Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز)
18 - 243
 (۹) فرماتے ہیں کہ شرح مطہر میں اُس سے ممانعت نہ آنا ہی اس کے جواز کی دلیل ہے۔ اگر جنازے کے ساتھ ذکر الٰہی  منع ہوتا تو کم از کم ایک حدیث تو اس کی ممانعت میں آتی، جیسے رکوع میں قرآن مجید پڑھنا منع ہے، تو اسکی ممانعت کی حدیث موجود ہے، تو جس چیز سے نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے سکوت فرمایا وہ کبھی ہمارے زمانے میں منع نہیں ہوسکتی۔
 (۱۰) نتیجہ یہ نکلا کہ اگر جنازے کے تمام ہمراہی بلند آواز سے کلمہ طیبّہ وغیرہا ذکرِ خدا و رسول عزو علا و صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کرتے چلیں تو کچھ اعتراض نہیں بلکہ اس کا کرنا نہ کرنے سے افضل ہے۔

نیز امام نابلسی ممدوح کتاب مذکور میں فرماتے ہیں :
لاینبغی ان ینھی الواعظ عما قال بہ امام ائمۃ المسلمین بل ینبغی ان یقع النھی عمااجمع الائمۃ کلھم علی تحریم۱ ؎۔
یہ نہ چایئے کہ واعظ ایسی چیز سے روکے جسے ائمہ مسلمین میں سے کسی امام نے جائز کہا ہو بلکہ ممانعت ایسے کام سے ہونا چاہئے جس کی حرمت پر سب ائمہ کا اجماع ہو۔ (ت)
 (۱؎ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ  الخلق الثامن والاربعون من الاخلاق الخ  مطبوعہ نوریہ رضویہ فیصل آباد ۲ /۱۵۱)
درمختار  میں  ہے :
تحریما صلوۃ مع شروق الاالعوام فلا یمنعون من فعلھا لانہم یترکونھا والاداء الجائز عندالبعض اولی من الترک کما فی القنیۃ وغیرھا۲ ؎۔اھ
سورج نکلتے وقت نماز مکروہِ تحریمی ہے مگر عوام کوا س سے منع نہ کیا جائےگا اس لئے کہ وہ نماز ہی ترک کردیں گے--جبکہ ترک سے وہ ادائیگی بہتر  ہے جو  بعض کے نزدیک جائز ہے جیسا کہ قنیہ وغیرہا میں ہے اھ۔
 (۲؎ دُرمختار     کتاب الصلٰوۃ     مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۶۱)
قلت ونقلہ سیّدی عبدالغنی فی الحدیقۃ عن شرح الدرر لابیہ عن المصفی شرح النسفیۃ عن الشیخ الامام الاستاذ حمدالدین عن شیخہ الامام الاجل جمال الدین المحبوبی وایضاعن شمس الائمۃ الحلوانی وعن القنیۃ عن النسفی والحلوانی وایضافی ردالمحتار البحرعن المجتبی عن الامام الفقیہ ابی جعفر فی مسئلۃ التکبیر فی الاسواق فی الایام العشر، الذی عندی انہ لاینبغی ان تمنع العامۃ عنہ لقلۃ رغبتھم فی الخیر وبہ ناخذ  ۱؎ اھ
میں کہتا ہوں اسے سیدی عبدالغنی نابلسی نے حدیقہ ندیہ میں اپنے والد کی شرح درر سے نقل کیا ہے اُس میں نسفیہ کی شرح مصفی سے۔ اس میں شیخ امام استاذ حمیدالدین نقل ہے۔ انہوں نے اپنے شیخ امامِ اجل جمال الدین محبوبی سے نقل کیا ہے۔ اورشمس الائمہ حلوانی سے اور قنیہ سے اُس میں نسفی وحلوانی سے بھی نقل کیا ہے--اورردالمحتار میں بحر سے، اس میں مجتبٰی  سے، اس میں امام فقیہ ابوجعفر سے عشرہ ذی الحجہ میں بازاروں کے اندر تکبیر کہنے کے مسئلہ میں نقل ہے کہ میرے نزدیک یہ ہے کہ عوام کوا س سے نہ روکا جائے کہ اس کی وجہ سے نیکیوں میں ان کی رغبت کم ہو جائے گی، اورہم اسی کو لیتے ہیں اھ --
 (۱؎ ردالمحتار    باب العیدین     مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر        ۱ /۵۶۴)
وفی الحدیقۃ الندیۃ، ومن ھذا القبیل نھی الناس عن صلوۃ الرغائب بالجماعۃ وصلوۃ لیلۃ القدر  و نحو ذلک وان صرح العلماء بالکراھۃ بالجماعۃ فیہا فلا یفتی بذلک العوام لئلا تقل رغبتھم فی الخیرات۲؎ واﷲ تعالٰی اعلم۔
حدیقہ میں ہے : اسی قبیل سے جماعت کے ساتھ صلٰوۃ الرغائب اور نماز  شب قدر  اور اس جیسے افعال سے نہی کا معاملہ ہے کہ اگرچہ علماء نے جماعت کے ساتھ یہ نماز  مکروہ  ہونے کی صراحت فرمائی ہے مگر عوام کو اس کا فتوٰی  نہ دیا جائے گا کہ نیکیوں میں ان کی رغبت کم نہ ہوجائے---اور خدائے برتر خوب جاننے والا ہے۔(ت)
 (۲؎ حدیقہ ندیہ شرح طریقہ محمدیہ     الخلق الثامن والاربعون    مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ فیصل آباد   ۲ /۱۵۰)
مسئلہ نمبر ۲۴ : ازاحمدا ۤبادگجرات محلہ جمال پور     مرسلہ مولوی حکیم عبدالرحیم    ۲۵ رمضان المبارک ۱۳۳۹ ھ

ہمارے یہاں شہر احمد آباد میں جنازہ کے ہمراہ کلمہ طیّب کا ذکر احبابِ اہلسنّت درمیانی آواز  سے کرتے ہیں اسے بعض مکروِ تحریمی و تنزیہی کہتے ہیں ان کی تردید میں علمائے اہلسنّت نے چار۴ رسالے تصنیف کرکے شائع کئے ہیں اور وُہ اہل حق کے  پاس موجود ہیں، الحمدﷲ علٰی  ذلک، اب ضرورت اس مسئلہ کی اہلسنّت کو ہے، حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند قدس سرہ العزیز نے اپنے جنازہ میں فارسی کے اشعار اور حضرت شاہ غلام علی صاحب دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے جنازہ میں عربی اشعار پڑھنے کی مریدوں کو وصیّت کی---
مقاماتِ مظہریہ ص ۱۵۷ میں ہے :
می فرمودند کہ حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمۃ اﷲ علیہ فرمودند کہ فاتحہ خواندن پیشِ جنازہ ماوکلمہ طیب و آیت شریفہ بے ادبی است ایں دو۲ بیت بخوایندہ : ؎
فرماتے ہیں کہ حضرت خواجہ بہاء الدین نقشبند رحمۃ اﷲ علیہ نے فرمایا: ہمارے جنازہ کےسامنے فاتحہ ،کلمہ طیب اورآیت شریفہ پڑھنا بے ادبی ہے یہ دو شعر پڑھنا:
 (۱) مفلسا نیم آمدہ در کوئےتو		 شیئاﷲ ازجمال روئے تو
 (۱) ہم مفلس آپ کی گلی میں آئے ہیں، خداکے لئے اپنے جمالِ رُخ کا کچھ صدقہ عطا ہو۔
 (۲) دست بکشا جانبِ زنبیل ما 	 آفرین بردست و بر پہلوئے تو
 (۲) ہماری جھولی کی طرف ہاتھ بڑھائیں ، آپ کے ہاتھ اور آپ کے پہلو پر آفرین ہو۔
من ہم میگویم پیش جنازہ من ہمیں اشعار بخدانند: ؎
میں بھی کہتاہوں میرے جنازہ کے سامنے یہی اشعار پڑھنا:
 (۱) وقدت علی الکریم بغیر زاد

من حسنات والقلب السلیم

(۲)فحملی الزاداقبح کل شیئ

 اذاکان الوفود علی الکریم   ۱؎
 (۱) کریم کے دربار میں قلبِ سلیم اور نیکیوں کا کوئی توشہ لئے بغیر جارہا ہوں۔

(۲) کہ جب کسی کریم کے دربار میں حاضری ہو تو توشہ لے کر جانا بہت بُری بات ہے۔(ت)
(۱؎ مقاماتِ مظہریہ)
حضرت شاہ غلام علی دہلوی قدس سرہ العزیز مولانا خالد کردی کے مرشد برحق ہیں ضمیمہ مقاماتِ مظہریہ کے ص۲۹ میں مولانا خالد کردی اپنے قصیدہ میں فرماتے ہیں:  ؎
 (۱) وانالنی اعلی الماٰرب والمعنی

 اعنی لقاء المرشد المفضالٖ
 (۱) مجھے سب سے بلند مقصد وآزرو عطافرمائی۔ یعنی بڑے فضل وکرم والے مرشد کی صحبت نصیب کی۔
 (۲) من نور الآفاق بعد ظلامھا

 وھدی جمیع الخلق بعدضلالٖ
 (۲) وہ جس نے تاریک آفاق روشن کردئے  اور ساری گمراہ مخلوق کو ہدایت فرمائی۔
 (۳) اعنی غلام علی القرم الذی

 من لحظہ یحیی الرمیم البالی ۲؎
 (۳) یعنی وُہ سردار عظیم غلام علی جس کی نظر سے بوسیدہ ہڈیوں میں جان پڑجاتی ہے۔
(۲؎ ضمیمہ مقاماتِ مظہریہ)
اور یہ مولانا خالد کروی علامہ شامی کے مرشد ہیں، اس کا ثبوت ردالمحتار جلد ۲صفحہ ۴۵۲ کی اس عبارت سے ہے:
وقد بسطنا الکلام فی رسالتنا سل الحسام الہندی لنصرۃ سیدنا خالد النقشبدی۱  ؎۔
اور ہم نے اپنے رسالہ''سل الحسام الہندی لنصرۃ سیدنا خالد النقشبندی ــ''میں تفصیل سے کلام کیا ہے۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار        کتاب النکاح قبیل فصل فی المحرمات        ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر        ۲ /۲۷۶)
علامہ شامی کے دادا مرشد کے جنازہ میں عربی اشعار اور حضرت خواجہ بہاءالدین نقشبند رحمہ اﷲ تعالٰی  کے جنازہ میں فارسی اشعار پڑھے گئے، ان اشعار کا پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟ جائز ہے تو دلائل کیا ہیں؟ جو مکروہ تحریمی کہتے ہیں وہ علامہ شامی کی ردالمحتار ج۱ ص ۹۳۲ کے اس قول کو پیش کرتے ہیں :
 (قولہ کماکرہ الخ) قیل تحریما وقیل تنزیھا کما فی البحرعن الغایۃ وفیہ عنہا و ینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظہیریۃ فان ارادان یذکراﷲتعالٰی یذکرہ فی نفسہ لقولہ تعالٰی انہ لایحب المعتدین ای الجاھرین بالدعاء وعن ابراہیم انہ کان یکرہ اذیقول الرجل وھویمشی معھا استغفروالہ غفراﷲلکم اھ قلت واذاکان ھذافی الدعاء والذکر فماظنک بالغناء الحدث فی ھذا الزمان۲؎۔
 (جیسا کہ مکروہ ہے) کہا گیا  تحریمی، اور کہا گیا تنزیہی ، جیسا کہ بحر میں غایہ کے حوالے سے ہے اوراسی میں اس کے حوالے سے یہ بھی ہے:جنازہ کے ساتھ چلنے والے کو طول سکوت اختیار کرنا چاہئے، اور اس میں ظہیریہ کے حوالے سے ہے۔ اگر اﷲ کا ذکر کرنا چاہے تو آہستہ کرے اس لئے کہ ارشادِ باری ہے : بے شک وُہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا۔یعنی وُہ جو بلند آواز سے دُعا کرتے ہیں--حضرت ابراہیم نخعی سے مروی ہے کہ جب وُہ جنازے کے ساتھ چلتے اور کوئی بولتا'' اس کےلئے استغفار کر و خداتمہاری مغفرت فرمائے'' توا نہیں ناگوار ہوتا اھ میں کہتاہوں جب دُعا وذکر کا یہ حکم ہے تو اس نغمہ زنی کے بارے میں تمہارا کیاخیال ہے جو اس زمانے میں پیدا ہوگئی ہے۔(ت)
 (۲؎ ردالمحتار   باب صلٰوۃ الجنائز     مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر    ۱ /۵۹۸)
اس عبارت سے حضرت شاہ غلام علی وخواجہ بہاءالدین قدس سرہما نے جو فارسی و عربی کے اشعار اپنے جنازوں میں پڑھوائے اُن کی کراہت ثابت ہوتی ہے یا نہیں اور عدم کراہت و جواز اُن اشعارکی کیا وجہ ہے اور غناء حادثات کی کراہت کی کیا وجہ ہے، دونوں کا حکم بیان فرمائیں ، اور یہاں جنازہ کے ہمراہ یہ اشعار اردو کے بھی حضرات خوش الحانی سے پڑھتے ہیں اس اشعار کو پڑھیں یا نہیں ؎

یا پنجتن بچانا جب جان تن سے نکلے            نکلے تو یامحمد کہہ کر بدن سے نکلے

آوے گا میرا  پیارا باجےگی دھن کی مُرلی        جب وُہ مِرا سنوریاجوبن کے بن سے نکلے

میرے مریضِ دل کی امید ہے تویہ ہے        زانو  پہ اُس کے سر ہو  اور جان تن سے نکلے

نکلے جنازہ میرا اُس یار کی گلی سے            تو کلمہ شہادت سب کے دہن سے نکلے

کیا لایا تھا سکندر دنیا سے لے گیا کیا             تھے دونوں ہاتھ خالی باہر کفن سے نکلے
Flag Counter