فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز) |
اب کہ زمانہ منقلب ہُوا، لوگ جنازہ کے ساتھ اور دفن کے وقت اور قبروں پر بیٹھ کر لغویات وفضولیات اور دنیوی تذکروں بلکہ خندہ ولہو میں مشغول ہوتے ہیں توانہیں ذکرِخدا و رسول جل وعلا وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی طرف مشغول کرنا عین صواب وکارِ ثواب ہے معہذا جنازہ کے ساتھ ذکرِ جہر کی کراہت میں اختلاف ہے کہ تحریمی ہے یا تنزیہی ہے، اور ترجیح بھی مختلف آئی۔قنیہ میں کراہت تنزیہ کو ترجیح دی اور اسی پر فتاوٰی تتمہ میں جزم فرمایا اور یہی تجرید و مجتبی و حاوی و بحرالرائق وغیرہا کے لفظ ینبغی کامفاد ہے اور ترک ادنی اصلاً گناہ نہیں
کما نصو اعلیہ وحققناہ فی جمل مجلیۃ
(جیسا کہ علماء نے اس کی صراحت فرمائی اور ہم نے رسالے
جُمَل مجَلِّیَۃ ان المکروہ تنزیھا لیس بمعصیۃ ۱۳۰۴ھ
میں اس کی تحقیق کی ہے۔ت) اور عوام کواﷲ عزوجل کے ایسے ذکر سے منع کرنا جو شرعاً گناہ نہ ہو محض بدخواہی عام مسلمین ہے اور اس کا مرتکب نہ ہوگا مگر متقشف کہ مقاصدِ شرع سے جاہل وناواقف ہو یا متصلف کہ مسلمانوں میں اختلاف ڈال کر اپنی رفعت وشہرت چاہتا ہو،بلکہ ائمہ ناصحین تو یہاں تک فرماتے ہیں کہ منع کرنا اُس منکر سے ضرور ہے جو بالاجماع حرام ہو، بلکہ تصریحیں فرمائیں کہ عوام اگر کسی طرح یادِخدا میں مشغول ہوں ہرگز منع نہ کئے جائیں اگرچہ وہ طریقہ اپنے مذہب میں حرام ہو، مثلاً سُورج نکلتے وقت نماز حرام ہے اور عوام پڑھتے ہوں تو نہ روکے جائیں کہ کسی طرح وہ خدا کا نام تو لیں اسے سجدہ تو کریں اگر چہ کسی دوسرے مذہب پر اس کی صحت ہوسکے ۔
امام علّامہ عارف باﷲ ناصح الامہ سید عبدالغنی نابلسی قدس سرہ القدسی کتاب مستطاب الحدیقۃ الندیۃ فی شرح الطریقۃ المحمدیۃ میں فرماتے ہیں:
قال فی شرح الطحطاوی علی مشیع الجنازۃ الصمت وعبرفی المجتبی والتجدید والحاوی ینبغی ان یطیل الصمت وسنن المرسلین الصمت معھاکذافی منیۃ المفتی ویکرہ لھم رفع الصوت کراھۃ تحریم وقیل تنزیہ، قنیۃ ، وھویکرہ علی معنی انہ تارک الاولی کماعزاہ فی التتمۃ الی والدہ وفی شرح شرعۃ الاسلام المسمی بجامع الشروح یستکثرمن التسبیح والتھلیل علی سبیل الاخفاء خلف الجنازۃ ولایتکلم بشیئ من امرالدنیا لکن بعض المشائخ جوزوا الذکر الجھری ورفع الصوت بالتعظیم بغیر التغییر بادخال حرف فی خلالہ قدام الجنازۃ وخلفھا لتلقین المیت والاموات والاحیاء وتنبیہ الغفلۃ والظلمۃ و ازالۃ صداء القلوب وقساوتھا یجب الدنیا وریاستھا وفی کتاب العھود المحمدیۃ للشیخ الشعرانی قدس اﷲ تعالٰی سرہ ینبغی لعالم الحارہ ان یعلم من یرید المشی مع الجنازۃ عدام اللغو فیھا وذکر من تولٰی وعزل عن الولاۃ اوسافر ورجع من التجار ونحوذلک کان السلف الصالح لایتکلمون فی الجنازۃ الابماورد وکان الغریب لایعرف لغلبۃ الحزن علی الحاضرین کلھم وکان سیدی علی الخواص رضی اﷲ تعالٰی عنہ یقول اذاعلم من الماشین مع الجنازۃ انھم لایترکون اللغوفی الجنازۃ ویشتغلون باحوال الدنیا فینبغی ان یامرھم بقول لا الٰہ الااﷲمحمدرسول اﷲ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فان ذلک افضل من ترکۃ ولاینبغی لفقیہ ان ینکر ذٰلک الابنص او اجماع فان مع المسلمین الاذن العام من الشارع بقول لاالٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ فی کل وقت شاؤا ویاﷲالعجب من عمی قلب من ینکر مثل ھذا و ربماعزم عند الحکام الفلوس حتی یبطل قول المؤمنین لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فی طریق الجنازۃ وھویری للحشاش حرم علیک بل رأیت فقیھا منھم یاخذ معلوم امامۃ من فلوس بائع الحشیش فنسأل اﷲالعافیۃ ۔
شرح طحطاوی میں ہے: جنازہ کے ساتھ چلنے والے پر خاموشی لازم ہے--مجتبی ، تجرید اور حاوی کے الفاظ یہ ہیں کہ: اسے طول سکونت اختیار کرنا چاہئے حضرت رُسل علیہم السلام کی سنت یہی ہے کہ جنازہ کے ساتھ خاموش رہیں۔ اسی طرح منیۃ المفتی میں ہے--لوگوں کا آواز بلند کرنا مکروہ تحریمی ہے اور کہا گیا کہ تنزیہی ہے،مبتغی--کراہت تنزیہ ہے اور کہا گیا کہ کراہت تحریم ہے، قنیہ --آواز بلند کرنا مکروہ ہے یعنی ترک اولٰی ہے، جیسا کہ تتمہ میں اسے اپنے والد کے حوالے سے ذکر کیا۔ اورشرعۃ الاسلام کی جامع الشروح نامی شرح میں یہ ہے کہ: جنازہ کے پیچھے سرّی طور پر زیادہ سے زیادہ تسبیح وتہلیل کرے، کوئی دنیاوی بات نہ بولے، لیکن بعض مشائخ نے جہری ذکر کو بھی جائز کہا ہے اس طرح کہ درمیان میں کوئی بات ڈالے بغیر جنازہ کے آگے اور پیچے تعظیم کے ساتھ بآوازِ بلند ذکر کریں تاکہ میت اور دوسرے زنداں کو تلقین ہو، غافلوں ظالموں کو تنبیہ ہو، دنیا کی محبت وریاست سے دلوں میں جو زنگ اور درشتی ہے وہ دور ہو--علامہ شعرانی قدس سرہ، کی کتاب العہود المحمدیہ میں ہے کہ عالمِ محلہ کو چاہئے کہ جولوگ جنازہ کے ساتھ چلنا چاہتے ہیں انہیں تعلیم دے کر لغو سے پرہیز کریں اس طرح کی باتوں میں نہ پڑیں کہ فلاں حکمران بنا، فلاں والی معزول ہوا، فلاں تاجر سفر میں گیا، فلاں واپس آیا۔ سلف صالحین کی روش یہ تھی کہ جنازہ میں کچھ نہ بولتے مگر وُہ جو حدیث میں وارد ہے۔ سارے حاضرین پر حزن وغم کا ایک ایساغلبہ رہتا کہ اجنبی اور پردیسی شخص کو جب تک بتایا نہ جائے یہ معلوم ہی نہ ہوتا کہ میّت کا قریبی کون ہے--سیدی علی خواص رضی اﷲ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں کہ جب جنازہ کے ساتھ چلنے والوں کے بارے میں یہ معلوم ہو کہ وہ لغو سے باز نہ آئیں گے اوردنیا کی باتوں میں مشغول رہیں گے تو انہیں لاالٰہ الااﷲ محمد رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پڑھنے کا حکم دینا چاہئے کیونکہ ایسی حالت میں اسے پڑھنا نہ پڑھنے سے افضل ہے۔ اور کسی فقیہ کو بغیرنص اجماع کے اس سے انکار مناسب نہیں-- اس لئے کہ مسلمانوں کے لئے شارع کی جانب سے وُہ جب بھی چاہیں لا الٰہ الااﷲ محمدرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پڑھنے کو باطل کہہ کے حکام کے یہاں مال حاصل کرنا چاہتاہو، دُوسری طرف یہ حال ہوکہ بھنگ بکتی دیکھے تو بھنگ فروش سے یہ کہنے کی زحمت گوارا نہ ہو یہ تجھ پر حرام ہے-- بلکہ اس طبقے کے فقیہ کو میں نے دیکھا کہ وہ بھنگ فروش کے مال سے اپنی امامت کی تنخواہ وصول کرتا --تو خداہی سے عافیت کا سوال ہے۔