Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز)
3 - 243
وعبارۃالسنوسی من شرح الصغری مصرحۃ بذلک حیث قال،ولما ابتھج قلبہ بنور الحقیقۃ وکان الانتقاع بھا موقوفاعلی القیام برسوم الشریعۃ ،وذٰلک لایکون الابالادمان علی ذکر صاحبھا المبلغ لھاعن اﷲ تعالٰی سیدنا محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم احتاج الذاکر بعد کلمۃ التوحید الدالۃ علی الحقیقۃ باثبات رسالۃ سیدنا محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لیحفظ نور توحید ہ بادخالہ فی منیع حرزالشریعۃ فلھذایقول الذاکر لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ وھکذاینبغی فی کل ذکر من اذکاراﷲ تعالٰی ان لا یغفل المؤمن فیہ عن ذکر سیدنا محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فاما ان یصلی علیہ اثرہ اویقر برسالۃ مع الصلٰوۃ علیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم وتعظیمہ والتمسک باذیالہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اذھو صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم باب اﷲ الاعظم الذی لا ینال کل خیر دینا واخری الابالتعلق بہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فمن غفل ذکرہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ والتمسک بہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لم ینل مقصودہ وکان مرمیا بہ فی سجن القطعیۃ محرومابہ من خیرالدنیا والاٰخرۃ وسیدنا محمد لھودلیل الخلق الی اﷲ تعالٰی فکیف یصل الی اﷲ تعالٰی من غفل عن دلیلہ ۔
شرح صغری میں علامہ سنوسی کی عبارت اس سلسلے میں صاف اور صریح ہے،ان کے الفاظ یہ ہیں :
لاالٰہ الااﷲ
کہنے سے ذاکر کے دل میں نورِ حقیقت کی بہجت تو آگئی مگر اس سے نفع یابی آدابِ شریعت کی بجاآوری پر موقوف ہے۔اور اس ادب کی بجاآوری کی صورت یہی ہے کہ اس کلمہ والے آقا جو اسے خدائے برتر کے پاس لے کر تبلیغ فرمانے والے ہیں،سیّدنا محمد صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم ،ان کاذکر پاک جاری رکھے۔اس لئے حقیقت پر دلالت کرنے والے کلمہ توحید کو کہہ لینے کے بعد ضرورت ہے کہ ذاکر ہمارے آقا محمد محمد صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی رسالت کا بھی اثبات کرے تاکہ شریعت کی مضبوط پناہ میں لاکر اپنے نورِ توحید کو محفوظ رکھ سکے ۔اسی لئے ذاکر کہتا ہے
لا الٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ ۔
اسی طرح اﷲ تعالٰی  کے اذکار میں سے کسی بھی ذکر میں مومن کو سیدنا محمد صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے ذکر سے غافل نہیں ہونا چاہئے ۔خدا کے ذکر کے بعد سرکار پر درود بھیجے،یا ان کی رسالت کا اقرار کرے ،ساتھ ہی آقا صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم پر درود کی ادائیگی ،تعظیم کی بجا آوری ،اور سرکاراقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے دامنِ پاک سے وابستگی بھی رکھے اس لئے کہ حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم خدائے برتر عظیم ترین باب اور زریعہ ہیں کہ دنیا وآخرت کی کوئی بھلائی ان سے وابستگی کے بغیر دستیاب نہ ہوگی۔ اس لئے جوسرکار اقدس صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے ذکر پاک اورحضور صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا دامن تھامنے سے غافل ہوا وہ نامراد رہا اوراُسے دنیا وآخرت کی بھلائی سے محروم کرکے بے تعلقی کے قید خانے میں ڈال دیا گیا-ہمارے آقا صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم ہی تو خدائے برتر کی جانب مخلوق کے رہبر ہیں، جو اپنے رہبر ہی سے غافل ہو اسے خدا تعالٰی  تک رسائی کیسے حاصل ہوگی!
وقد قال بعض من طبع اﷲ علٰی قلبہ ممن یعاطی التصوف ولیس ھومن اھلہ مقالۃ قریبۃ من الکفراوھی الکفربعینہ ان الاکثار من ذکر النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم حجاب عن اﷲ تعالٰی وسبک بعض الضالین مثل ھذہ العبارۃ فقال اذا افرد التھایل عن اثبات الرسالۃ کان ابلغ واسرع فی تاثیر معنی التوحید واحتج لضلالہ وتسویل شیطانہ بان قال للتھلیل معنی والاثبات الرسالۃ معنی واذااختلف المعانی علی الباطن ضعف التاثیر وبعدت الثمرۃ قال وانما یحتاج الٰی وصل الذکرین عندالدخول فی الاسلام۔
ایک ایسے شخص نے-جس کے دل پر خدا نے مُہر کردی ہے،جو تصوف کا شغل رکھتا ہے حالانکہ وہ اہلِ تصوف سے نہیں-کفر سے قریب یا بعینہٖ کفر کی بات کہی ہے کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کا زیادہ ذکر کرنا خدائے تعالٰی  سے حجاب بن جاتا ہے--اور ایک گمراہ نے اسی طرح کی بات تراشتے ہوئے کہا کہ صرف لا الٰہ الا اﷲکہاجائے محمد رسول اﷲنہ کہا جائے تو یہ معنی توحید کی تاثیر میں زیادہ بلیغ اور زیادہ تیز ہوتا ہے--وہ اپنی اسی گمراہی اورشیطان کی ملمع کاری پر یوں استدلال کرتا ہے کہ لا الٰہ الااﷲ کا معنی اور ہے اورمحمدرسول اﷲکامعنی اور۔ جب باطن پر مختلف معانی کا ورد ہوتا ہے توتاثیر کمزور ہوجاتی ہے اور ثمرہ دور جانا پڑتا ہے--توحید واثباتِ رسالت دونوں کوملانے کی ضرورت صرف اس وقت ہے جب اسلام میں داخل ہورہا ہو۔
قال بعض الائمۃ الراسخین فی العلم رضی اﷲ تعالٰی عنھم وھذالمقالۃ والعیاذباﷲمن الفتن التی لاموردلھا الا النار ولاعقبی لھاسوی دارالبواروماذلک الامکر واستدراج الٰی رفض الشریعیۃ والانحلال من رقبتھا وتعطیل رسومھا ولوعلم ھذاالضال ماتحت قول محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من الاسرارالتوحیدیۃ والحکم الالوھیۃ لانفشح عن ذلک العمی فاصاب المرمی۱؎ اھ واﷲ تعالٰی اعلم۔
علم میں راسخ بعض ائمہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہم کا فرمان ہے کہ خدا کی پناہ! یہ کلام ان فتنوں سے ہے جن کا ٹھکانہ صرف دوزخ ہے اور ان کا انجام صرف تباہی وبربادی ہے۔یہ شریعت کو چھوڑنے،اس کا قلادہ گردن سے باہر پھینکنے، اور آدابِ شرع سے بے قیدی کی جانب شیطان کی مکّاری اوراستدراج کے سوا کچھ بھی نہیں--اگراس گمراہ کو خبر ہوتی کہ کلمہ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے تحت توحید کے اسرار اورالوہیت کے رموزِ حکمت کیا کیا ہیں تو وُہ اس اندھے  پن سے نکلتا اور گوہرِ مراد کا ہاتھ میں لیتا اھ واﷲ تعالٰی  اعلم(ت)
(۱؎ شرح الصغری للسنوسی )
مسئلہ نمبر ۳: (۱) میّت کے پاس زمین پر بیٹھنا افضل ہے،چارپائی پر کیا منع ہے؟

(۲) میّت والے کے یہاں کیا روٹی پکانا منع ہے؟
الجواب

(۱) کوئی ممانعت نہیں ،واﷲ تعالٰی  اعلم 

(۲) موت کی پریشانی کے سبب وُہ لوگ پکاتے نہیں ہیں، پکانا کوئی شرعاً منع نہیں ، یہ سنت ہے کہ پہلے دن صرف گھر والوں کے لئے کھانا بھیجا جائے اور انہیں بااصرار کھلایا جائے ،نہ دوسرے دن بھیجیں، نہ گھر سے زیادہ آدمیوں کے لئے بھیجیں ،واﷲ تعالٰی  اعلم
مسئلہ نمبر۴: ۲۹ جمادی الآخرہ ۱۳۱۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میّت کو نہلانے کے لئے جو تختے پر لٹائیں تو شرقاً غرباً لٹائیں کہ پاؤں قبلے کو ہوں، یا جنوباً شمالہً کہ دہنی کروٹ قبلہ کو ہو۔بینوا تو جروا۔
الجواب

سب طرح درست ہے، مذہبِ اصح میں اس باب میں کوئی تعیین وقید نہیں، جو صورت میسر ہو اُس پر عمل کریں۔
فی الھندیہ عن الظھیریۃ کیفیۃ الوضع عند بعض اصحابنا الوضع طولاکما فی حالۃ المرض اذا ارادالصلٰوۃ با یماء، ومنھم من اختار الوضع کما یوضع فی القبر والاصح انما یوضع کماتیسر ۱؎اھ
ہندیہ میں ظہیریہ سے منقول ہے: ہمارے بعض علماء کے نزدیک لِٹانے کی صورت یہ ہے کہ طول میں لِٹایا جائے جیسے بیماری کی حالت میں جب اشارے سے نماز پڑھنا چاہے تو یہی صورت ہے، اور بعض حضرات نے عرض میں لٹانا پسند کیا ہے جیسے قبر میں لٹایا جاتا ہے، اور اصح یہ ہے کہ جیسے میسر ہو لٹایا جائے اھ (ت)اس طرح بحرالرائق و درمختار وغیرہما میں ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم
 (۱؎ فتاوی ہندیۃ         الفصل الثانی فی الغسل من الجنائز     مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۱ /۱۵۸ )
مسئلہ نمبر۵:  ۴صفر ۱۳۲۰ھ

کاٹنا مرد کے بال مرنے کے بعد جائز ہے یا نہیں؟
الجواب

ناجائز ہے،
فی الدرلایسرح شعرہ ای یکرہ تحریما ولایقص ظفرہ الاالمکسور ولاشعرہ ولایختن۲؎،
در مختار میں ہے: میّت کے بالوں میں کنگھا نہ کیا جائے یعنی یہ مکروہِ تحریمی ہے، اور اس کے ناخن نہ تراشے جائیں مگر جو ٹوٹا ہُوا ہے، نہ ہی بال تراشے جائیں نہ ختنہ کیا جائے۔
 (۲؎ درمختار     باب صلٰوۃ الجنائز       مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۲۰)
وفی ردالمحتار عن النھر عن القنیۃ، التزیین بعد موتھا والامتشاط وقطع الشعر لایجوز۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
ردالمحتار میں نہر سے ،اس میں قنیہ سے منقول ہے: اس کے مرنے کے بعد زینت کرنا، کنگھا کرنا بال کاٹنا ناجائز ہے۔واﷲ تعالٰی  اعلم(ت)
 (۱؎ ردالمحتار   باب صلٰوۃ الجنائز         مطبوعہ ادارۃ الاطباعۃ المصر یۃ مصر     ۱ /۵۷۵)
مسئلہ نمبر۶: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ عورت مر جائے تو شوہر کواسے غسل دینا جائز ہے یا نہیں؟بینواتوجروا۔
الجواب

ناجائز ہے،
فی تنویر الابصار،یمنع زوجھا من غسلھا۱؎ اھ
تنویرا لابصار میں ہے: خاوندکو بیوی کے غسل سے منع کیا جائے گااھ(ت)
 (۲؎تنویرالابصار متن الدرالمختار       باب صلٰوۃ الجنائز         مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی            ۱ /۱۲۰)
اور وہ جو منقول ہُواکہ سیّدنا علی کرم اﷲ وجہہ، نے حضرت بتول زہرارضی اﷲ تعالٰی  عنہا کوغسل دیا،
اوّلاً اسکی ایسی صحت ولیاقت حجّیت محلِ نظر ہے۔
ثانیاًدوسری روایت یوں ہے کہ اُس جناب کو حضرت اُمِ ّایمن رضی اﷲ تعالٰی  عنہا نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کی دائی نے غسل دیا۔
ثالثاًبمعنی امر، شائع،
یقال قتل الامیر فلانا''وقاتل الملک القوم الفلانی'' اذن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم''ای امر بالتاذین۔
کہا جاتا ہے ''امیر نے فلاں کو قتل کیا--'' بادشاہ نے فلاں قوم سے جنگ کی''--حدیث میں آیا:نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے اذان دی'' یعنی اذان کا حکم دیا۔(ت)
Flag Counter