Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز)
4 - 243
رابعاًاضافت فعل بسوئے مسبب غیر مستنکر اورحدیثِ علی ان وجوہ پر محمول کرنے سے تعارض مرتفع یعنی ام ایمن نے اپنے ہاتھوں سے نہلایا اورسیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حکم دیایا اسبابِ غسل کو مہیّافرمایا۔
خامساًمولٰی  علی کرم اﷲ وجہہ کے لئے خصوصیت تھی اوروں کا قیاس اُن پر روا نہیں۔ہمارے علماء جو غسلِ زوجہ سے منع فرماتے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ موت بسبب انعدام محل ،ملک نکاح ختم ہوجاتی ہے، تو شوہر اجنبی ہوگیا،
کما افادہ ملک العلماء فی البدائع والمحقق حیث الطلق فی الفتح وغیرھما فی غیرھما۔
جیسا کہ ملک العلماء نے بدائع میں ، محقق علی الاطلاق نے فتح القدیر میں اوردوسراے حضرات نے دوسری کتابوں میں افادہ فرمایا۔(ت)
مگر نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا رشتہ ابدالآباد تک باقی ہے کبھی منقطع نہ ہوگا۔
فقدخرج الحاکم وصححہ والبیھقی عن امن عمر والطبرانی فی الکبیر عنہ وعن ابن عباس وعن المسودرضی اﷲ تعالٰی  عنہم عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم انہ قال کل سبب ونسب ومنقطع یوم القٰی مۃ الاسببی ونسبی۱؎
حاکم بافادہ تصحیح اوربیہقی حضرت ابن عمر سے راوی ہیں--اور طبرانی معجم کبیر میں حضرت ابن عمر،حضرت ابن عباس اورحضرت مِسۡور رضی اﷲتعالٰی  عنہم سے وُہ نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم سے راوی ہیں ۔سرکار نے فرمایا: ہررشتہ اور ہر نسب قیامت کے دن ٹوٹ جائے گا مگر میرا رشتہ اور نسب باقی رہے گا۔
 (۱؎ المستدرک علی الصحیحین     کل نسب وسبب ینقطع الخ     مطبوعہ دارالفکر بیروت    ۳ /۱۴۲)
واخرج البیھقی والدارقطنی بسند، قال ابن حجر المکی رجالہ من اکابر اھل البیت فی حدیث طویل فیہ عن عمر بن الخطاب رضی اﷲ تعالٰی عنہ انہ سمع النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یقول کل صھراوسبب اونسب ینقطع یوم القیٰمۃ الاصھری وسببی ونسبی۲؎
بیہقی اوردارقطنی ایک طقویل حدیث--جس کی سند سے متعلق امام ابن حجرمکی نے فرمایاکہ اس کے رجال، اکابرِ اہل بیت سے ہیں--حضرت عمر بن خطاب رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے راوی ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہر رشتہ نکاح یا قرابت یا نسب قیامت کے دن منقطع ہوجائے گا مگر میرارشتہئ نکاح وقرابت ونسب باقی رہے گا
(۲؎ درمنثور        تحت فلا انساب بینھم        مکتبۃآیۃ اﷲالعظمی قم ایران     ۵ /۱۵)
وقد روی نحوہ من حدیث عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی عنھا قال ابن حجر قال الذھبی واسنادہ صالح ۳۳؎ اھ
اسی کے ہم معنی حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اﷲ تعالٰی  عنہما سے مروی ہے--ابن حجر لکھتے ہیں کہ ذہبی نے کہا: اس کی سند صالح ہے اھ
  (۳؎ درمنثور        تحت فلا انساب بینھم        مکتبۃآیۃ اﷲالعظمی قم ایران     ۵ /۱۵)
ونقل المنادی من الذھبی انہ قال غیر منقطع قلت ان ثبت عندنا الصحۃ وقد قال ابن حجر انہ صح عن عمر کیف وقد تعدد طرقہ وجاء عن جماعۃ من الاصحاب رضی اﷲ تعالٰی عنہم۔
اور مناوی ناقل ہے کہ ذھبی نے کہا : اس کی سند غیر منقطع ہے۔میں کہتا ہوں اگر ہمارے نزدیک صحت ثابت ہو۔ابن حجر نے حضرت عمر سے مروی حدیث کو صحیح بتایا ہے۔ اقل صحت کیوں نہیں جبکہ اس کے طریق متعدد ہیں اور ایک جماعتِ صحابہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہم سے مروی ہے(ت)
اسی لئے منقول ہوا کہ سیّدنا علی کرم اﷲ تعالٰی  وجہہ پر حضرت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالٰی  عنہ نے اس امر پر اعتراض کیا،حضرت مرتضٰی  نے جواب میں ارشاد فرمایا:
اما علمت ان رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال ان فاطمۃ زوجتک فی الدنیا والاٰخرۃ۱؎۔
کیا تمہیں خبر نہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا :فاطمہ تیری بی بی ہے دنیا و آخرت میں۔
 (۱؎ ردالمحتار        باب صلٰوۃ الجنائز        مطبوعہ الطباعۃ المصریۃ مصر        ۱ /۵۷۶)
تو دیکھو اس خصوصیت کی طرف اشارہ فرمایا کہ یہ رشتہ منقطع نہیں۔یہ جواب نہ فرمایا کہ شوہر کو اپنی عورت کو نہلانا رواہے۔ اس سے اور بھی ثابت ہوا کہ صحابہ کرام کے نزدیک صورتِ مذکورہ میں مذہب عدم جواز تھا۔ جب تو حضرت ابنِ مسعود نے انکار فرمایا اورحضرت مرتضٰی  نے اسے تسلیم فرماکر اپنی خصوصیات سے جواب دیا۔
وھذا خلاصۃ مافی الدرالمختار وردالمحتار عن شرح المجمع مع زیادات النفائس۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
یہ اس کا خلاصہ ہے جودُرمختار اور ردالمحتار میںشرح مجمع الانہر سے منقول ہے مزید برآں کچھ نفیس افادات بھی ہیں۔(ت) واﷲ تعالٰی  اعلم
مسئلہ نمبر ۷: از شہر کہنہ بریلی  ۲۲صفر  ۱۳۱۷ ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ حالتِ زندگی میں خاوند اپنی بی بی کا ولی ہوتا ہے مانند ماں باپ کے یا نہیں؟ جو ہوتا ہے تو بعد موت کے ولایت قائم رہتی ہے یا نہیں؟ اگر رہتی ہے تو ہاتھ لگانا ،منہ دیکھنا، اجازت نماز کی دینا جائز ہے یا نہیں؟ اور نکاح رہتا ہے یا نہیں؟ اور ایک صاحب فرماتے ہیں کہ بعد وفاتِ فاطمہ صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہا کے حضرت علی کرم اﷲ وجہہ ،نے اپنے ہاتھ سے غسل دیا، اگر یہ بات حق ہے تو ہم لوگ بھی اپنی عورتوں کو غسل دیں تو جائز ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب

شوہر ولی نہیں، نہ حیات میں نہ بعد موت۔نہ موتِ زوجہ سے نکاح قائم رہے۔اور یہ کسی حدیث صحیح سے ثابت نہیں کہ مولٰی  علی کرم اﷲ وجہہ الکریم نے خود اپنے ہاتھ سے غسل دیا، اور بالفرض ہو بھی تو رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے علاقے موت سے قطع نہیں ہوتے اور سب کے علاقے قطع ہوجاتے ہیں، یہ مضمون خود حدیث میں وارد ہے تو اوروں کو اُن پر قیاس جائز نہیں، مرد اپنی عورت کو غسل نہیں دے سکتا۔
کما فی الدر وعامۃ الاسفار
 (جیسا کہ دُرمختار اور عامۂ کتب میں ہے۔ت) واﷲ تعالٰی  اعلم
مسئلہ نمبر ۸: مرسلہ محمد اکرم حسین ازہردوئی بوساطت مولٰنا حامد حسین صاحب مدرس اوّل مدرسہ اہلسنت     ۲۵ جمادی الاولٰی ۱۳۲۲ ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک صاحب نے رو برو  یہ مسئلہ بیان کیا کہ اگر کسی شخص کی عورت یا عورت کے شوہر کا انتقال ہوجائے تو شوہر عورت کو اور عورت شوہر کو غسل نہیں دے سکتی ہیں،غسل کیا معنی بلکہ چھو نہیں سکتے ہیں خواہ غسل دینے والے موجود ہوں یا نہ ہوں،کیونکہ نکاح دنیا تک ہے جب دو۲ میں سے کسی کا انتقال ہوگیا نکاح فسخ ہوگیا۔جب نکاح فسخ ہوگیا تو عورت مرد کو اور مرد عورت کو نہیں چھو سکتا ہے اُس پر چھونا حرام ہوگیا، آیا ایسا ہوسکتا ہے؟مکلف ہوں کہ بہت جلد جواب سے سرفراز فرمایا جاؤں ۔بینوا توجروا
الجواب

یہ مسئلہ مرد کے بارہ میں صحیح ہے کہ وُہ بعد وفاتِ زن اُسے غسل نہیں دے سکتا،نہ اُس کے بدن کو ہاتھ لگا سکتا ہے کہ موت سے عورت اصلاً محلِ نکاح نہ رہی۔چھُونے کا جواز صرف بر بنائے نکاح تھا ورنہ زن وشوہر اصل میں اجنبی محض ہوتے ہیں ،اب کہ نکاح زائل ہوگیا،چھونے کا جواز بھی جاتا رہا۔اور عورت کے بارے میں بھی صحیح ہے اُس حالت میں کہ وقتِ غسل عورت زوجیتِ زوج میں نہ ہو۔مثلاً مرد نے طلاق بائن دے دی تھی یا بعدِ وفات شوہر عدت گزر گئی، مثلاً عورت حاملہ تھی شوہر کے انتقال ہوتے ہی بچہّ پیدا ہوگیا کہ اب عدّت نہ رہی اور زوجیت سے یکسر نکل گئی ،اسی طرح عورت معاذاﷲ بعد وفات شوہر مرتدہ ہوگئی،پھر اسلام لے آئی یا پسرِ شوہرکو شہوت کے ساتھ چھو لیا کہ ان سب صورتوں میں نکاح زائل ہوگیا، بخلاف اس کے کہ شوہر مرگیا اور عورت عدّتِ وفات میں ہے، یا شوہر نے طلاق رجعی دی تھی اور ہنوز عدت باقی تھی کہ اس کا انتقال ہوا، ان صورتوں میں عورت اپنے شوہر کو غسل دے سکتی ہےکہ ہنوز حکمِ زوجیّت  باقی ہے۔
فی الدرالمختار یمنع زوجھا من غسلہا ومسھا لامن النظر الیھا علی الاصح وھی لاتمنع من ذلک ولو ذمیۃ بشرط بقاء الزوجیۃ والمعتبر فی الزوجیۃ صلاحیتھا لغسلہ حالۃ الغسل لاحالۃ الموت فتمنع من غسلہ لوبانت قبل موتہ او ارتدت بعدہ ثم اسملت اومست ابنہ بشہوت لزوال النکاح وجازلھا غسلہ لو اسلم زوج المجوسیۃ فمات فاسلمت بعدہ فحل مسہا حینئذٍ اعتبارا  بحالت الحیٰوۃ ۱؎ اھ مختصراً۔
درمختار میں ہے شوہر کے لئے عورت کو غسل دینا اور چھُونا منع ہے، دیکھنا منع نہیں۔ یہی اصح ہے، اور عورت کے لئے یہ سب ممنوع نہیں اگرچہ ذمّیہ ہو بشرطیکہ زوجیت باقی ہو۔ اور اعتبار اس کا ہے غسل دینے کے وقت اس قابل ہو، مرنے کے وقت کا اعتبار نہیں۔ تو اسے شوہر کو غسل دینا منع ہوگا اگر اس کے مرنے سے پہلے بائن ہوگئی یا مرنے کے بعد مرتد ہوگئی پھر اسلام لائی یا اس کے بیٹے کو شہوت سے چُھودیا کیونکہ ان صورتوں میں نکاح باقی نہ رہا۔ اور اگر مجوسیہ کا شوہر مسلمان ہوکر مر گیا اس کے بعد عورت مسلمان ہوئی تو شوہر کو غسل دینا جائز ہے اس وقت اس کو چھونے کا جواز حالتِ حیات کا اعتبار کرکے ہے اھ مختصراً (ت)
 (۱؎ درمختار        باب صلٰوۃ الجنائز        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱ /۱۲۰)
ردالمحتار میں ہے :
طلقہا رجعیاثم مات فی عدتھافانھاتغسلہ لانہ لایزل ملک النکاح بدائع۲ ؎۔واﷲ تعالٰی اعلم
عورت کو طلاق رجعی دی  پھر عدت میں انتقال کرگیا تو عورت اُسے غسل دے سکتی ہے اس لئے کہ اس سے ملکِ نکاح ختم نہیں ہوتی،بدائع (ت) واﷲ تعالٰی  اعلم۔
 (۲؎ ردالمحتار       باب الصلوۃ الجنازہ        ادارۃ العٰباعۃ المریۃ مصر      ۱ /۵۷۶)
Flag Counter