(۲۳) بلکہ صحاح ستّہ سے ثابت کہ جب عبداﷲ بن اُبی منافق کہ سخت دشمن حضور سیدالمحبوبین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم تھا جس نے وہ کلمہ ملعونہ
لئن رجعنا الی المدینۃ
(جب ہم مدینہ کو لوٹیں گے الخ۔ت)کہا، جہنم واصل ہوا، حضور پُر نور حلیم غیور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اُسکے بیٹے حضرت عبداﷲ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ابن عبداﷲ بن اُبی کی درخواست سے کہ صحابی جلیل ومومن کامل تھے،اُس کے کفن کے واسطے اپنا قمیص مقدس عطافرمایا، پھر اس کی قبر پر تشریف فرما ہوئے، لوگ اُسے رکھ چکے تھے،حضور طیب وطاہر صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے اُس خبیث کو نکلواکر لعابِ دہن اس کے بدن پرڈالا اورقمیض مبارک میں کفن دیا، اور یہ بدلا اس کا تھا کہ روزِ بدر جب سیّدنا عباس بن عبدالمطلب رضی اﷲ تعالٰی عنہما گرفتار آئے برہنہ تھے، بوجہ طول قامت کسی کا کُرتا ٹھیک نہ آتا اس مردک نے انہیں اپنا قمیض دیا تھا۔ حضور عزیز صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے چاہا کہ منافق کا کوئی احسان حضور کے اہلبیت کرام پر بے معاوضہ نہ رہ جائے لہذا اپنے دو قمیض مبارک اس کے کفن میں عطا فرمائے، ونیز مرتے وقت وہ ریا کار، نفاق شعار، خود عرض کرگیا کہ حضور مجھے اپنے قمیض مبارک میں کفن دیں، پھر اس کے بیٹے رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے درخواست کی، اور ہمارے کریم علیہ افضل الصلٰوۃ والتسلیم کا ادب قدیم ہے کہ کسی کاسوال رَد نہیں فرماتے۔
یارسول اﷲ یاکریم یارؤف یارحیم اسألک الشفاعۃ عندالمولی العظیم والوقایۃ من نار الجحیم والامان من کل بلاء الیم لی ولکل من اٰمن بک بکتابک الحکیم علیک من ولاک افضل الصلٰوۃ واکمل تسلیم ۔
اے اﷲ کے رسول، اے کریم، اے رؤف، اے رحیم! آپ سے ربِ عظیم کے حضور شفاعت، نارِ جہنم سے حفاظت اور ہردردناک بلا سے امان کا سوال کرتا ہوں اپنے لئے اور ہر اس شخص کے لئے جو آپ پر آپ کی حکمت والی کتاب پر ایمان لایا، آپ پر اورآپ سے محبت رکھنے والوں پر بہتر درود اور کامل تر سلام ہو۔ (ت)
حضور رحمۃ اللعالمین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی یہ شانِ رحمت دیکھ کر کہ اپنے کتنے بڑے دشمن کو کیسا نوازا ہے ہزار آدمی قوم ابن اُبی سے مشرف باسلام ہوئے کہ واقعی یہ حلم و رحمت وعفو و مغفرت نبیِ برحق کے سوا دوسرے سے متصور نہیں صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہٖ وصحبہ اجمعین وبارک وسلم ،صحیحین وغیرہما صحاح و سنن میں ہے :
عن ابن عمر رضی اﷲتعالٰی عنہ ان عبداﷲ بن اُبی لما توفی جاء ابنہ الی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فقال یارسول اﷲ اعطنی قمیصک اکفنہ فیہ وصل علیہ استغفرلہ فاعطاہ النبی صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم قمیصہ الحدیث۱؎۔
حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہما سے روایت ہے کہ جب عبداﷲ بن ابی فوت ہوا اس کے فرزند نے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوکر عرض کیا یارسول اﷲ! اپناکُرتا عطافرمائیں میں اسے اس میں کفن دوں گا اور اسے اپنی صلٰوۃ واستغفار سے نوازیں، تو حضور نبی کریم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے انہیں اپنا کُرتا عطا کردیا۔الحدیث (ت)
عن جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال اٰتی النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عبداﷲ بن اُبی بعد مادفن فنفث فیہ من ریقہ والبسہ قمیصہ ۱؎
حضرت جابر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے نبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم عبداﷲ بن اُبی کے پاس دفن کے بعد تشریف لائے اس کے منہ میں اپنا لعابِ اقدس ڈالا اور اسے اپنا کُرتاپہنایا۔(ت)
(۲۵) امام ابو عمر یوسف بن عبدالبر کتاب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب میں فرماتے ہیں حضرت امیر معاویہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے اپنے انتقال کے وقت وصیت میں فرمایا :
انی صحبت رسول اﷲصلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فخرج لحاجۃ فاتبعتہ باداوۃ فکسانی احد ثوبیہ الذی یلی جسدہ فخبأتہ لھذا الیوم، واخذرسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من اظفارہ وشعرہٖ ذات یوم فاخذتہ، فخباتہ لہذا الیوم فاذا انامت فاجعل ذلک القمیص دون کفنی ممایلی جسدی وخذ ذلک الشعر والاظفار فاجعلہ فی فمی وعلی عینی ومواضع السجود منی ۲؎۔
یعنی میں صحبتِ حضور سید عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم سے شرف یاب ہوا ایک دن حضور اقدس صلی ﷲ تعالٰی وسلامہ علیہ ، حاجت کے لئے تشریف فرما ہوئے ہیں۔ میں لوٹا لے کر ہمراہ رکاب سعادت مآب ہُوا۔ حضور پُرنور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے اپنے جوڑے سے کُرتا کہ بدنِ اقدس سے متصل تھا مجھے انعام فرمایا، وہ کُرتا میں نے آج کے لئے چھپا رکھا تھا۔ اور ایک روز حضورِ انور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم نے ناخن و مُوئے مبارک تراشے وہ میں نے لے کر اس دن کے لئے اٹھا رکھے، جب میں مرجاؤں تو قمیص سراپا تقدیس کو میرے کفن کے نیچے بدن کے متصل رکھنا، وموئے مبارک وناخن ہائے مقدسہ کو میرے منہ اور آنکھوں اور پیشانی وغیرہ مواضع سجود پر رکھ دینا ۔
(۲؎ کتاب الاستعیاب فی معرفۃ الاصحاب علی ہامش الاصابۃ ترجمہ معاویہ بن سفیان مطبوعہ دارصادر بیروت ۳/۳۹۹)
(۲۶) حاکم نے مستدرک میں بطریق حمید بن عبدالرحمن رواسی روایت کی :
قال حدثنا الحسن بن صالح عن ھارون بن سعید عن ابی وائل قال کان عند علی رضی اﷲ تعالٰی عنہ مسک، فاوصی ان یحنط بہ، وقال علی وھوفضل حنوط رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ۱؎سکت علیہ الحاکم، ورواہ ابن ابی شیبہ فی مصنفہ قال حدثنا حمید بن عبدالرحمٰن بہ، ورواہ البیھقی فی سننہ، قال النووی اسنادہ حسن۲ ؎۔ذکرہ فی نصب الرایۃ من الجنائز۔
(انہوں نے کہا ہم نےحسن بن صالح نے حدیث بیان کی وُہ ہارون بن سعید سے،وہ ابووائل سے راوی ہیں انہوں نے کہا۔ت) کہ مولٰی علی کرم اﷲ تعالٰی وجہہ کے پاس مشک تھا وصیت فرمائی کہ میرے حنوط میں یہ مشک استعمال کیا جائے،اور فرمایاکہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کے حنوط کا بچا ہُوا ہے۔(اور اسے ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا ، کہا ہم سےحمید بن عبدالرحمن نے حدیث بیان کی آگے سند دی ہے، اور اسےبیہقی نے سنن میں روایت کیا۔امام نووی نے فرمایا اس کی سند حسن ہے۔اسے نصب الرایہ کتاب الجنائز میں ذکر کیا۔ت)
(۱؎ المستدرک علی الصحیحین کتاب الجنائز مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱ /۳۶۱)
(۲؎ نصب الرایۃ باب الجنائز فصل فی الغسل المکتبۃ الاسلامیۃ لصاجہ الریاض ۲ /۲۵۹)
(۲۷) ابن السکن نے بطریق صفوان بن ہبیرہ عن ابیہ روایت کی :
قال قال ثابت البنانی قال لی انس بن مالک رضی اﷲتعالٰی عنہ ھذہ شعرۃ من شعر رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فضعھا تحت لسانی، قال قوضعتھا تحت لسانہ فدفن وھی تحت لسانہ ۳ ؎ ،ذکرہ فی الاصابۃ۔
یعنی ثابت بنانی فرماتے ہیں مجھ سے انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے فرمایا : یہ موئے مبارک سیّدِ عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا ہے،اسے میری زبان کے نیچے رکھ دو، میں نے رکھ دیا، وہ یوں ہی دفن کئے گئے کہ موُئے مبارک اُن کی زبان کے نیچے تھا(اسے اصابہ میں ذکر کیا گیا۔ت)
(۲۸) دلائل النبوۃ بیہقی و ابن عساکر امام محمد بن سیرین سے راوی :
عن انس بن مالک انہ کان عندہ عصیۃ لرسول اﷲ صلی اﷲتعالی علیہ وسلم فمات فدفنت معہ بین جیبہ وبین قمیصہ۴؎۔
انس بن مالک رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے پاس حضور سیّد عالم صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم کی ایک چھڑی تھی وہ ان کے ینہ پر قمیص کے نیچے اُن کے ساتھ دفن کی گئی۔
(۴؎ مختصر تاریخ دمشق لابن عساکر ترجمہ انس ابن مالک دارالفکر بیروت ۵ /۷۵)
اُن کے سوا ہنگام تتبع اور نظائر ان وقائع کے کتب حدیث میں ملیں گے۔ ظاہر ہے کہ جیسے نقوش کتابت آیات واحادیث کی تعظیم فرض ہے یونہی حضور پُر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کی ردا و قمیص خصوصاًناخن و موئے مبارک کی کہ اجزائے جسم اکرم حضور سیّد عالم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وعلٰی کل جزء جزء وشعرۃ شعرۃ منہ وبارک وسلم توصحابہ کرام رضی اﷲ تعالٰی عنہم اجمعین کا ان طریقوں سے تبرک کرنا اور حضور پُر نور صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا اسے جائز ومقرر رکھنا بلکہ بنفس نفیس یہ فعل فرمانا جوازِ مانحن فیہ کے لئے دلیل واضح ہے اور کتابت قرآن عظیم کی تعظیم زیادہ ماننا بھی ہرگز مفید تفرقہ نہیں ہوسکتاکہ جب علت منع خوف تجنیس ہے تو وُہ جس طرح کتابت فرقان کے لئے ممنوع ومخطور، یونہی لباس واجزائے جسم اقدس کے لئے قطعاً ناجائز و محذور ، پھرصحاح احادیث سے اسکا جواز بلکہ ندب ثابت ہونا بحکم دلالۃ النص اس کے جواز کی دلیل کافی وﷲ الحمد۔