Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز)
15 - 243
مسئلہ نمبر ۲۲ :   ۶ ربیع الثانی ۱۳۱۷ھ

ہندوستان کے لوگوں کا دستور ہے کہ جب عورت کی حالتِ نزع ہوتی ہے تب اُس کے شوہر کو اُس کے پاس نہیں جانے دیتے اور اس کا شوہر حالتِ نزع میں اُس کے پاس نہیں جاتا اُس عورت کی تکفین وتدفین میں بھی شوہر کو شریک نہیں کرتے اور کہتے ہیں اب اس کا رشتہ ٹوٹ گیا، آیا یہ فعل ان کا جائز ہے یا ناجائز؟ بینواتوجروا
الجواب

جب تک جسم ِزن میں روح باقی ہے اگرچہ حالتِ نزع ہو بلاشبہ اس کی زوجہ ہے، اور اس وقت شوہر کو پاس نہ آنے دینا ظلم ہے اور اسی وقت سےرشتہ منقطع سمجھ لینا سخت جہل، اور بعد موتِ زن بھی شوہر کو دیکھنے کی اجازت ہے البتہ ہاتھ لگانا منع ہے
کمانص علیہ فی التنویر والدروغیرھما
 (جیساکہ تنویر الابصار اوردُرمختار وغیرہما میں اس کی تصریح ہے ۔   ت) واﷲ تعالٰی  اعلم
مسئلہ نمبر ۲۳: ازپنجاب ضلع جہلم ڈاکخانہ وریلوے اسٹیشن ترقی موضع غازی ناڑہ مرسلہ محمد مجید الحسن صاحب۔   ۵ ذی القعدہ ۱۳۳۹ھ
مشہور خدمت جناب صاحب حجتِ قاہرہ مجددِ ماتہ حاضرہ مولٰنا مولوی احمد رضاخان صاحب دام ظلمکم علٰی  راس المستر شدین بعد سلام سنتہ  الاسلام عرض ہے کہ اس ملک میں جنازہ کے آگے مولود خوانی میں اختلاف اور جھگڑا ہے ایک طائفہ بحرالرائق ومراقی الفلاح و قاضی خان و عالمگیری وغیرہا کی عبارات سے مکروہ تحریمی کہتے ہیں، اوردوسری جماعت جائز و مستحب کہتی ہے، آپ کی تحریر پر جملہ مسلمانوں کا فیصلہ ہے کئی ماہ کے تنازع کا فیصلہ ہوگا۔ عبارات فریق قائل کراہت ۔ردالمحتار :
قیل تحریما وقیل تنزیھا کمافی البحرعن الغایۃ وفیہ عنھا وینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت وفیہ عن الظھیریۃ فان ارادان یذکراﷲتعالٰی یذکرفی نفسہ لقولہ تعالٰی انہ لایحب المعتدین ای الجاھرین بالدعاء قلت اذاکان ھذافی الدعاء والذکر فماظنک بالغناء الحادث فی ھذاالزمان ۱؎ ۔
کہا گیا کہ مکروہِ تحریمی ہے اور کہاگیا کہ تنزیہی جیساکہ بحر میں غایہ سے منقول ہے، اور اُس میں اسی سے یہ بھی ہے : جنازہ کے پیچھے چلنے والے کو برابر سکوت رکھنا چاہئے ،اور اسی میں ظہیریہ سے ہے : اگر اﷲ تعالٰی  کا ذکر کرنا چاہے تو دل میں کرے اس لئے کہ باری تعالٰی  کا ارشاد ہے : وُہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا--یعنی دُعامیں جہر کرنے والوں کو-- میں کہتاہوں یہ جب دعاوذکر کا حکم ہے تواُس نغمہ اور گانے کا کیا حال ہوگا جواس زمانے کی پیداوار ہے--
(۱؎ ردالمحتار     باب صلٰوۃ الجنائز    مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر    ۱ /۵۹۸)
بحرالرائق ینبغی لمن تبع الجنازۃ ان یطیل الصمت ویکرہ رفع الصوات بالذکر وقراءۃ القراٰن ۱؂ الخ
البحرالرائق میں ہے جنازہ کے پیچھے چلنے والے کو طول سکوت اختیار کرنا چاہئے اور بلند آواز سے ذکر وتلاوت قرآن مکروہ ہے الخ(ت)
 (۱؎ بحرالرائق    کتاب الجنائز     فصل السلطان احق بصلٰوتہ   مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی  ۲ /۱۹۲)
عبارت فریق قائل بحلت عن ابن عمر رضی اﷲتعالٰی عنہما لم یکن یسمع من رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم وھو یمشی خلف الجنازۃ الاقول لا الٰہ الااﷲ اخرجہ ابن عدی فی ترجمۃ ف براہیم بن ابی حمید وضعفہ، تخریج احادیث الھدایۃ لابن حجر۲؎ ۔
حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی  عنہ سے مروی ہے: جب رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم جنازہ کے پیچھے چلتے تو حضورسے کلمہ لا الٰہ الااﷲکے سوا کچھ نہ سُنا جاتا --ابن عدی نے ابراہیم بن ابی حمید کے حالات میں اس کی تخریج کی ہے اور اسے ضعیف کہا ہے ۔تخریج احادیث ہدایہ ازعلامہ ابن حجر (ت)یعنی اس سے ادنٰی  جہر ثابت ہوتا ہے  وغیرہ ۔ بینواتوجروا
 (۲؎ الکامل فی ضعفاء الرجال   ترجمہ ابراہیم بن احمد کے تحت    مطبوعہ  دارالفکر بیروت        ۱/۲۶۹

صحیح بخاری     کتاب الحیض   مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی     ۱/۴۴)
ف:ھو ابراھیم بن احمد الحرانی الضریر،انظر حاشیۃ نصب الرایۃ        ۲/ ۲۹۲

ابراہیم الحرانی ھوابن ابی حمید متہم بوضع الحدیث، انظر اللسان    ۱/۲۸    نذیر احمد سعیدی
الجواب
وعلیکم السلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ،
ہاں کتبِ حنفیہ میں جنازے کے ساتھ ذکرِ جہر کومکروہ لکھا ہے جس طرح خود نفسِ ذکرِ جہر کو بکثرت کتب حنفیہ میں مکروہ بتایا حالانکہ وہ اطلاعات قرآن عظیم واحادیثِ حضور سید المرسلین صلی تعالٰی  علیہ وسلم سے ثابت ہے اور عندالتحقیق کراہت کا عروض نظر بعوارض خارجہ غیر لازمہ ہے جیسا کہ علامہ خیرالدین رملی استاد صاحبِ درِمختار وغیرہ محققین نے تحقیق فرمایا اور ہم نے اپنے فتوٰی  میں اُسے منقح کیا، یہاں بھی اُس کا منشاء عوارض ہی ہیں قلب ہمراہیاں کا مشوش ہونا یادِموت سے دوسری طرف توجہ کرنا انصاف کیجئے تو یہ حکم اس زمانِ خیر کے لئے تھا جبکہ ہمراہیانِ جنازہ تصوّرِ موت میں ایسے غرق ہوتے تھے کہ گویا میّت ان میں ہر ایک کا  خاص اپنا کوئی جگر پارہ ہے بلکہ گویا خود ہی میت ہیں، ہمیں کو جنازہ پر لئے جاتے ہیں اور اب قبر میں رکھیں گے ،ولہذا علماء نے سکوتِ محض کو پسند کیا تھا کہ کلام اگرچہ ذکر ہی ہو اگرچہ آہستہ ہو، اس تصور سے کہ(بغایت نافع اور مفید اور برسوں کے زنگ دل سے دھودینے والا ہے) روکے گا یا کم از کم دل بٹ تو جائے گاتو اس وقت محض خاموشی ہی مناسب تر ہے، ورنہ خاموش ﷲ ذکر ِخدا ورسول نہ کسی وقت منع ہے۔
ام المومنین صدیقہ رضی اﷲ تعالٰی  عنہ فرماتی ہیں:
کان رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم یذکراﷲتعالٰی علٰی کل احیانہ ۱؎ ۔ رواہ مسلم وابوداؤد والترمذی وابن ماجۃ وَعَلَّقَہُ البخاری۔
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم ہر وقت خدا کا ذکر کیا کرتے۔اسےمسلم، احمد، ابوداؤد، ترمذی ، ابن ماجہ نے روایت کیا اور بخاری نے تعلیقاً روایت کیا۔(ت)
 (۱؎ صحیح مسلم    کتاب الحیض   مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی  ۱/ ۱۶۲)
نہ کوئی چیز اس سے بہتر ،
قال اﷲ عزوجل
ولذکر اﷲ اکبر۲؎
(اﷲ عزوجل نے فرمایا اور اﷲ کاذکر سب سے بڑا ۔ت)
 (۲؎ القرآن         ۴۵/۲۹  )
Flag Counter