اقول ھذاالفرق لایجدی نفعاوکیف یسلم ان قصدالتمیز یسقط تعظیم ماوجب تعظیمہ شرعا افتبدل بہ اعیان الاسماء العظمۃ فھو باطل عیانا ام لایراد بھامعانیھا بل تکون الفاظ مستعملۃ فی معان اخری او من دون معنی وھذا ایضا باطل قطعافان قولناﷲ اوحبیس فی سبیل اﷲ انمایفیدالتمیز ویفھم الصدقۃ بالنظر الی معانیھا الموضوعۃ لھا لاغیر ام اذااستعملت الکلمات المعظمۃ فی معانیھا وکان الغرض ھنالک افھام امرما سوی نحوالتبرک یخرجھا ذلک عن کونھا معظمۃ وای دلیل من الشرع علی ذلک بل الدلا ئل بل البداھۃ ناطقۃ بخلافہ ولوان مجرد قصد غرض اٰخرغیرنحو التبرک کان یسقط التعظیم فلیجز توسد القراٰن العظیم بل اولٰی لان الغرض ثم لایتم الاباسم الجلالۃ من حیث ھواسم الجلالۃ اماھٰھنافنظر المتوسد لیس الی قراٰنیتہ من حیث ھی ھی بل الٰی حجمہ وضخامۃ جلدہ واذاجاز ذلک لذلک جاز ایضا والعیاذباﷲ تعالٰی ان یضع المصحف الکریم علی الارض ویجلس علیہ توقیالثیابہ من التراب فانہ لیس باعظم من التعریض للابوال والارواث الی غیر ذلک مما لایجیزہ احد ۔ ولعل متعلا یعتل بجوازقراءۃامثال الفاتحۃ للجنب واختیہ اذاقصدواالثناء والدعاء دون التلاوۃ۔
اقول : یہ تفریق بے سُود ہے، یہ کیسے تسلیم کیاجاسکتا ہے کہ امتیاز کا قصد ایسی چیز کی تعظیم ساقط کردے جس کی تعظیم شرعاً واجب ہو--اگر یہ کہیں کہ اس قصد کی وجہ سے عظمت والے اسماء کی حقیقت ہی بدل جاتی ہے تو اس کا بطلان عیاں ہے اور یہ کہیں کہ ان سے ان کی معانی مراد نہیں ہوتے بلکہ یہ دوسرے معانی میں مستعمل الفاظ ہوجاتے ہیں یا معنی سے خالی ہوجاتے ہیں -- تو یہ قطعاً باطل ہے کیونکہ کلمہ''ﷲ''(خدا کے لئے) یا''حبیس فی سبیل اﷲ''(اﷲ کی راہ میں وقف) امتیاز ونشان کا فائدہ بھی دیتا ہے اوراپنے وضعی معنی کے لحاظ سے مال صدقہ ہونے کو بھی بتاتا ہے کوئی اور معنی نہیں دیتا--اور اگر یہ کہیں کہ عظمت والے کلمات جب اپنے معانی میں مستعمل ہوں اور وہاں تبرک کے سوا کوئی اور بات سمجھانی بھی مقصود ہو تو وہ باعظمت نہیں رہ جاتے--تو اس پر کون سی دلیل شرعی ہے؟ بلکہ دلائل بلکہ بداہت اس کے خلاف ناطق ہے تبرک جیسے امر کے سوا کسی اور غرض کا محض قصد ہوجانا اگر تعظیم کو ساقط کردیتا ہے تو چاہئے کہ قرآنِ عظیم کا تکیہ لگانا جائز ہو بلکہ بدرجہ اولٰی ، اس لئے کہ وہاں جو غرض ہے وہ اسم جلالت بحیثیت اسم جلالت کے بغیر پوری نہیں ہوتی-- اور یہاں تو تکیہ لگانے والے کی نظر اس کی قرآنیت بحیثیت قرآنیت کی جانب نہیں ہوتی بلکہ اس کے حجم اور جلد کی ضخامت کی جانب ہوتی ہے-- اور اس بنیاد پر جب وہ جائز ہوجائیگا۔
تو معاذاﷲ یہ بھی جائز ہوجائے گا کہ مصف شریف زمین پر رکھ کر اس پر بیٹھ رہے اس غرض سے کہ اس کے کپڑے مٹّی سے محفوظ رہیں--کیونکہ یہ لید اور پیشاب وغیرہ پڑنے کی جگہ لانے سے بڑھ کر نہیں، جسے کوئی جائز نہیں کہہ سکتا۔ ہوسکتا ہے کوئی یوں علت پیش کرے کہ جنب وحائض ونفساء کے لئے دعا وثنا کے ارادے سے سورہ فاتحہ وغیرہ پڑھنا جائز ہے اور بقصدِ تلاوت جائز نہیں۔
اقول نازعہ المحقق الحلبی فی الحلیۃ وخصّ الجواز بمالا یقع بہ التحدی ای مادون قدر ثلث اٰیات ولی فی ھذا ایضا کلام والحق عندی ان الجواز بنیۃ الدعاء والثناء ورد علی خلاف القیاس توسعۃ من اﷲتعالٰی بعبیدہ رحمۃ منہ وفضلا فلا یجوز القیاس علیہ علا ان منع الجنب لم یکن لنفس الالفاظ بل لکونھا قراٰنا ای کلام اﷲ عزوجل النازل علی نبیہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم المثبت بین الدفتین من حیث ھوکذلک حتی لو فرض ان تلک الالفاظ کانت حدیثالم یحرم علیہ قراءتہ فاذا قرأت علی جھۃ انشاء کلامن عند نفسہ لم تبق النسبۃ المانعۃ ملحوظۃ اماھٰھنا فالتعظیم لنفس تلک الالفاظ الموضوعۃ لتلک المعانی المعظمۃ وھی باقیۃ فی الکتابۃ علی حالھا فافھم، مع ان العلامۃ سیّدی عبدالغنی النابلسی قدس سرہ القدسی نص علیہ ان النیۃ تعمل فی تغییر المنطوق لا المکتوب ۱؎ کمانقلہ العلامۃ ش قبیل المیاہ واقرہ ۔
اقول محقق حلبی نےحلیہ میں اس سے اختلاف کیا ہے اور جواز صرف اتنی مقدار سے خاص کیا ہے جس سے تحدّی واقع نہیں ہوتی، یعنی تین آیات سے کم ہی پڑھنے کا جواز ہے--مجھے اس میں بھی کلام ہے--میرے نزدیک حق یہ ہے کہ دعا یا ثنا کی نیت سے جواز کاحکم --اﷲتعالٰی کی جانب سے بطور رحمت و فضل بندوں پر وسعت دینے کے لئے--خلافِ قیاس وارد ہے تو اس پر قیاس روا نہیں-- علاوہ ازیں جنب کے لئے ممانعت نفس الفاظ کے باعث نہیں بلکہ اس لئے ہے کہ وہ قرآن ہیں یعنی اﷲ عز و جل کا وُہ کلام جو اس کے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم پر نازل ہے دو دفتیوں کے درمیان ثبت ہے اس لحاظ سے کہ وہ قرآن ہیں، یہاں تک کہ اگر فرض کیا جائے کہ وہ الفاظِ حدیث ہیں تو جنب کے لئے ان کی قرأت حرام نہ ہوگی--تو جب ان کی قرأت اس طور پر ہو کہ خود اپنی جانب سے ایک کلام انشا کر رہا ہے تو جونسبت باعثِ ممانعت تھی وہ ملحوظ نہ رہ گئی-- لیکن یہاں تو تعظیم خود ان ہی الفاظ کے باعث ہے جو ان معانی عظمت کے لئے وضع ہوئے ہیں۔ اور کتابت میں یہ اپنے حال پر باقی ہیں ۔تواسے سمجھو-- اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ علامہ سیدی عبدالغنی نابلسی قدس سرہ نے صراحت فرمائی ہے کہ نیت منطوق کو بدلنے میں اثر انداز ہوتی ہے مکتوب میں نہیں--جیسا کہ علّامہ شامی نے باب المیاہ سے ذرا قبل اس کو نقل کیا اور برقرار رکھا ہے۔
(۱؎ ردالمحتار کتاب الطہارۃ مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۱۱۹)
ثم اقول علی التسلیم لامحیص عن کونہ اعنی ماکتب علی افخاذ الا بل حروفا و حروف الھجاء المعظمۃ بانفسھا لایجوز تعریضھا للنجاسۃ کیف وانھا علی ماذکرالزرقانی فی شرح المواہب قراٰن انزل علی سیدناھودعلی نبینا الکریم و علیہ الصلٰوۃ والتسلیم۲؎ وکذا نقلہ فی ردالمحتار عن بعض القراء وقدمہ عن سیّدی عبدالغنی عن کتاب الاشارات فی علم القراءات للامام القسطلانی وقال اعنی الشامی فیہ ان الحروف فی ذاتھا لھا احترام۳؎اھ،
ثم اقول برتقدیر تسلیم— او نٹوں کی ران پر جو لکھا جاتا اُس کو حروف ماننے سے مفرنہیں— اور حروفِ تہجی خود باعظمت ہیں، انہیں معرضِ نجاست میں لانا جائز نہیں— ایسا کیوں نہ ہو جب کہ یہ وُہ قرآن ہے جو سیّدنا ہود علٰی نبیناالکریم وعلیہ الصلٰوۃ والتسلیم پر نازل ہوا، جیسا کہ علّامہ زرقانی نے شرح مواہب میں ذکر کیا ہے— اسی طرح ردالمحتار میں اسے بعض قراء سے نقل کیا ہے اور اس سے پہلے امام قسطلانی کی کتاب '' الاشارات فی علم القراءات'' کے حوالے سے سیدعبدالغنی نابلسی سے نقل کیا -اوراسی میں علامہ شامی نے بھی یہ لکھا ہے خود یہ حروف محترم ہیں اھ –
(۲؎ ردالمحتار فصل الاستجاء مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۲۲۷)
(۳؎ ردالمحتار فصل الاستنجاء مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۱۱۹)
وقال ایضانقلوا عندنا ان للحروف حرمۃ ولو مقطعۃ ۱؎اھ ۔
یہ بھی لکھا ہے کہ علماء نے نقل فرمایا ہے کہ ہمارے نزدیک حروف کی عزت وحرمت ہے اگرچہ یہ الگ الگ ہوں اھ-
(۱؎ ردالمحتار فصل فی الاستنجاء مطبوعہ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۲۲۷)
وفی الھندیۃ لوقطع الحروف فی الحرف او خیط علی بعض الحروف فی البساط اوالمصلی حتی لم تبق الکلمۃ متصلۃ لم تسقط الکراھۃ وکذلک لوکان علیہ، الملک ،لاغیر وکذلک الالف و حدھا واللام وحدھا کذا فی الکبری، اذاکتب اسم فرعون اوکتب ابو جھل علی غرض یکرہ ان یرموا الیہ لان لتلک الحروف الحرمۃ کذافی السراجیۃ ۲اھ
ہندیہ میں ہے اگر حرف کو حرف سے جدا کردیا ، یا فرش یا جا نماز میں بعض حروف پر اس طرح سلائی کردی گئی کہ پُورا لفظ مستعمل نہ رہا تو بھی کراہت ختم نہ ہوئی-- اسی طرح اگر اس پرصرف الملک ہو،اسی طرح اگر صرف الف اور صرف لام ہو، ایساہی کبرٰی میں ہے--اگر نشانہ لگانے کی جگہ فرعون کا نام لکھ دیا گیا یا ابوجہل لکھا گیاتو اس پر تیر مارنا مکروہ ہے اس لئے کہ ان حروف ہی کی عزّت و حرمت ہے، ایسا ہی سراجیہ میں ہے اھ
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ الباب الخامس فی آداب المسجد مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشار ۵ /۳۲۳)
بل صرح فی الدرالمختار وغیرہ انہ یجوز رمی برایۃ القلم الجدید ولا ترمی برایۃ القلم المستعمل لاحترامہ کحشیش المسجد وکناستہ لایلقی فی موضع یخل بالتعظیم ۳؎اھ
بلکہ درمختار وغیرہ میں تصریح ہے کہ نئے قلم کا تراشا پھینکنا جائز ہے اور مستعمل قلم کا تراشہ پھینکنا جائز نہیں کیونکہ وہ محترم ہے، جیسے مسجد کی گھاس اور کوڑا ایسی جگہ نہ ڈالا جائے جہاں بے حرمتی ہو اھ۔
(۳؎ درمختار کتاب الطہارۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۳۴)
وفی ردالمحتار ورق الکتابۃ لہ احترام ایضالکونہ الٰۃ لکتابۃ العلم ولذاعللہ فی التاتارخانیہ بان تعظیمہ من ادب الدین۴؎اھ
ردالمحتار میں ہے : کتابت کے کاغذ کا احترام ہے اس لئے کہ وہ کتابتِ علم کا سامان ہے--اسی لئے تاتارخانیہ میں اس کی یہ علت بیان کی ہے کہ اس کی تعظیم دین کے آداب سے ہے اھ—
(۴؎ ردالمحتار فصل فی الاستنجاء مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۲۲۷)
فاذا کان ھذا فی برایۃ القلم وبیاض الورق الغیر المکتوب فما ظنک بالحروف فاذن لاشک فی صحۃ الاستنادولابد من اخراج کتابات الابل عن الاخلال بالتعظیم۔
تو جب یہ حکم قلم کے تراشے اور بغیر لکھے کاغذ کی بیاض کے بارے میں ہے تو حروف کےبارے میں کیا ہوگا--اس سے ظاہر ہوا کہ صحتِ استناد میں کوئی شک نہیں—اور اونٹوں والی تحریروں کو بے حرمتی سے خارج ماننا ضروری ہے۔
واقول یظھر لی فی النظر الحاضر ان لیس الامتھان من لازم تلک الکتابۃ ولاھو موجودحین فعلت ولاھومقصود لمن فعل وانما اراد التمیز وانماالاعمال بالنیات وانمالکل امرء مانوی۱؎۔
واقول(اور میں کہتا ہوں) بنظرِ حاضر مجھے یہ خیال ہوتا ہے کہ اہانت اس تحریر کو لازم نہیں، نہ ہی بوقتِ تحریر اہانت کا وجود ہے، نہ ہی یہ لکھنے والے کا مقصود ہے-- اس کا مقصد صرف امتیاز پیدا کرنا اور نشان لگانا ہے--اوراعمال کامدار نیتوں پر ہے اور ہرانسان کے لئے وہی ہے جس کی اس نے نیت کی--
قال فی جواھر الاخلاطی ثم الفتاوی الھندیۃ لاباس بکتابۃ اسم اﷲتعالٰی علی الدراھم لان قصد صاحبہ العلامۃ لاالتھاون۲؎اھ
جواہر اخلاطی پھر فتاوٰی ہندیہ میں ہے : دراہم پراﷲ کا نام تحریر کرنے میں کوئی حرج نہیں اس لئے کہ تحریر کرنے والے کامقصود صرف نشان ہوتا ہے، اہانت نہیں اھ--
(۲؎ فتاوٰی ہندیہ الباب الخامس فی آداب المسجد مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۵ /۳۲۳)
وھذ الاشک انہ جارفیما نحن فیہ فلیس التجنیس من لازم الکتابۃ ولاھو موجود لامقصود وانما المراد التبرک الٰی اٰخر مامر فان قنع بھذا فذاک والافایاما ابدیتم من الوجہ فی ذالک فانہ یجری فیماھنالک ولایظھرفرق یغیر المسالک۔
یہ بات بلاشبہہ تحریر کفن میں بھی جاری ہے اس لئے کہ نجاست آلود کرنااس تحریر کولازم نہیں، نہ ہی بروقت اس کا وجود ہے نہ ہی مقصود ہے ،مقصود صرف برکت حاصل کرنا ہے --وُہ ساری باتیں جو گزر چکیں۔ اگر مخالف اسے مان لے تو ٹھیک ہے ورنہ اُس میں آپ جوبھی وجہ بتائیں وُہ یہاں بھی جاری ہوگی اور کوئی ایسا فرق رونما نہ ہوگا جس سے راہیں مختلف ہوجاتیں۔
فان قلت التجنیس فی الابل غیر مقطوع بہ حتی فی اجانب الانسی من افخاذھالانھاتتفاج حین تبول فکیف بالوحشی المکتوب علیہ قلت لاقطع فی التکفین ایضافلیس کل جسدیبلی فان الاولیاء والعلماء العالمین والشھداء والمؤذن المحتسب وحامل القراٰن العامل بہ والمرابط والمیت بالطاعون صابرامحتسباوالمکثرمن ذکراﷲتعالٰی لاتتغیر ابدانھم۱؎ نقلہ العلامۃ الزرقانی فی شرح المؤطامن جامع الجنائز وجعلہم عشرۃ کاملۃ بذکرالانبیاء علیھم الصلٰوۃ والسلام ثم الصدیقین والمحبین ﷲتعالٰی وجمعت ھذین فی قول الاولیاء ۔
اگر یہ کہیے کہ اونٹوں میں آلودگیِ نجاست کا یقین نہیں خواہ پالتو اونٹ کی ران کے پہلو پر لکھائی ہو کیونکہ اونٹ پیشاب کرتے وقت اپنی ٹانگوں کو کھول لیتا ہے تو کھلے جنگل میں رہنے والے جانوروں پرلکھائی میں کیسے یقین ہوسکتی ہے--میں کہوں گا کفن دینے میں بھی یہ یقینی نہیں، اس لئےکہ ہر جسم بوسیدہ نہیں ہوتا اولیاء، باعمل علماء، شہداء، طالبِ ثواب مؤذن، باعمل حافظِ قرآن، سرحد کا پاسبان، طاعون میں صبر کے ساتھ اور اجر چاہتے ہوئے مرنے والا، کثرت سے اﷲ کا ذکر کرنے والا، ان کے بدن بگڑتے نہیں اسےعلامہ زرقانی نےشرح مؤطا میں جامع الجنائز سے نقل کیا اور انبیاء علیہم الصلٰوۃ والسلام پھر صدیقین اورخدا کے محبین کو ذکر کرکے ان کی تعداد کامل دس کردی ہے--اور میں نے ان دونوں قسموں کو لفظ اولیاء میں شامل کردیا ۔
(۱؎ شرح زرقانی علی المؤطا باب جامع الجنائز مطبوعہ مکتبہ تجاریہ کبرٰی مصر ۲ /۸۴)
ثم تقیید المؤذن بالمحتسب ھو نص حدیث اخرجہ الطبرانی عن عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنھما عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال المؤذن المحتسب کالشہید(المشتحط) فی دمہ و اذا مات لم یدود فی قبرہ۲؎
مؤذن کے ساتھ محتسب (طالب ثواب)کی قید بتصریحِ حدیث ثابت ہے۔طبرانی نے عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ، انہوں نے نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی ہے کہ سرکار نے فرمایا : موذّنِ محتسب اپنے خون میں آلودہ شہید کی طرح ہے جب وہ مرتا ہے تو قبر کے اندر اس کے بدن میں کیڑے نہیں پڑتے--
(۲؎ مجمع الزوائد بحوالہ طبرانی باب المؤذن المحتسب مطبوعہ دارالکتاب بیروت ۲ /۳)
وھو محمل اثرمجاھد،المؤذنون اطول الناس اعناقا یوم القیٰمۃ ولایدودون فی قبورھم۱؎ رواہ عبدالرزاق وذلک بدلیل الجزء الاول اطول الناس الخ ۔
اور یہی حضرت مجاہد کے اس اثر کی بھی مراد ہے کہ اذان دینے والے روزِ قیامت سب لوگوں سے زیادہ گردن دراز ہوں گے اور قبروں کے اندر ان کے جسم میں کیڑے نہ پڑیں گے۔اسے عبدالرزاق نے روایت کیا --اس کی (یہاں بھی محتسب کی قید ملحوظ ہونے کی) دلیل جزء اول اطول الناس (سب لوگوں سے زیادہ گردن دراز)الخ ہے۔
(۱؎ ا لمصنف لعبد الرزاق باب فصل فی الاذان مطبوعہ المکتب الاسلامی بیروت ۱ /۴۸۳)
اماحامل القراٰن فحدیث ابن مندۃ عن جابربن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہما انہ قال قال رسول اﷲصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم اذامات حامل القراٰن اوحی اﷲالی الارض ان لاتاکلی لحمہ، فتقول الارض ای رب کیف اٰکل لحمہ وکلامک فی جوفہ۲؎ قال ابن مندۃ وفی الباب عن ابی ھریرۃ وابن مسعود۔
حافظ قرآن سے متعلق ابن مندہ کی حدیث ہے جو حضرت جابر بن عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے وہ فرماتے ہیں رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ارشاد ہے''جب حافظ قرآن مرتا ہے خدا زمین کو حکم فرماتا ہے اس کا گوشت نہ کھانا، زمین عرض کرتی ہے: اے رب ! میں اس کا گوشت کیسے کھاؤں گی جب تیرا کلام اس کے سینے میں ہے''۔ابن مندہ نے کہا اس باب میں حضرت ابو ہریرہ اور ابن مسعود رضی اﷲتعالٰی عنہما سے بھی روایت ہے۔
(۲؎ الفردوس بما ثور الخطاب حدیث ۱۱۱۲ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ۱ /۲۸۴)
و زاد فیہ الشیخ قید العامل بہ اقول بہ ولکن العامل بہ مرجولہ ذلک وان لم یکن حاملہ فقد اخرج المروزی عن قتادۃ قال بلغنی اناالارض لاتسلط علی جسد الذی لم یعمل خطیئۃ الا ان یقال ان وصف العامل بہ حامل للخطّاء التواب ایضا ثم الذی لم یعمل خطیئۃ ھوالصالح المحفوظ ولایشمل الصبی فیما اظن ۱؎ واﷲ تعالٰی اعلم وبضم ھذا تمواعشرۃ وﷲ الحمد نبی ۱، ولی ۲، عالم ۳، شہید ۴، مرابط ۵، میت طاعون ۶، مؤذّن محتسبین۷، ذکار ۸، حامل القراٰن۹، من لم یعمل۱۰ خطیئۃ ۔
شیخ نے اس پر ''قرآن پر عامل'' کی قید کا اضافہ کیا—اقول مگرعاملِ قرآن اگر حافظِ قرآن نہ ہو تو بھی اس کے لئے یہ امید ہے--مروزی نے قتادہ سے روایت کی ہے وہ فرماتے ہیں مجھے خبر پہنچی ہے کہ زمین اس کے جسم پر مسلّط نہیں کی جاتی جس نے کوئی گناہ نہ کیا ہو مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ عاملِ قرآن کا وصف اس پر بھی صادق ہے جو خطاکار اور تائب ہو پھر، وہ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ایسا صالح ہوگا جو گناہ سے بالکل محفوظ رہا ہو--اور یہ وصف میرے خیال میں بچّے کو شامل نہیں،اور زیادہ علم خدائے برتر کو ہے--اب اسے ملا کر پورے دس ہوگئے۔(۱) نبی (۲) ولی(۳) عالم (۴) شہید(۵) مرابط (سرحد کا پاسبان) (۶) میّت طاعون،محتسب (۷) مؤذن محتسب (۸) بہت ذکر کرنے والا (۹) حافظِ قرآن (۱۰) وہ جس نے کوئی گناہ نہ کیا ۔
(۱؎ مروزی مسانید فی الحدیث)
فان کان من نکفنہ احدھٰؤلاء فذالک والا فمایدریک ان ھذاالمسلم لیس من اولیاء اللہ تعالی او لم ینل منازل الشھداء بل من الاشرار من لایتغیر جسدہ تشدیدا للتعذیب والعیاذ باللہ القریب المجیب ۔
تو جسے ہم کفن دے رہے ہیں مذکورین میں سے کوئی ایک ہے تو حال واضح ہے-- ورنہ کیا معلوم کے یہ مسلمان اللہ تعالی کے اولیاء سے نہیں یا اسے شہداء کا درجہ حاصل نہیں--بلکہ ا شرار میں بھی ایسے ہیں جن کا جسم اس لئے متغیر نہیں ہوتا کہ عذاب زیادہ سخت ہو-- پناہ خدائے قریب مجیب کی۔
ھذا و اما ما ایدہ بہ المحشی مماقدم عن الفتح انہ تکرہ کتابۃ القراٰن واسماء اﷲتعالٰی علی الدراھم والمحاریب والجدران ومایفرش۲؎ اھ ما فی الفتح قال المحشی فما ذلک الا لاحترامہ و خشیئۃ وطئہ ونحوہ ممافیہ اھانۃ، فالمنع ھنا بالاولی مالم یثبت عن المجتہد اوینقل فیہ حدیث ثابت ۱؎ اھ وھذا الذی حملہ علی العدول عن قول امام مذھبہ الصفار الحنفی الی قول الامام ابن ا لصلاح من متاخری الشافیعۃ۔
اب رہا وہ کلام جو اس کی تائید میں علّامہ شامی نے فتح القدیر کے حوالے سے پیش کیا کہ درہم ، محراب اور دیوار اور بچھائی جانے والی چیز پر قرآن اور اسماء الٰہی لکھنا مکروہ ہے (فتح کی عبارت ختم ہوئی) اس پر علامہ شامی لکھتے ہیں: اس کی وجہ یہی احترام اور پامالی وغیرہ سے اہانت کا اندیشہ ہے، تو یہاں ممانعت بدرجہ اولٰی ہوگی جب تک کہ مجتہد سے ثبوت نہ ہویا اس بارے میں کوئی حدیثِ ثابت منقول نہ ہو اھ – یہی وہ بات ہے جو ان کے لئے اپنے مذہب کے امام صفارحنفی کے قول سے عدول کرکے ایک شافعی متاخر امام ابن الصلاح کا قول لینے پر باعث ہوئی۔
(۲؎ ردالمحتار مطلب فیما یکتب علٰی کفن المیت مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۶۰۷)
(۱؎ ردالمحتار مطلب فیما یکتب علی کفن المیت مطبوعہ داراحیاء التراث العربی بیروت ۱ /۷۰۷)