(ویلقن الشھادۃ) فیجب علی اخوانہ واصدقائہ ان یقولواعندہ کلمتی الشھادۃ قال النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من کان اٰخر کلامہ لاالٰہ الااﷲدخل الجنۃ۱؎ ۔
میّت کو شہادت سکھائیں اس حکم سے اُس کے عزیزوں دوستوں پر واجب (نہایت مؤکد) ہے کہ دونوں شہادتیں اس کے پاس پڑھیں ،رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں جس کا اخیر کلام لا الٰہ الااﷲ ہو وہ جنّت میں جائے۔
(۱؎ مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۱۷۹)
بحرالرائق میں ہے:
(لقن شھادۃ ) بان یقال عندہ لا الٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ۲؎ ۔
میّت کو شہادت کی تلقین یُوں کہ اُس کے پاس لا الٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲپڑھیں۔
(۲؎ بحرالرائق کتاب الجنائز مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۷۰)
دمِ نزع شہادت کی تلقین کریں اور شہادت یہ ہے کہ اشھد ان لاالٰہ الااﷲ واشھدان محمداعبدہ، ورسولہ کہیں۔
(۳؎ شرح الکنز لملّا مسکین علی حاشیۃ فتح العین باب الجنائز مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۳۴۲)
کافی شرح وافی میں ہے:
لقن الشھادۃ ای قول اشھدان لاالٰہ الااﷲ واشھدان محمداعبدہ، ورسولہ لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لقنواموتاکم شھادۃ ان لا الٰہ الااﷲ۴؎ ۔
شہادت کی تلقین کریں اور شہادت یہ کہ اشھد ان لا الٰہ الااﷲ واشھدان محمداعبدہ، ورسولہ،اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے میت کو تلقینِ شہادت کا حکم فرمایا ہے۔
(۴؎ کافی شرح وافی)
جامع الرموز میں ہے:
اشارفی الکافی والمضمرات الی ان المرادمن الشھادۃ ''اشھدان لاالٰہ الااﷲ واشھدان محمد عبدہ، ورسولہ''۱؎ ۔
کافی ومضمرات میں اشارہ فرمایا کہ شہادت سے مراد پورا کلمہ شہادت ہے۔
(۱؎ جامع الرموز فصل الجنائز مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قاموس ایران ۱ /۲۷۸)
حلیہ امام ابن امیرالحاج میں ہے :
ولقن شھادۃ ان لاالٰہ الااﷲ وان محمدارسول اﷲبان یقال عندہ وھویسمع ولایقال لہ قل واذاقالھما لایلح علیہ بتکریرھما اذالم یخض فی کلام اٰخر لمخافۃ تبرمہ۲؎ ۔
میّت کو
لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ
کی تلقین کریں یوں کہ خود اس کے پاس پڑھیں کہ وُہ سُن کر پڑھے، اوریوں نہ کہیں کہ کہہ ،اور جب دونوں جُز کلمہ کے کہہ لے تو اُس سے دوبارہ کہنے کا اصرار نہ کریں کہ کہیں اکتا نہ جائے، ہاں کلمہ پڑھنے کے بعد کوئی اوربات اس نے کی تو پھر تلقین کریں کہ آخر کلام
لا الٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲہو۔
(۲؎ حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
مستصفی میں ہے :
لقن الشہادتین لا الٰہ الااﷲ محمد رسول اﷲ۳؎ ۔
دونوں شہادتیں تلقین کی جائیں
لا الٰہ الا اﷲ محمد رسول اﷲ،صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔
(۳؎ ردالمحتار بحوالہ المستصفی باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۶۲۷ )
اشعۃ اللعمات شرح مشکوٰۃ میں ہے :
لقنواموتاکم لا الٰہ الااﷲ تلقین کنید مردہائے خودرایعنی آنہاکہ نزدیک بمردن رسیدہ اند کلمہ طیبہ را۴؎ ۔
اپنے مُردوں کو جو مرنے کے قریب پہنچ گئے انہیں کلمہ طیبہ یاد دلاؤ۔(ت)
(۴؎ اشعۃ اللمعات شرح مشکوٰۃ باب ما یقال عند من حضرہ الموت مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر ۱ /۶۶۰)
غرض نقل مستفیض سے ہے، اورمسئلہ واضح اوراسلامی نگاہ میں شیطانی قول اپنے قائل کا فاضح،ہاں بعض متاخرین شافعیہ نے یہ کہاکہ صرف لاالٰہ الااﷲکہنے پر ثواب موعود مل جائے گا،معاذاﷲ وہ بھی یہ نہیں کہتے کہ مرتے وقت محمد رسول کہنا منع ہے یہ ممانعت محض مردودومطرودوخلافِ اجماع ہے۔
فالعلامۃ الشرنبلالی من متاخری علمائنا مع تقریرہ الدررعلی ماقدمناہ اجاب عن تعلیلھا ان الاولٰی لاتقبل بدون الثانیۃ تبعالابن الحجر المکی من متاخری الشافعیۃ ان الکلام فی المسلم اقول انہ مسلم ولاتطلب منہ انشاء ایمان لم یکن، بل تکذکیرماکان وحفظہ عن افساد الشیطان وتلک الشہادتان یجب ان تصان لان الاولٰی لاتقبل بدون الثانیۃ قال الشافعی قلت وقدیشیرالیہ ای الی الافراد تعبیر الھدایۃ والوقایۃ والنقایۃ الکنز بتلقین الشھادۃ۱؎اھ
ہمارے علمائے متاخرین میں سے علامہ شرانبلالی نے دُرر میں مذکورہ حکم -دونوں شہادتوں کی تلقین -کو تو برقرار رکھا مگر اس میں حکم کی جو علّت ذکرکی گئی ہے کہ''لا الٰہ الااﷲ بے محمد رسول اﷲ کے مقبول نہیں'' اس کا شافعی متاخر عالم ابن حجرمکی کی تبعیت میں جواب دیاکہ ''کلام مسلمانوں کے بارے میں ہے۔اقول ہمیں تسلیم ہے کہ وہ مسلمان ہے اور اس سے مطالبہ نہیں کہ تیرے پاس ایمان نہ تھا، تو ایمان لا، بلکہ مقصود صرف یہ ہے کہ اس کے پاس جو ہے اسی کی یاددہانی کی جائے اور شیطان کے فساد کاری سے بچایا جائے اوردونوں شہادتوں کا تحفظ ضروری ہے اس لئے کہ پہلی، دوسری کے بغیر مقبول نہیں۔ابن حجر شافعی کہتے ہیں :میں کہتا ہوں بدایہ،وقایہ،نقایہ اور کنزالدقائق میں تلقینِ ''شہادت'' کے الفاظ ہیں''شہادتین'' نہیں۔اس سے اشارہ ملتا ہے کہ ایک ہی شہادت سے کام ہوجائے گا۔
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ ابن حجر الشافعی باب صلٰوۃ الجنائز ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر ۱ /۵۷۰)
اقول الشھادۃ اسم جنس فیشمل الشھادتین الاتری الی الامام النسفی صاحب الکنز عبرفی اصلہ الوافی بماعبرفیہ ثم فسرہ فی شرحہ الکافی بالشھادتین وکذلک فی البحرالرائق والمضمرات وجامع الرموز ومجمع الانھر ولملامسکین کماسمعت ومن الدلیل علیہ ان نقل فی البدایۃ نظم القدوری وقد ثنی فعلم ان المفرد فیہ کالمثنی۔
اقول لفظِ شہادۃاسمِ جنس ہے اس لئے یہ شہادتین کو بھی شامل ہے۔ دیکھئےکنزالدقائق کے مصنف امام نسفی نے جس طرح کنز میں شھادۃبلفظ مفرد لکھا اسی طرح اس کی اصل ''وافی'' میں بھی لکھا مگر اس کی شرح''کافی'' میں اس کی تفسیر ''شھادتین''سے فرمائی۔اسی طرح البحرالرائق ،مضمرات، جامع الرموز، مجمع الانہر اورشرح ملّا مسکین میں بھی شہادت کی تفسیر میں پورا کلمہ ذکر ہو اجیسا کے ان سب کی عبارتیں گزریں - اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہہدایہ میں قدوری ہی کی عبارت نقل ہوئی ہے،قدوری میں''شہادتین'' تھا۔ہدایہ میں''شہادۃ'' رکھنے سے یہ معلوم ہوا کہ اس میں مفرد بھی ثنیہ(دو۲) ہی کا معنی رکھتا ہے۔
یہاں علامہ محقق محمد سنوسی پھرعلامہ ابراہیم بجوریری رحمہمااﷲ تعالٰی کا ایک نفیس وجلیل کلام قابلِ حفظ ہے۔علامہ باجوری شرح رسالہ فضالیہ میں فرماتے ہیں:
اعلم انہ لابدبعد قول الذاکرلا الٰہ الااﷲ ان یقول محمدرسول اﷲ لاجل ان یحفظ بذلک مایحصل لہ من نورالتوحید ۱؎
یہ ذہن نشین رہے کہ ذاکر جب لا الٰہ الااﷲکہے تو اسے محمد رسول اﷲکہنابھی ضروری ہے تاکہ اسے جو نورِ توحید حاصل ہوا وہ محفوظ ہوجائے۔