مقام سوم : کفن پر آیات اسماء ادعیہ لکھنے میں جو شبہہ کیا جاسکتا تھا وہ یہی تھا کہ میّت کا بدن شق ہونا، اس سے ریم وغیرہ نکلنا ہے، تو نجاست سے تلوث لازم آئے گا۔ اس کا نفیس ازالہ امام نفیس نے فرمادیا کہ اصطبلِ فاروق اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ میں گھوڑوں کی رانوں پر لکھا تھا:
حبس فی سبیل اﷲ تعالٰی۱؎
(وقف فی سبیل اﷲ تعالٰی ہے۔ت)
(۱؎ ردالمحتار علی الدرالمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۶۰۷)
جو احتمالِ نجاست یہاں ہے وہاں بھی تھا تو معلوم ہوا کہ ایک امر غیر موجود کا احتمال نیت صالحہ وغرض صحیح موجود فی الحال سے مانع نہیں آتا۔ مگر ایک متاخر عالم شافعی المذہب امام ابن حجر مکی رحمۃ اللہ تعالٰی نے اس جواب میں کلام کیا رانِ اسپ پر لکھنا صرف پہچان کے لئے تھا اور کفن پر لکھنے سے تبرک مقصود ہوتا ہے، تو یہاں کلماتِ معظمہ اپنے حال پر باقی ہیں انہیں معرض نجاست پر پیش کرنے کی اجازت نہ ہوگی۲ ؎۔
(۲؎ ردالمحتار علی الدرالمختار باب صلٰوۃ الجنائز مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۱ /۶۰۷)
ذکرہ فی فتاواہ الکبرٰی واثرہ العلامۃ الشامی فتبعہ علی عادتہ فانی رأیتہ کثیرا مایتبع ھذاالفاضل الشافعی کمافعل ھھنا مع نص ائمۃ مذھبہ الامام نصیر والامام الصفار و تصریح البزازیۃ والدرالمختار وکذا فی مسئلۃ نزول الخطیب درجۃ عندذکر السلاطین وفی مسئلۃ اذان القبر وفی نجاسۃ رطوبۃ الرحم بالاتفاق مع ان الصواب ان طھارۃ رطوبۃ الفرج عند الامام یشمل الفرج الخارج والرحم والفرج الداخل جمیعا کما بینۃ فی جدالممتار ۔
اسے امام ابن حجر مکی نے اپنے فتاوٰی کبرٰی میں ذکر کیا اور علّامہ شامی نے اسے نقل کرنے کے بعد اس کی پیروی کی، جیسا کہ ان کی عادت ہے اس لئے کہ میں نے بہت جگہ دیکھا کہ وہ اس شافعی فاضل کی پیروی کرتے ہیں جیسے یہاں کی باوجودیکہ ان کے ائمہ مذہب امام نصیر، امام صفار کی تصریح اوربزازیہ و درمختار کی عبارت سامنے ہے۔ اسی طرح خطبہ میں ذکر سلاطین کے وقت خطیب کے ایک سیڑھی نیچے اُتر آنے کے مسئلے میں اور مسئلہ اذانِ قبر میں اور رطوبت رحم کی نجاست کے بارے میں کہا جبکہ صحیح یہ ہے کہ امام اعظم کے نزدیک رطوبتِ فرج کی طہارت فرج خارج ، رحم اور فرج داخل سبھی کو شامل ہے۔ جیسا کہ جدالممتار میں اسے میں نے بیان کیا ہے(ت)
اقول قطع نظر اس سے کہ یہ فارق یہاں اصلاً نافع نہیں
کما بینۃ فیما علقت علی ردالمحتار
(جیسا کہ میں نے اپنے حاشیہ ردالمحتار میں اسے بیان کیا ہے۔ت) مقام ثانی میں جوا حادیثِ جلیلہ ہم نے ذکر کیں وہ توخاص تبرک ہی کے واسطے تھیں تو فرق ضائع اورامام نصیر کا استدلال صحیح وقاطع ہے۔
ثمّ اقول بلکہ خود قرآنِ عظیم مثل سورہ فاتحہ و آیاتِ شفاء وغیرہا بغرضِ شفاء لکھ کر دھوکر پینا سلفاً خلفاً بلا نکیر رائج ہے (عہ)۔
عہ: بلکہ دیلمی نے مسندالفردوس میں اُن سے روایت کی کہ نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
اذاعسرت علی المرأۃ ولادتھا خذ اناء نظیفا فاکتب علیہ قولہ تعالٰی ، کانھم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعۃ من نھار بلغ، فھل یھلک الاالقوم الفٰسقون کانھم یوم یرونھا لم یلبثو الاعشیۃ اوضحٰھالقدکان فی قصصھم عبرۃ لاولی الالباب، ثم یغسل وتسقی منہ المرأۃ وینضح علٰی بطنھا وفرجہا۔ ۲
جس عورت کو جننے میں دشواری ہو پاکیزہ برتن پر آیتیں لکھ کر اُسے پلائیں اور اس کے پیٹ اور فرج پر چھڑکیں۔
ذکرہ فی نزھۃ الاسرار معزی التفسیر بحرالعلوم۱۲
(۲؎ کنز العمال بحوالہ السنی عن ابن عباس حدیث ۲۸۳۸۱ مؤسستہ الرسالۃ بیروت ۱۰ /۶۴)
عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما نے دردِ زہ کے لئے فرمایا :
تکتب لہا شیئ من القراٰن وتسقی ۔ ۱؎
قرآن مجید میں سے کچھ لکھ کر عورت کو پلائیں۔
(۱؎ قول عبداﷲ ابن عباس)
امام احمد بن حنبل اس کے لئے حدیثِ ابن عباس ، دعائے کرب اور دو آیتیں تحریر فرمایا کرتے :
لا الٰہ الااﷲ الحلیم الکریم سبحٰن اﷲ رب العرش العظیم الحمدﷲ رب العٰلمین کانھم یوم یرونھا لم یلبثو الاعشیۃ اوضحٰھا کانھم یوم یرون مایوعدون لم یلبثو الاساعۃ من نھار ۔ ۱؎
(۱؎ مواہب اللدنیہ کتابات الآلام اخرٰی المکتب الاسلامی بیروت ۳ /۴۶۳
مدارج النبوّۃ باب ششم معجزات آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم (رقیہ عسرولادت) مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر ۱/ ۲۳۵)
ان کے صاحبزادہ جلیل امام عبداﷲ بن احمد اسے زعفران سے لکھتے ۔ امام حافظ ثقہ احمد بن علی ابوبکر مروزی نے کہا :میں نے ان کو بارہا اسے لکھتے دیکھا۲ ؎
رواہ الامام الثقۃ الحافظ ابوعلی الحسن بن علی الخلال المکی
(اسے امام، ثقہ، حافظ ابوعلی حسن بن علی خلال مکی نے روایت کیا۔ت)
(۲؎ مدارج النبوّۃ بحوالہ خلال مکی باب ششم معجزات آنحضرت صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم (رقیہ عسرولادت) مکتبہ نوریہ رضویہ سکّھر ۱/ ۲۳۵)
حالانکہ معلوم ہے کہ پانی جزوِ بدن نہیں ہوتا اور اسکا مثانہ سے گزر کر آلاتِ بول سے نکلنا ضرور ہے بلکہ خود زمزم شریف کیا متبرک نہیں، ولہذا اس سے استنجا کرنا منع ہے، درمختار میں ہے :
یکرہ الاستنجاء بماء زمزم لا الا غتسال۳؎ ۔
آبِ زم زم سے استنجاء مکروہ ہے غسل نہیں۔(ت)
(۳؎ درمختار باب الہدٰی مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۸۴)
ردالمحتار میں ہے :
وکذا ازالۃ النجاسۃ الحقیقۃ من ثوبہ او بدنہ حتی ذکر بعض العلماء تحریم ذلک۴ ۔
اسی طرح اپنے کپڑے یا بدن سے نجاستِ حقیقیہ آبِ زم زم سے زائل کرنا یہاں تک کہ بعض علماء نے اسے حرام بتایا ہے۔(ت)
(۴؎ ردالمحتار باب الہدٰی مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المصریہ مصر ۲ /۲۵۶)
اور اس کا پینا اعلٰی درجہ کی سنت، بلکہ کوکھ بھر کر پینا ایمان خالص کی علامت۔ تاریخ بخاری وسنن ابن ماجہ و صحیح مستدرک میں بسندِ حسن حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے ہے رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں :
اٰیۃ ما بیننا وبین المنافقین انھم لایتضلعون من زمزم ۵؎۔
ہم میں اور منافقوں میں فرق کی نشانی یہ ہے کہ وہ کوکھ بھر کر آبِ زمزم نہیں پیتے۔
(۵؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب المناسک مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱ /۴۷۲)
بلکہ بحمد اﷲ تعالٰی ہماری تقریر سے امام ابن حجر شافعی اوران کے متبع کا خلاف ہی اُٹھ گیا، اول نے اسے حدیث سے ثبوت پر موقوف رکھا تھا،
قال والقول بانہ قیل یطلب فعلہ الخ مرد ود لان مثل ذلک لا یحتج بہ وانما کانت تظھرالحجۃ لوصح عن النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم طلب ذلک ولیس کذلک ۱؎ ۔
ان کا کلا م یہ ہے'' یہ کہنا کہ ''غرض صحیح کے لئے ایسا کرنا مطلوب ہوگا اگرچہ معلوم ہو کہ اسے نجاست پہنچے گی'' ناقابل قبول ہے کیونکہ اس طرح کی بات سے حجت قائم نہیں ہوتی، اگر نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علییہ وسلم سے اس کی طلب صحت کے ساتھ ثابت ہوتی تو حجت ظاہر ہوتی اور ایسا نہیں''۔(ت)
(۱؎ فتاوی ابن حجر مکی باب الجنائز دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۱۳)
دوم نے حدیث یا قولِ مجتہد پر،
قال فالمنع ھنابالاولٰی مالم یثبت عن المجتھد اوینقل فیہ حدیث ثابت۲؎۔
انہوں نے کہا: تو یہاں ممانعت بدرجہ اولٰی ہوگی جب تک کہ مجتہد سے اس کا ثبوت نہ ہو یا اس بارے میں کوئی حدیث منقول نہ ہو(ت)
(۲؎ ردالمحتار باب صلٰوۃ الجنائز ادارۃ الطباعۃ المصریۃ مصر ۱ /۶۰۷)
ہم نے متعدد احادیثِ صحیحہ سے اُسے ثابت کردیا اور امام نصیر و امام قاسم صفار نے خود ہمارے مذہب کے ائمہ مجتہدین سے ہیں، بالجملہ حکمِ جواز ہے اور اگر بلحاظ زیادت احتیاط کفن پر لکھنے یا لکھا ہوا کفن دینے سے اجتناب کرے تو جادارد۔ اس بحث کی تکمیل وتفصیل فقیرنے تعلقیات ردالمحتار میں ذکر کی، اُس کا یہاں ذکر خالی از نفع نہیں، امام حجر مکی نے بعد عبارت مذکورہ نمبر ۱۲فرمایا تھا :
قیاسہ علی مافی نعم الصدقۃ ممنوع لان القصد ثم التمیز لاالتبرک وھنا القصد التبرک فالاسماء المعظمۃ باقیۃ علی حالھا فلا یجوز تعریضھا للنجاسۃ ۳ ؎ اھ و اقرہ ش
صدقہ کے جانوروں کے بارے میں جو آیا ہے اس پر اس کا قیاس ممنوع ہے اس لئے کہ وہاں امتیاز مقصود ہے تبرک نہیں، اور یہاں برکت لینا مقصود ہے تو عظمت والے اسماء اپنے حال پر باقی رہیں گے انہیں معرض نجاست میں لانا جائز نہ ہوگا اھ، علامہ شامی نے اسے برقرار رکھا۔ (ت)
(۳؎ فتاوی ابن حجر مکی باب الجنائز دارالکتب العلمیۃ بیروت ۲ /۱۳)