مسئلہ نمبر۱۶ : از چھاؤنی اشرف خان ۳۰ رجب ۱۳۲۰ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جنازہ لے کر چلیں تو سرہانہ آگے کریں یا پائینتی؟ ایک شخص کہتا ہے کہ پائینتی آگے کرنے کاحکم ہے میں نے علمائے دین سے پوچھ لیا ہے۔اور قبر پر اذان کہنے کو ایک شخص حرام وناجائز کہتا ہے اس میں کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب
اُس شخص نے محض غلط کہا، جنازہ لے کر چلنے میں سرہانے آگے کرنے کا حکم ہے۔فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
جنازہ لے کر چلنے میں سر آگے ہوگا ۔ایسا ہی مضمرات میں ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ الفصل الرابع فی حمل الجنازۃ مطبع نورانی کتب خانہ پشاور ۱ /۱۶۲)
قبر پراذان دینے کو جس نے حرام کہا محض غلط کہا، اگر سچّا ہے تو بتائے کہ کس آیت یاحدیث میں اس کو حرام فرمایا ہے اگر نہ بتائے تو ہر گز نہ بتا سکے گاتو خدا اور رسول پر افتراء کرنے کا اقرار کرے۔ حرام وُہ ہے جسے خدا اور رسول نے حرام فرمایا اورواجب وہ ہے جسے خدا اور رسول نے واجب کہا حکم دیا، لیکن وہ چیزیں جن کا خدا اور رسول نے حکم دیا نہ منع کیا وہ سب جائز ہیں انہیں حرام کہنے والا خدا اوررسول پر افتراء کرتا ہے، فقیر کاخاص اس باب میں رسالہ طبع ہوگیا ہے اُسے دیکھ کر اس اذان کے فوائد معلوم کریں اس میں پندرہ۱۵دلیلوں سے اس کی اصل جواز کا ثبوت دیا گیا ہے، جومدعی حرمت کا ہے پہلے اس کے حرام ہونے کا آیت وحدیثوں سے ثبوت دے جب نہ دے سکے تو اپنے کذب کا اقرار اور اذان کے جائز ہونے کا اعتراف کرے، اس کے بعد جوبیان ہوئے سب ہوجائے گا۔واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ نمبر۱۷: ازملک مالوا شہر اندور چھینپہ باکھل مرسلہ اسمٰعیل قادری احمد آباد والا
یہاں میّت ہوگئی تھی، اس کے کفنانے کے بعد پھولوں کی چادر ڈالی گئی ، اس کو ایک پیش امام افغانی نے اتار ڈالا اور کہا یہ بدعت ہے ہم نہ ڈالنے دیں گے، دوسرے جوغلاف کا پارچہ سیاہ کعبہ شریف سے لاتے ہیں وہ ٹکڑا ڈالا ہواتھا اُس ہٹادیا اور کہا یہ روافض کا رواج ہے ہم نہ ڈالیں گے،اُسے الگ ہٹا کے اس نے نمازِ جنازہ پڑھائی۔
الجواب
پھولوں کی چادر بالائے کفن ڈالنے میں شرعاً اصلاً حرج نہیں بلکہ نیتِ حسن سے حسن ہے جیسے قبور پر پھول ڈالنا کہ وہ جب تک تر ہیں تسبیح کرتے ہیں اس سے میّت کا دل بہلتا ہے اور رحمت اترتی ہے۔فتاوٰی عالمگیری میں ہے :
ضع الورد والریاحین علی القبورحسن۱؎ ۔
قبروں پر گلاب اور پھولوں کا رکھنا اچھا ہے۔(ت)
(۱؎ فتاوٰی ہندیہ الباب السادس عشر فی زیارۃ القبور مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۵۱ )
فتاوٰی امام قاضی خان و امداد الفتاح شرح المصنف لمراقی الفلاح و ردالمحتار علی الدرالمختار میں ہے :
پھول جب تک تر رہے تسبیح کرتا رہتا ہے جس سے میت کواُنس حاصل ہوتا ہے اور اس کے ذکر سے رحمت نازل ہوتی ہے۔(ت)
(۲؎ردالمحتار مطلب فی وضع الجدید ونحو الآس علی القبور مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر ۱ /۶۰۶)
یونہی تبرک کے لئے غلافِ کعبہ معظمہ کا قلیل ٹکڑا سینے یا چہرے پر رکھنا بلا شبہہ جائز ہے اوراسے رواجِ روافض بتانا محض جھوٹ ہے۔ اسدالغابہ وغیرہا میں ہے :
لما حضرہ الموت اوصی ان یکفن فی قمیص کان علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام کساہ ایاہ، وان جعل ممایلی جسدہ، وکان عندہ قلامۃ اظفارہ علیہ افضل الصلٰوۃ والسلام فاوصی ان تسحق وتجعل فی عینیہ وفمہ، وقال افعلوا ذلک وخلوبینی وبین ارحم الراحمین۳؎ ۔
جب حضرت امیر معاویہ کا آخری وقت آیا وصیت فرمائی کہ اُنہیں اُس قمیص میں کفن دیا جائے جونبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں عطافرمائی تھی ، اوریہ ان کے جسم سے متصل رکھی جائے، ان کے پاس حضور اقدس صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے ناخن پاک کے کچھ تراشے بھی تھے ان کے متعلق وصیت فرمائی کہ باریک کرکے ان کی آنکھوں اوردہن پر رکھ دئے جائیں۔فرمایا کہ یہ کام انجام دینا اور مجھے ارحم الراحمین کے سپرد کردینا(ت)۔
(۳؎ اسدالغابۃ فی معرفۃ الصحابۃ باب المیم ولعین مطبوعہ المکتبۃ الاسلامیہ لصاحبہا الحاج ریاض الشیخ ۴ /۳۸۷)
مسئلہ نمبر۱۸: از سورت اسٹیشن سائن، موضع کٹھور، مرسلہ مولوی عبدالحق صاحب ۲۱جمادی الاولٰی ۱۳۰۹ھ
کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں یہاں رواج ہے کہ شخص میت کو بعد تغسیل وتکفین کے جنازے میں رکھتے ہیں، اور جنازہ کی چھتری پر غلاف ڈال کے مُردے کے واسطے شال اور عورت کے واسطے دامنی ڈالا کرتے ہیں اورپھر اس شال یا دامنی کو پھولوں کی ایک چادر بنا کر ڈالتے ہیں تو آیا یہ امر واسطے مرد کے کرنا شرعاً جائز ہے یانہیں؟ بینواتوجروا
الجواب
جنازہ زنان پر چھتری یا گہوارہ بنا کر غلاف وپردہ ڈالنا مستحب وماثور ہے، ایسا ہی چاہئے، اور جنازہ مرداں میں نہ اس کی حاجت نہ سلف سے عادت ۔ہاں بارش یا دھوپ وغیرہ کی شدت سے بچانے کو بنائیں تو کچھ حرج نہیں، فی کشف الغطاء (کشف الغطاء میں ہے):
اولٰی آنست کہ پوشیدہ شود جنازہ زنان را ومستحسن داشتہ اند گرفتن صندوق رابرائے وے نہ بروئے مرد۔ مگر آن کہ ضرورتے داعی باشد چون خوفِ باران وبرف وشدّتِ گرماونحوآن۱؎ ۔
عورتوں کے جنازہ کو چھپادینا بہتر ہے اور اس کے لئے صندوق بنانا علماء نے مستحسن قرار دیا ہے مرد کے لئے نہیں، مگر یہ کوئی ضرورت داعی ہو بارش اور برف کا اندیشہ ہو یا سخت گرمی وغیرہ ہو۔(ت)
(۱؎ کشف الغطاء فصل پنجم مطبع احمدی دہلی ص ۳۲)
اور دوشالہ وغیرہ بیش بہا کپڑے ڈالنے سے اگر ریاء وتفاخر ہو تو وہ حرام ہے نہ کہ خاص معاملہ میت واولین منازل آخرت میں، اوراگر زینت مراد ہو تو وہ بھی مکروہ۔
فی الشامیہ عن الطحطاویۃ ویکرہ فیہ کل ماکان للزینۃ۲؎ ۔
شامی میں طحطاوی کے حوالے سے ہےـ: اس میں وُہ سب مکروہ ہے جو زینت کے لئے ہو۔(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۵۷۸)
ہاں تصدق منظور ہو تو بے شک محمود۔ مگر تصدق کچھ اس طرح اس پر موقوف نہیں کہ جنازہ پر ڈال ہی کر دیں۔ یونہی پھولوں کی چادر بہ نیتِ زینت مکروہ، اور اگر اس قصد سے ہو کہ وہ بحکم احادیث خفیف الحل وطیب الرائحہ ومسبحِ خداومونسِ میّت ہے تو حرج نہیں۔
کما فی القبور ففی الھندیۃ وغیرھا وضع الورد والریاحین علی القبور حسن۳؎الخ واﷲتعالٰی اعلم۔
جیسے قبروں میں کہ ہندیہ وغیرہا میں ہے : قبروں پر گلاب وغیرہ کے پھول رکھنا اچھا ہے الخ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۳؎ فتاوٰی ہندیہ الباب السادس عشر زیارۃ القبور مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۵/۳۵۱)
مسئلہ نمبر ۱۹: از مانا دور ملک کاٹھیاواڑ مرسلہ ماسٹراسمٰعیل صاحب ۲ شوال ۱۳۳۹ھ
تما م لوگ بوجہ رسم کے بالوجہ اس امر کے ملّا صاحب فرماتے ہیں ہم نہیں آئیں گے، ریشمی کپڑا یارنگ برنگ کی چادریں میت پر ڈالتے ہیں اور جب اُن سے کہا جاتا ہے تو کہتے ہیں تم لوگ ہم پر حسد کرتے ہو، مجبوراً ڈلوانا کہاں تک جائز ہے؟
الجواب
جبر حرام ہے اور بخوشی بھی نہ ہو اگر ملّا فقیر نہیں یعنی چھپن روپے کے مال کا مالک ہے جو قرض وغیرہ میں مشغول نہیں، نیز ایک رسم بے ثبوت کا ایسا التزام نہ چاہئے جبر کرنے والا ملّا نہیں گھٹیا ہے واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ نمبر۲۰: ازدلگیر گنج پرگنہ جہاں آباد ضلع پیلی بھیت مرسلہ خلیفہ الٰہی بخش ۱۸رجب ۱۳۱۷ھ
اگر عورت مر جائے تو شوہر اس کے جنازے کو ہاتھ لگائے یا نہیں؟
الجواب
جنازے کو محض اجنبی ہاتھ لگاتے، کندھوں پر اُٹھاتے، قبر تک لے جاتے ہیں، شوہر نے کیا قصور کیا ہے۔یہ مسئلہ جاہلوں میں محض غلط مشہور ہے۔ہاں شوہر کو اپنی زنِ مردہ کا بدن چھونا جائز نہیں، دیکھنے کی اجازت ہے
کمانص علیہ فی التنویر والدروغیرھما
(جیسا کہ تنویرا لابصار اور درمختار وغیرہما میں اسکی تصریح ہے۔ت)اجنبی کو دیکھنے کی بھی اجازت نہیں۔محارم کو پیٹ، پیٹھ اور ناف سے زانوتک کے سوا چھونے کی بھی اجازت ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔
مسئلہ نمبر۲۱: زوجہ کا جنازہ شوہر کو چھونا کیسا ہے؟ چھونا چاہئے یا نہیں؟ شوہر کا اپنی زوجہ کا منہ قبر میں رکھنے کے بعددیکھنا کیسا ہے ،چاہئے یا نہیں؟
الجواب
شوہر کو بعد انتقال زوجہ قبر میں خواہ بیرونِ قبر اس کا منہ یا بدن دیکھنا جائز ہے، قبر میں اتارنا جائز ہے، اور جنازہ تو محض اجنبی تک اٹھاتے ہیں، ہاں بغیر حائل کے اس کے بدن کو ہاتھ لگانا شوہر کو ناجائز ہوتا ہے۔ زوجہ کو جب تک عدت میں رہے شوہر مردہ کا بدن چھونا بلکہ اسے غسل دینا بھی جائز رہتا ہے۔یہ مسئلہ درمختار وغیرہ میں ہے۔واﷲ تعالٰی اعلم۔