فاقول امّاالکتابۃ علی الفراش فامتھان حاضر اوقصدمالا ینفک عن التھاون فلیس ممانحن فیہ ولاکلام فی کراھتہ واما علی البواقی فالمسئلۃ مختلف فیھا وقداسمعناک اٰنفاما فی جواہر الاخلاطی فی حق الدراھم وقال الامام الاجل قاضی خان فی فتاواہ لوکتب القراٰن علی الحیطان والجد ران بعضھم قالوا یرجی ان یجوز وبعضھم کرھواذلک مخافۃ السقوط تحت اقدام الناس۲؎اھ
فاقول (تو میں کہتا ہوں) بچھونے پر لکھا تو بروقت اہانت ہے یا ایسے کام کا قصد ہے جو بے حرمتی سے جُداہونے والا نہیں۔ یہ تو ہمارے مبحث سے خارج ہے اور اس کے مکروہ ہونے میں کوئی کلام نہیں۔ رہا باقی چیزوں پر لکھنا توان کے بارے میں مسئلہ اختلافی ہے---دراہم سے متعلق توجواہر اخلاطی کی عبارت ابھی ہم پیش کر آئے (دیوار و محراب سے متعلق ملاحظہ ہو)امام اجل قاضی خاں اپنےفتاوی میں لکھتے ہیں:''اگر دیواروں پر قرآن لکھا تو بعض نے کہا امید ہے کہ جائز ہوگا'' اور بعض نے لوگوں کے پاؤں تلے پڑنے کے اندیشے کی وجہ سے اس کو مکروہ کہا اھ --
(۲؎ فتاوٰی قاضی خان کتاب الحظر والاباحۃ فصل فی التسبیح من الحظر مطبوعہ نولکشور لکھنؤ۴ /۷۹۲)
فقد قدم رجاء الجواز وھو کما صرح بہ فی دیباجۃ فتاواہ لایقدم الاالاظھرالاشھر ویکون کما نص علیہ العلامۃ السید الطحطاوی ثم السید المحشی ھو المعتمد فاذن فلتکن الکتابۃ المعھودۃ علی افخاذ الابل من لدن سیدناالفاروق الاعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ مرجحۃ لقول الجواز ان فرضنا المساواۃ والا فلانسلمھا من الاصل فان الکتابۃ علی المحاریب والجدران انما یکون المقصود بھاغالبا الزینۃ ولیست من الحاجۃ فی شیئ فالمنع ثمہ لایستلزم المنع حیث الحاجۃ ماسۃ کالتمییز والتبرک والتوسل للنجاۃ باذن اﷲتعالٰی فافھم واﷲ سبحانہ وتعالٰی اعلم ۔
اس عبارت میں امیدِ جواز کو انہوں نے مقدم رکھا ہے-- اور جیسا کہ اپنے فتاوٰی کے دیباچے میں وہ تصریح فرماچکے ہیں جسے وہ مقدم رکھتے ہیں وہی''اظہر اشہر''ہوتا ہے-- اور جیسا کہ علامہ سید طحطاوی پھر خود علّامہ شامی نے تصریح فرمائی ہے وہی ''معتمد'' ہوتا ہے-- ایسی صورت میں سیدنا فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے زمانے سے اونٹوں کی ران پرلکھی جانے والی تحریر معہود و معلوم سے قولِ جوازکو ترجیح ہونی چاہئے -- اگر دونوں تحریروں میں ہم مساوات مانیں-- ورنہ اسے ہم سرے سے نہیں مانتے اس لئے کہ محرابوں اور دیواروں پر لکھنے سے عموماً زینت مقصود ہوتی ہے۔ یہ کوئی حاجت کی چیز ہی نہیں— تو اگر اس میں ممانعت ہے تو یہ اس کو مستلزم نہیں کہ وہاں بھی ممانعت ہو جہاں حاجت ہے جیسے امتیاز پیدا کرنا، برکت حاصل کرنا، باذنِ الٰہی نجات کا وسیلہ بنانا— تو اسے سمجھو-- اور خدائے پاک بزرگ و برتر خوب جاننے ولا ہے (ت)
مقام چہارم : جب خود کفن پر ادعیہ وغیرہ تبرکاً لکھنے کا جواز فقہاً و حدیثاً ثابت ہے تو شجرہ شریف رکھنا بھی بداہۃً اسی باب سے بلکہ بالاولٰی ،اوّل تو اسمائے محبوبانِ خدا علیہم التحیۃ والثناء سے توسل و تبرک بلاشبہہ محمود ومندوب ہے۔ تفسیرِ طبری پھر شرح مواہبِ لدنیہ للعلامۃ الزرقانی میں ہے :
جب اصحابِ کہف کے نام لکھ کر آگ میں ڈالے جائیں توآگ بجھ جاتی ہے۔
(۱؎ شرح الزرقانی علی المواہب اللدنیۃ المقصد الثامن مطبوعہ معرفۃ بیروت ۷ /۱۰۸)
تفسیر نیشاپوری علامہ حسن محمد بن حسین نظام الدین میں ہے :
عن ابن عباس ان اسماء اصحاب الکہف یصلح للطلب والھرب واطفاء الحریق تکتب فی خرقہ ویرمی بھافی وسط النار ، ولبکاء الطفل تکتب وتوضع تحت راسہ فی المھد ، وللحرث تکتب علی القرطاس وترفع علٰی خشب منصوب فی وسط الزرع وللضربان وللحمی المثلثۃ والصداع والغنی والجاہ والدخول علی السلاطین تشد علی الفخذ الیمنی والعسر الولادۃ تشد علی فخذھا الا یسر، ولحفظ المال و الرکوب فی البحر والنجاہ من القتل۱؎۔
یعنی عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے روایت ہے کہ اصحابِ کہف کے نام تحصیل نفع ودفع ضرراورآگ بجھانے کے واسطے ایک پرچی پر لکھ کر آگ میں ڈال دیں، اور بچّہ روتا ہو لکھ کر گہوارے میں اس کے سر کے نیچے رکھ دیں، اورکھیتی کی حفاظت کے لئے کاغذ پر لکھ کر بیچ کھیت میں ایک لکڑی گاڑ کر اُس پر باندہ دیں، اور رگیں تپکنے اور باری والے بخار اور دردِسراور حصول تونگری ووجاہت اور سلاطین کے پاس جانے کے لئے دہنی ران پر باندھیں، اور دشواری ولادت کے لئے عورت کی بائیں ران پر ،نیز حفاظت مال اور دریا کی سواری اور قتل سے نجات کے لئے۔
(۱؎ تفسیر غرائب القرآن ذکراسماء اہل کہف مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱۵/۱۱۰)
امام ابن حجرمکی صواعق محرقہ میں نقل فرماتے ہیں :
جب امام علی رضا رضی اﷲ تعالٰی عنہ نیشاپور میں تشریف لائے، چہرہ مبارک کے سامنے ایک پردہ تھا، حافظانِ حدیث امام ابوذراعہ رازی و امام محمد بن اسلم طوسی اوران کے ساتھ بیشمار طالبانِ علم وحدیث حاضرِ خدمتِ انور ہوئے اور گڑگڑا کر عرض کیا اپنا اجمالِ مبارک ہمیں دکھائیےے اور اپنے آبائے کرام سے ایک حدیث ہمارے سامنے روایت فرمائیے، امام نے سواری روکی اور غلاموں کو حکم فرمایا پردہ ہٹالیں خلقِ خدا کی آنکھیں جمال مبارک کے دیدار سے ٹھنڈی ہوئیں۔ د و۲ گیسو شانہ مبارک پر لٹک رہے تھے۔ پردہ ہٹتے ہی خلق خدا کی وہ حالت ہوئی کہ کوئی چلّاتاہے، کوئی روتا ہے، کوئی خاک پر لوٹتا ہے، کوئی سواری مقدس کا سُم چومتا ہے۔ اتنے میں علماء نے آواز دی :خاموش سب لوگ خاموش ہورہے۔ دونوں امام مذکور نے حضور سے کوئی حدیث روایت کرنے کو عرض کی حضور نے فرمایا:
حدثنی ابوموسی الکاظم عن ابیہ جعفر الصادق عن ابیہ محمدن الباقرعن ابیہ زین العابدین عن ابیہ الحسین عن ابیہ علی ابن ابی طالب رضی اﷲ تعالٰی عنھم قال حدثنی حبیبی وقرۃ عینی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال حدثنی جبریل قال سمعت رب العزۃ یقول لا الٰہ الااﷲ حصنی فمن قال دخل حصنی امن من عذابی۲؎۔
یعنی امام علی رضا امام موسٰی کاظم وہ امام جعفر صادق وہ امام محمدباقر وہ امام زین العابدین وہ امام حسین وہ علی المرتضٰی رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے روایت فرماتے ہیں کہ میرے پیارے میری آنکھوں کی ٹھنڈک رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے مجھ سے حدیث بیان فرمائی کہ ان سےجبریل نے عرض کی کہ میں نے اﷲ عزوجل کو فرماتے سنا کہ لا الٰہ الااﷲ میراقلعہ ہے تو جس نے اسے کہا وہ میرے قلعہ میں داخل ہوا، میرے عذاب سے امان میں رہا۔
یہ حدیث روایت فرماکر حضوررواں ہوئے اور پردہ چھوڑ دیا گیا، دواتوں والے جو ارشاد مبارک لکھ رہے تھے شمار کئے گئے ، بیس ۲۰ہزار سے زائد تھے۔
(۲؎ الصواعق المحرقہ الفصل الثالث مطبوعہ مکتبہ مجیدیہ ملتان ص۲۰۵)
امام احمد بن حنبل رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا :
لو قرأت ھذاالاسناد علی مجنون لبرئ من جننہ۱؎۔
یہ مبارک سند اگر مجنون پر پڑھوں تو ضرور اسے جنون سے شفا ہو۔
(۱؎ الصواعق المحرقہ الفصل الثالث فی الاحادیث الواردۃ فی بعض اہل البیت مطبوعہ مکتبہ مجددیہ ملتان ص ۲۰۵)
اقول فی الواقع جب اسمائے اصحاب کہف قدست اسرارہم میں وُہ برکات ہیں، حالانکہ وُہ اولیائے عیسویین میں سے ہیں تو اولیاء محمدیین صلوات اﷲ تعالٰی وسلامہ علیہ وعلیہم اجمعین کا کیا کہنا، اُن کے اسمائے کرام کی برکت کیا شمار میں آسکے۔ اے شخص! تو نہیں جانتا کہ نام کیا ہے۔مسمّی کے انحائے وجود سے ایک نحو ہے۔امام فخرالدین رازی وغیرہ علماء نے فرمایا کہ وجو دِشیئ کی چار۴ صورتیں ہیں: وجود ادعیان میں ، علم میں ، تلفظ میں، کتابت میں، توان دوشق اخیر وجود اسم ہی کو وجود مسمّی قرار دیاہے بلکہ کتبِ عقائد میں لکھتے ہیں:
الاسم عین المسمی
نام عین مسمی ہے۔امام رازی نے فرمایا:
المشھور عن اصحابنا ان الاسم ھوالمسمّی
مقصود اتنا ہے کہ نام کا مسمی سے اختصاص کپڑوں کے اختصاص سے زائد ہے اور نام مسمی پر دلدلت تراشہ ناخن کی دلالت سے افزوں ہے تو خالی اسماء ہی ایک اعلٰی ذریعہ تبرک وتوسل ہوتے نہ کہ اسامی سلاسل علیہ کی اسناد اتصال بمحبوب ذوالجلال وبحضرت عزت وجلال ہیں جل جلالہ، وصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم، اور اﷲ ومحبوب واولیاء کے سلسلہ کرام وکرامت میں انسلاک کی سند تو شجرہ طیبّہ سے بڑھ کر اور کیا ذریعہ توسل چاہئے: پھر کفن پر لکھنا کہ ہمارے ائمہ نےجسے جائز فرمایا اور امید گاہِ مغفرت بنایا، اور بعض شافعیہ کو اس میں خیالِ تجنیس آیا، شجرہ طیبہ میں اس کا خیال بھی لزوم نہیں۔ کیا ضرور کہ کفن ہی میں رکھیں بلکہ قبر میں طاق بناکر خواہ سرہانے کہ نکیرین پائینتی کی طرف سے آتے ہیں اُن سے پیشِ نظر ہو، خواہ جانبِ قبلہ کہ میّت کے پیش رو رہے اور اس کے سکون و اطمینان واعانت جواب کا باعث ہو، باذنہٖ تعالٰی ولہ الحمد۔شاہ عبدالعزیز صاحب نے بھی رسالہ''فیض عام'' میں شجرہ قبر میں رکھنے کو معمولِ بزرگانِ دین بتاکر سرہانے طاق میں رکھنا پسند کیا۔ یہ امر واسع ہے بلکہ ہماری تحقیق سے واضح ہوا کہ کفن میں رکھنے میں جوکلامِ فقہاء بتایا گیا وُہ متاخرینِ شافعیہ ہیں، ہمارے ائمہ کے طور پریہ بھی رواہے،ہاں خروج عن الخلاف کے لئے طاق میں رکھنا زیادہ مناسب و بجا ہے،