمنا عن الشامی عن الفتح عن التبیین والتحفۃ فعلیہ فلیکن التعویل وان استظھرفی الجوہرۃ کونھا تحت اللفافۃ قائلا،ان قولہم فوق الاکفان یحتمل ذلک وھومنازع فی ھذالاحتمال کمالایخفی فان الاکفان تشتمل اللفافۃ قطعا واین المخصص واین وجہ لظہور ذلک اماما فی الاختیار ثم تربط الخرقۃ فوق القمیص۲؎اھ فاقول لیس نصا فی کونھا تحت الاکفان ماخلا القمیص فان ما فوقھن جمیعا یصدق علیہ انہ فوق القمیص فلا یعارض ان النص الصریح الذی قدمنا مع انہ ھوصرح بہ فی اکثر الکتب فلذا عولنا علیہ وباﷲ التوفیق۔واﷲ تعالٰی اعلم
عورت کے لئے چادر اور تہبند کو اسی طرح بچھایا جائے جیسے تم نے مرد کے لئے بتایا پھر ازار پر اسے رکھ کر قمیص پہنائی جائے اور بالوں کے دو جوڑے کرکے سینے پر لاکر قمیص کے اوپر ڈال دئے جائیں، پھر اس کے اوپر اوڑھنی پہنائی جائے ، پھر ازاراور چادر کو اسی طرح لپیٹا جائے جیسے مرد کے بارے میں ہم نے بتایا ۔پھر اس کے بعد کفنوں کے بعد پستانوں پر سینہ بند باندھا جائے۔اسی طرح محیط میں ہے اھ۔ بندہ ضعیف --خدائے برتر اس کی مغفرت فرمائے--کہتا ہے : یہ عبارت اس بارے میں صریح ناقابل تاویل نص ہے کہ سینہ بند سارے کفن یہاں تک کہ چادر کے بھی اوپر ہوگا--یہی حکم ہم نےشامی از فتح ازتبیین وتحفہ سے پہلے نقل کیا تو اسی پر اعتماد ہونا چاہئے۔اگر چہ جوہرہ میں کہا جبکہ ظاہر یہ ہے کہ سینہ بند چادر کے نیچے ہو،اس کی وجہ یہ بتائی کہ علماء کا اسے کفنوں کے اوپر کہنا اسی معنی کا احتمال رکھتا ہے۔ مگر صاحبِ جوہرہ سے اس کا احتمال کے بارے میں اختلاف کیاجائے گا،جیسا کہ ظاہر ہے--اس لئے کہ ''کفنوں'' کا لفظ چادر کو بھی قطعاً شامل ہے کوئی دلیل تخصیص موجود نہیں،اور اس کے ''ظاہر'' ہونے کی بھی کوئی وجہ نہیں-- رہی اختیار کی یہ عبارت، پھر سینہ بند کو قمیص کے اوپر باندھا جائے گا اھ تو میں کہتا ہوں یہ اس بارے میں صریح نہیں کہ سینہ بندقمیص کے علاوہ سارے کفنوں کے نیچے ہوگا اس لئے کہ جو سارے کفنوں کے اوپر ہو اس کے حق بھی یہ کہنا صادق ہے کہ وہ قمیص کے اوپر ہے۔ اسی طرح یہ عبارت ہمارے پیش کردہ نص صریح کے معارض نہیں مزید یہ کہ جو ہم نے نقل کیا اس کی تصریح اکثر کتابوں میں موجود ہے اسی لئے ہم نے اس پر اعتماد کیا۔ اور خداہی کی جانب سے توفیق ہے(ت) واﷲ تعالٰی اعلم
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ الفصل الثالث فی التکفین مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/ ۱۶۱) (۲؎ الاختیار لتعلیل المختار فصل فی تکفین المیت مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/ ۹۳)