فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز) |
وذکر الشعرانی ایضارحمۃ اﷲ تعالٰی فی کتابہ عھودالمشائخ قال لا نمکن احدامن اخواننا ینکرشیئا ابتدعہ المسلمون علٰی جھۃ القربۃ الی اﷲتعالٰی وراؤہ حسنالا سیماماکان متعلقا باﷲتعالٰی ورسولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم قرائۃ القراٰن امامھا ونحوذٰلک فمن حرم ذلک فھوقاصرعن فھم الشریعۃ لانہ ماکل مالم یکن علی عھد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم یکون مذموماولوفتح ھذاالباب لردت اقوال المجتھدین فی مجیع ما استحبوامن المحاسن ولاقائل بہ قد فتح رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لعلماء امتہ ھذا الباب واباح لھم ان یسنوا کل شئ استحسنوہ ویلحقوہ بشریعۃ رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم بقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من سن سنۃ حسنۃ فلہ اجرہ من یعمل بھا وکلمۃ لاالٰہ الااﷲمحمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اکبر الحسنات فکیف یمنع منھا وتأمل احوال غالب الخلق الاٰن فی الجنازۃ تجدھم مشغولین بحکایت الدنیالم یعتبروابالمیت وقلبھم غافل عن جمیع ماوقع لہ بل رأیت منھم من یضحک واذاتعارض عندنا مثل ذٰلک وکون ذٰلک لم یکن فی عھدرسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قدمنا ذکراﷲعزوجل لوصاح کل من فی الجنازۃ لاالٰہ الااﷲ فلااعتراض ولم یاتنا فی ذلک شئ من رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلوکان ذکراﷲتعالٰی فی الجنازۃ منھیا عنہ لبلغنا ولوفی حدیث کمابلغنا فی قراءۃ القراٰن فی الرکوع وشئ سکت عنہ الشارع صلی اﷲتعالٰہ وسلم اوائل الاسلام لایمنع منہ اواخراالزمان ۱؎اھ باختصار قلیل
علامہ شعرانی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ نے اپنی دینی کتاب عہود المشائخ میں فرمایاکہ اپنے ہم دوستوں میں سے کسی کو ایسے امر پر نکیر کی اجازت نہ دیں گے جسے مسلمانوں نے اﷲ عزوجل کی بارگاہ میں تقرب کے طور پر ایجاد کیا ہو اور اسے اچھا جانتے ہوں۔ خصوصاً ایساکام جسکا تعلق خداتعالٰی اور اسکے رسول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے جیسے جنازہ کے آگے لاالٰہ الااﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پڑھنا اورا س کے سامنے قرآن کی تلاوت کرنا،یا ایسے دوسرے کام--جواسے حرام کہے وُہ فہمِ شریعت سے قاصر ہے، اس لئے کہ ہر وہ کام جو عہد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں نہ رہا ہو بُرا نہیں، اگر یہ دروازہ کھولا جائے تو مجتہدین کرام کے وہ سارے اقوال مردود ٹھہریں جو انہوں نے اپنی پسند کردہ اچھی چیزں کے بارے میں فرمائے ہیں--اور اس کا کوئی قائل نہیں--خودرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنی امت کے علماء کے لئے یہ دروازہ کھول رکھا ہے اور انہیں اجازت دی ہے کہ جو طریقہ بھی اچھا سمجھیں اسے جاری کریں اور رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی شریعت میں شامل کریں یہ اجازت رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے اس ارشاد گرامی سے ثابت ہے: جوشخص کوئی اچھا کام ایجاد کرے اسے اس ایجاد کا ثواب ملے گا اور اس طریقے پر ائندہ سارے عمل کرنے والوں کا بھی ثواب ملے گا--کلمہ لاالٰہ الاﷲ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تو سب سے بڑی نیکی ہے پھر اس سے کیوں کر روکا جائےگا؟-- اس زمانے میں جنازے کے اندر اکثر لوگوں کےاحوال پر نظر کرو دنیاکی باتوں میں مشغول ملیں گے جنہیں میت کےحال سے کوئی عبرت نہیں، ان کا دل اس سارے واقعے سے غافل ہے، بلکہ ان میں ہسنے والے بھی نظر آئیں گے--ذکر نہ کریں تو یہ حالت اور ذکر میں مشغول ہوں تو یہ اعتراض ہے کہ یہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے زمانہ میں نہ تھا۔ ہمارے نزدیک جب ایسا تعارض درپیش ہے تو ہم اﷲ کے ذکر کو مقدم رکھیں گے--اب اگر سارے شرکاءِ جنازہ پکار کر لاالٰہ الاﷲ کہیں تو اس پر کوئی اعتراض نہیں۔ اس سے ممانعت میں رسول اﷲ صلی ا تعالٰی علیہ وسلم کا کوئی ارشاد وارد نہیں۔ اگر جنازے میں ذکر الٰہی ممنوع ہوتا تو کسی نہ کسی حدیث میں تو یہ حکم وارد ہوتا، جیسے رکوع میں قرآن شریف پڑھنا ممنوع ہے تو اس بارے میں حدیث آئی ہے۔ تو جس چیز سے ابتدائے اسلام میں شارع علیہ الصلٰوۃ والصلام نے سکونت فرمایا وہ ہمارے آخر زمانے میں ممنوع نہیں ہوسکتی اھ باختصار قلیل(ت)
(۱؎ حدیقہ شرح طریقہ محمدیہ الصنف الثالث کتاب الصلٰوۃ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ۲/۹۔۴۰۸)
اس کلام جمیل امام جلیل رحمہ اﷲ تعالٰی علیہ کا خلاصہ ارشادات چند افادات :(۱) سلف صالح کی حالت نماز جنازہ میں یہ ہوتی کہ ناواقف کو نہ معلوم ہوتا کہ ان میں اہلِ میت کون ہے۔ اور باقی ہمراہ کون، سب ایک سے مغموم و محزون نظر آتے ہیں، اور اب حال یہ ہے کہ جنازے میں دنیاوی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں، موت سے انہیں کوئی عبرت نہیں ہوتی، ان کے دل اس سے غافل ہیں کہ میّت پر کیا گزری ، فرماتے ہیں: بلکہ میں نے لوگوں کو ہنستے دیکھا، تو ایسی حالت میں ذکر جہر کرنا اور تعظیم خدا اور رسول جل جلالہ، وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بلند آواز سے پڑھنا عین نصیحت ہے کہ ان کے دلوں کے زنگ چھوٹیں اور غفلت سے بیدار ہوں۔(۲) نیز اُس میّت کو تلقین ذکر کافائدہ ہے کہ وہ سن سن کر سوالات نکِیرین کے جواب کے لئے تیار ہو۔
(۳) سیدی علی خواص رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا شارع علیہ الصلٰوۃ والسلام کی طرف مسلمانوں کو ذکرِ خدا ا ور رسول جل جلا لہ، و صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کااذنِ عام ہے تو جب تک کسی خاص صورت کی ممانعت میں کوئی نص یا اجماع نہ ہو انکار کیا مناسب ہے ؟
(۴) نیز انہی امام عارف نے فرمایا: الٰہی جو اس سے منع کرے اس کا دل کس قدر دسخت اندھا ہے، جنازے کے ساتھ ذکر خدا و رسول جل جلا لہ، و صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے بندکرنے کی تو یہ کوشش اور بھنگ بِکتی دیکھیں تو اُس سے اتنا نہ کہیں کہ یہ تجھ پر حرام ہے، فرماتے ہیں بلکہ میں نے انہی میں ایک کو دیکھا کہ اس سے تو منع کرتا اور خود اپنی پیش نمازی کی تنخواہ بھنگ فروش کے حرام مال سے لیتا۔
(۵) امام عارف باﷲ سیّدی شعرانی قدس سرہ الربانی فرماتے ہیں : اکابرکرام کے یہاں عہد ہے جو اچھی بات مسلمانوں نے نئی نکالی ہو اُسے منع نہ کریں گے خصوصاً جب وُہ اﷲ و رسول عزجلالہ، وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے تعلق رکھتی ہو، جیسے جنازے کے ساتھ قرآن مجید یا کلمہ شریف یااور ذکر خداورسول جل وعلا وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۔
(۶) نیز امامِ ممدوح فرماتے ہیں: جو اُسے ناجائز کہے اسے شریعت کی سمجھ نہیں۔(۷) نیز فرماتے ہیں: ہر وہ بات کہ زمانِ برکت تو اماں حضور پُر نور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم میں نہ تھی مذموم نہیں ہوتی، ورنہ اس کا دروازہ کُھلے تو ائمہ مجتہدین نے جتنی نیک باتیں نکالیں اُن کے وُہ سب اقوال مردود ہوجائیں۔
(۸) فرماتے ہیں: بلکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اپنے اُس ارشاد سے کہ (جو شخص دینِ اسلام میں نیک بات نکالے اُسے اس کا اجر ملے اور قیامت تک جتنے لوگ اس نیک بات کو بجا لائیں سب کا ثواب اُس کی ایجاد کنندہ کے نامہ اعمال میں لکھا جائے) علمائے امّت کے لئے اس کا دروازہ کھول دیا ہے کہ نیک طریقے ایجاد کریں اور انہیں شریعت محمدیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے ملحق کریں، یعنی جب حضورِ انورصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے یہ عام اجازت فرمائی ہے جو نیک نئی بات نئی پیدا ہوگئی وہ نئی نئی نہیں بلکہ حضور کے اس اذنِ عام سےحضور ہی کی شریعت ہے صلی ا ﷲ تعالٰی علیہ وسلم۔