مسئلہ نمبر ۹ : از سرونج مسئولہ عبدالرشید خاں صاحب ۱۹محرم الحرام ۱۳۳۱ھ
مدرسہ دیوبند سے ایک رسالہ مشہور کیا گیا ہے جس میں یہ مسئلہ تحریر ہے مرد حالتِ جنابت میں یا عورت حیض کی حالت میں مر جائے توا س کے حلق سے کوئی کپڑا تر کرکے تین مرتبہ حلق صاف کیا جائے اور ناک میں اُس کی پانی ڈالا جائے ۔آیا یہ مسئلہ درست ہے یا نا درست؟
الجواب
یہ مسئلہ غلط و خلافِ متون وشروح وفتاوٰی وعامہ کتب مذہب ہے۔ ناک میں پانی ڈالنا تو اس رسالہ والے کی اپنی گھڑت ہے، اور تر کپڑا سے بھی صاف کرنا مذہب کے خلاف ہے۔ کنزالدقائق میں ہے :
وضی بلا مضمضۃ واستنشاق۱؎
(میّت کو بےکلی کرائے اور ناک میں پانی ڈالے،وضوکرائے ۔ت)
لانہ لایمکن اخراج الماء منہ فیترکان ویخاف الجنب فیہماوفی غسل الید فان الجنب یبداء بغسل یدیہ والمیت یبداء بغسل وجہہ۲؎۔
اس سے پانی باہر نہیں جاسکتا اس لئے یہ دونوں ترک کر دئے جائیں گے۔غسلِ میت اور غسل جنب میں ایک فرق مضمضہ واستنشاق کا ہے دوسرے ہاتھ دھونے میں، کیونکہ جنب پہلے اپنے ہاتھ دھوئےگا اور میت کا پہلے چہرہ دھویا جائے گا۔(ت)
(۲؎ تبیین الحقائق باب الجنائز مطبوعہ مطبعۃ کبرٰی مصریۃ مصر ۱ /۲۳۶)
شرح الکنز للعلامۃ احمد الشلبی پھر فتح اﷲ المعین للسیّد ابی السعود الازہری پھر طحطاوی علی الدرالمختار میں ہے:
فما ذکرہ الخلخالی ای فی شرح القدوری من ان الجنب یمضمض ویستنشق غریب مخالف لعامۃ الکتب۳؎۔
خلخالی نے شرح قدوری میں جو ذکر کیا ہے کہ جنابت والے مُردے کو کلی کرائی جائے گی اور ناک میں پانی ڈالا جائے گا، یہ غریب اور عامہ کتب کے بر خلاف ہے۔ (ت)
(۳؎ فتح المعین بحوالہ الشبلی باب الجنائز مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۴۴
حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۳۶۶)
دیوبند کے رسالہ میں بہت کثرت سے مسائل غلط ہیں، اُس پر عمل جائز نہیں بلکہ اُسے دیکھنا اُسے گھر میں رکھنا مسلمانوں کو نہ چاہئے، بلکہ دیوبندیوں کی نسبت تمام علمائے کرامم کہ معظّمہ ومدینہ منورہ فتوی تکفیر دے چکے ہیں اور یہ کہ
من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر۴ ۴؎
جو اُن کے عقائد پر مطلع ہوکر اُن کے عذاب و کفر میں شک کرے خود کافر ہے۔
والعیاذ باﷲ تعالٰی ۔واﷲ تعالٰی اعلم
(۴؎ درمختار باب المرتد مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۵۵)
مسئلہ نمبر ۱۰: موضع سرنیا ضلع بریلی مرسلہ شیخ امیر علی قادری ۲۹ ربیع الآخر ۱۳۳۶ ھ
(۱) کوئی سنّی اگر ناپاکی کی حالت میں فوت ہوجائے اُسے ایک غسل دیا جائے گا یا دو۲؟ اورساری ناک میں پانی اور غرارہ کیونکر کیا جائے گا
(۲) بعد نہلانے کے میّت کے پانی یا دوا یا پاخانہ مُنہ یا پاخانہ کی جگہ سے نکلے تو غسل دوبارہ دیا جائے گا یا جگہ پاک کی جائے گی؟
(۳) میّت نہلاتے وقت کس طرح سر پیر ہونا بہتر ہے؟
الجواب
(۱) غسل ایک دیا جائے گا، اور میّت کے ناک اور منہ میں پانی نہیں ڈالتے۔
(۲) غسل دوبارہ دینے کی مطلقاً کسی حال میں حاجت نہیں۔ اگر نجاست برآمد ہو دھودی جائے۔
(۳) جدھر ہو اس کے لئے شرع نے کوئی خاص صورت معین نہیں کی۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ نمبر ۱۱: از شہرعلی گڑھ ،محلہ مداردروازہ، مسئولہ عمر احمد سوداگر پارچہ بنارسی
۴ ربیع الاوّل ۱۳۲۵ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ گھڑے بدھنے میّت کو غسل دینے کے بعد پھوڑ ڈالنا جائز ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا
الجواب
گناہ ہے کہ بلا وجہ تضییع مال ہے کہ اگر وہ ناپاک بھی ہوجائیں تاہم پاک کرلینا ممکن۔حضور سیّدعالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
ان اﷲ کرہ لکم ثلثااﷲ تعالٰی
تین باتیں تمہارے لئے ناپسند رکھتا ہے
قیل وقال وکثرۃ السؤال واضاعۃ المال
فضول بک بک اور سوال کی کثرت اور مال کی اضاعت۱ ؎۔
رواہ الشیخان وغیرھما۔
اور اگر یہ خیال کیا جائے کہ ان سے مُردے کو نہلایا ہے تو ان میں نحوست آگئی تو یہ خیال اوہامِ کفارِ ہند سے بہت ملتا ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ نمبر ۱۲: از موضع سیسونہ ڈاکخانہ شیش گڑھ ضلع بریلی مرسلہ عنایت اﷲ خاں۱محرم ۱۳۳۹ھ
اکثر دیہات میں میّت نہلانے کے واسطے جو گھڑا باندھنا صَرف میں لایا جاتا ہے اس کو قبر کے اوپر سرہانے یا پائنتی رکھ آتے ہیں، اور بعض جگہ غسلِ میّت وہ گھڑا بدھنا مسجد میں رکھ آتے ہیں اس خیال سے کہ نمازیوں کے وضو وغیرہ کے صرف میں آئے تو اچھا ہے،امید ہے کہ اس کا جواب جو بہتر اورموافقِ شرع ہو اس سے مطلع کیا جائے۔
الجواب
قبر کی پائنتی سرہانے رکھ آنے کے کوئی معنی نہیں، اور مسجد میں دینا ثواب ہے جبکہ ان پر ناپاک پانی کی کوئی چھینٹ نہ پڑی ہو، ورنہ پاک کرکے دئےے جائیں،اور اپنے استعمال میں رکھے جب بھی جائز ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ نمبر ۱۳: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مردکو کفن کے(کتنے) پارچے کا دینا چاہئے اور عورت کو کَے(کتنے) پارچے کا چاہئے ؟ اور میّت نابالغ کو کتنا کفن دینا لازم ہے؟ ۔ بینواتوجروا
الجواب
سنّت مرد کے لئے تین کپڑے ہیں ایک تہ بند کہ سر سے پاؤں تک ہو،اور کفن گردن کی جڑ سے پاؤں تک،اور چادر کہ اُس کے قد سے سر اور پاؤں دونوں طرف اتنی زیادہ ہو جسے لپیٹ کر باندھ سکیں۔ پہلے چادر بچھائیں اُس پر تہبند، پھر میّت مغسول کا بدن ایک کپڑے سے صاف کریں پھر اس پر رکھ کر کفنی پہنا کر تہبند لپیٹیں ، پہلے بائیں پھر دہنی طرف لپیٹیں تاکہ دہنا حصہ بائیں کے اوپر رہے۔ پھر اسی طرح چادر لپیٹ کر اوپر نیچے دونوں جانب باندھ دیں۔
اور عورت کے لئے پانچ کپڑے سنّت ہیں،تین یہی ،مگر مرد وعورت کے لئے کفنی اتنافرق ہے کہ مردکی قمیص عرض میں مونڈھوں کی طرف چپرنا چاہئے اورعورت کا طول میں سینے کی جانب۔ چوتھے اوڑھنی جس کا طول ڈیڑھ گز یعنی تین ہاتھ ہو۔ پانچواں سینہ بند کہ پستان سے ناف بلکہ افضل یہ ہے کہ رانوں تک ہو۔ پہلے چادر اور اس پر تہ بند بدستور بچھاکر کفنی پہنا کر تہ بند پر لٹائیں اوراس کے بال دو حصّے کرکے بالائے سینہ کفنی کے اوپر لاکر رکھیں اُس کے اوپر اوڑھنی سر سے اُڑھا کر بغیر منہ لپٹے ڈال دیں، پھر تہ بند اور اس پر چادر بدستور لپیٹیں اور چادر اُسی طرح دونوں سمت باندھ دیں، ان سب کے اوپر سینہ بند بالائے پستان سے ناف یا ران تک باندھیں، یہ کفن سنّت ہے،اور کافی اس قدر ہے کہ مرد کے لئے دو۲ کپڑے ہوں تہبند اور چادر۔اور عورت کے لئے تین ،کفنی و چادراور تیسرے اوڑھنی، اسے کفن کفایت کہتے ہیں۔ اگر میت کا مال زائد اور وارث کم ہوں تو کفن سنّت افضل ہے،اور عکس ہو تو کفن کفایت اولٰی اوراس سے کمی بحالتِ اختیار جائز نہیں۔ ہاں وقتِ ضرورت جو میسر آئے صرف ایک ہی کپڑا کہ سر سے پاؤں تک ہو، مرد و عورت دونوں کے لئے بس ہے۔ جاہل محتاج جب اُن کا مورث محتاج مرتا ہے لوگوں سے پورے کفن کا سوال کرتے ہیں، یہ حماقت ہے، ضرورت سے زیادہ سوال حرام اور ضرورت کے وقت کفن میں ایک کپڑا کافی، بس اسی قدر مانگیں اس سے زائد مانگنا جائز نہیں۔ ہاں ان کو بے مانگے جو مسلمان بہ نیّتِ ثواب پُوراکفن محتاج کے لئے دے گااﷲ عزوجل سے پُورا ثواب پائے گا۔ نابالغ اگر حدِ شہوت کو پہنچ گیا ہے جب اس کا کفن جوان مرد و عورت کی مثل ہے، اور یہ حکم یعنی حدِ شہوت کو پہنچنا پسر میں بارہ۱۲ اور دختر میں نو۹ برس کی عمر کے بعد نہیں رکتا، اور ممکن کہ کبھی اس سے پہلے بھی حاصل ہوجائے جبکہ جسم نہایت قوی اور مزاج گرم اور حرارت جوش پر ہو۔ لڑکوں میں یہ اُس کا عورتوں کی طرف رغبت کرنے لگے اور لڑکیوں میں یہ کہ اُسے دیکھ کر مردوں کو اس کی طرف میل پیدا ہو۔جو بچّے اس عمروحالت کو نہ پہنچیں اُن میں بستر مرگ ایک اور دختر کو دو کپڑوں میں کفن دیں تو کوئی حرج نہیں، اور پسر کو دو۲ ،دختر کو تین۳ دیں تو اچھا ہے۔اور دونوں کو پورا کفن مرد وعورت کا دیں تو سب سے بہتر اورجو بچّہ مردہ پیدا ہو یا کچّا گرگیا اُسے بہر طور ایک ہی کپڑے میں لپیٹ کر دفن کردینا چاہئے کفن نہ دیں۔