Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۹(کتاب الجنائز)
1 - 243
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
باب الجنائز
مسئلہ نمبر۱: از جس پور،محلہ پہاڑ گنج چوکڑی توپ خانہ ،متصل سورج پول،  مرسلہ حکیم اﷲ بخش،    ۱۳رمضان ۱۳۳۸ھ

(۱) جس وقت آدمی علیل ناقابلِ صحت مثلاً مدقوق ہوجائے ، اُمید زیست نہ رہے تو اس کو شرعاً کیا کرنا چاہئے ؟اورعزیز واقارب کو کیا کرنا چاہئے ؟

(۲) جنازے اٹھانے میں کس طرف سے سبقت کی جائے؟
الجواب

(۱) آدمی ہر وقت موت کے قبضہ میں ہے، مدقوق اچھا ہوجاتا ہے اور وہ جو اس کے تیمارمیں دوڑتا تھا اُس سے پہلے چل دیتا ہے، ہر قت وصیّت تیار رہنی چاہئے جس میں اپنے پسماندوں کو توحیدِالٰہی عزوجل رسالت پناہی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم واستقامت عقائد اہلسنّت واتباعِ شریعت واصلاحِ ذات بین،وحدت وقربِ اولیاء،ود وری وتنفراز کفاروضلال وفسق کی ہدایت ہواور بعد کو کچھ ترکہ چھوڑے تو اس کا شرعی کافی انتظام جس میں نزاع نہ رہے اور اپنی تجہیز وتکفین میں اتباع سنّت کی ہدایت،اوران پر لازم ہے کہ اس پر عمل کریں۔اورسب سے پہلے خود اپنی اصلاح، گناہوں سے توبہ، اﷲ اور رسول کی طرف رجوع،موت کا خوشی کے ساتھ انتظار کرنا کہ آتے وقت ناگواری نہ ہو،اس وقت  کی ناگواری معاذاﷲ بہت سخت ہے،عیاذاً باﷲ اس میں سوءِ خاتمہ کاخوف ہے ،نبی صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم فرماتے ہیں :
من احب لقاء اﷲ احب اﷲ لقاء ہ ومن کرہ لقاء اﷲ کرہ لقاء ہ ۱؎۔
جو اﷲ سے ملنا پسند کرے گا اﷲاس کا ملنا پسند فرمائےگا اورجواﷲ سے ملنے کو مکروہ رکھے گا اﷲ اسکا ملنا مکروہ رکھے گا۔
 (۱؎ صحیح بخاری     باب من احب لقاء اﷲ الخ        مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی    ۲ /۹۶۳

    صحیح مسلم     باب من احب لقاءاللہ الخ            مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی     ۲/ ۳۴۳)
صحابہ کرام نے عرض کی: یارسول اﷲ! ہم میں کون ایسا ہے کہ موت کو مکروہ نہ رکھے۔ فرمایا:یہ مراد نہیں بلکہ جس وقت دَم سینہ پر آئے اُس وقت کا اعتبار ہے اُس وقت جو اﷲ سے ملنے کو پسند رکھے گا اﷲ تعالٰی  اس سے ملنے کو دوست رکھے گا۔ اور ناپسند تو ناپسند اپنے ذمہ نماز یا روزہ یا زکوٰۃ جوکچھ باقی ہو فوراً بقدرِ قدرت اس کی ادا میں مشغول ہو حج نہ کیا ہو اور فرض تھا تو دیر نہ لگائے۔ بوجہ مرض طاقت نہ رہی توحج بدل کرادے اگر اخیر دم تک طاقت نہ پائے گا ادا ہوجائے گا، ورنہ جب قوت پائے خود ادا کرے،حقوق العباد جس قدر ہوں جو ادا کرنے کے ہیں ادا کرے،جو معافی چاہنے کے ہیں معافی چاہے اوراس میں اصلاً تاخیر کو کام میں نہ لائے کہ یہ شہادت سے بھی معاف نہیں ہوتے، معافی چاہنے میں کتنی ہی تواضع کرنی پڑے اُس میں اپنی کسرِ شان نہ سمجھے اس میں ذلت نہیں ذلت اس میں ہے کہ جس روز بارگاہِ عزّت میں حاضر ہو،اس طور پر کہ ،اُس کا حق د بایا ہے، اُسے بُرا کہا ہے، اُس کی غیبت کی ہے، اسے مارا ہے، اور   وہ حقدار اس سے لپٹیں، اُس کی نیکیاں اُن کو دی جائیں، اُن کے گناہ اُس پر رکھے جائیں اور جہنم میں پھینک دیا جائے والعیاذ باﷲتعالٰی ، جب تک زیست ہے آیات واحادیثِ خوف کے ترجمے اکثر سُنا اور دیکھا کرے، اور جب وقت برابر آجائے، اُسے آیات واحادیث رحمت مع ترجمہ سُنائیں کہ جانے کہ کس کے پاس جارہاہوں تاکہ اپنے رب کے ساتھ نیک گمان کرتا اُٹھے
رزقنا اﷲ تعالٰی بجاہ حبیبہ الاکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم
 (اﷲ تعالٰی  اپنے حبیب اکرم صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے طفیل اسے نصیب کرے۔ت)
واﷲ تعالٰی  اعلم۔
 (۲) جنازہ کو یوں لے چلیں کہ سرہانہ آگے کی جانب ہو اور پہلے سرہانے کا داہنا پایہ اپنے داہنے شانے پر لے، پھر پائینتی کادہنا، پھر سرہانے  کا بایاں پھر پائینتی کا بایاں، اورہر بار کم از کم دس قدم چلے، یہ ایک دَور ہُوا۔اس پر چالیس گناہ کبیرہ معاف ہونے کی بشارت ہے،حسب طاقت وحالت جتنے دورے ممکن ہو کرے۔واﷲ تعالٰی  اعلم۔
مسئلہ نمبر ۲: ازپٹنہ ڈاکخانہ گلزاری باغ محلہ ترپولیہ متصل ہسپتال زنانہ، مرسلہ باقر علی حکاک۔

۹ رجب ۱۳۲۹ھ

مع فتوائےعبدالحکیم پٹنوی کہ وقتِ مرگ صرف
لا الٰہ الّااﷲ
کہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا ہے: مرنے والوں کو
لا الٰہ الّا اﷲ
کی تلقین کرو
محمد رسول اﷲ
ملانے کو نہیں فرمایا اور فرمایا۔جس کا پچھلا کلام
لا الٰہ الّا اﷲ
ہوتو وہ جنّت میں گیا، یہاں بھی
محمد رسول اﷲ
نہیں فرمایا، تو اگر
لا الٰہ الّا اﷲ
کے بعد
محمد رسول اﷲ
کا لفظ بڑھایا جائے تورسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم کے حکم کے خلاف ہونے کے سبب بُرا اور منع ہو۔المجیب عبدالحکیم صادق پوری۔

اس کے رَد میں مولٰنا عبدالواحد صاحب مجددی رام پوری کا رسالہ''وثیقہ بہشت '' اس ساتھ تھا، تحریر فقیر بر''وثیقہ بہشت''۔
الجواب

بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم۵ اللھم لک الحمد۔
اﷲ عزّوجل خیر کے ساتھ شہادتین پر موت نصیب کرے۔ وقتِ مرگ بھی پورا کلمہ طیبہ پڑھنا چاہئے۔جو اسے منع کرتا ہے مسلمان اس کے اغواواضلال پر کان نہ رکھیں کہ وہ شیطان کی اعانت چاہتا ہے۔امام ابن الحاج مکی قدس سرہ الملکی  مدخل میں فرماتے ہیں کہ دمِ نزع دو۲ شیطان آدمی کے دونوں پہلو پر آکر بیٹھتے ہیں ایک اُس کے باپ کی شکل بن کر دوسرا ماں کی۔ ایک کہتا ہے وہ شخص یہودی ہوکر مرا تو یہودی ہوجا کہ یہود وہاں بڑے چین سے ہیں۔ دوسرا کہتا ہے وہ شخص نصرانی گیا تو نصرانی ہوجا کہ نصارٰی  وہاں بڑے آرام سے ہیں۱؎۔
(۱؎ المدخل لابن الحاج    فتنہ المختصر        مطبوعہ داارلکتب العربی بیروت    ۳ /۲۴۱)
علمائے کرام فرماتے ہیں شیطان کے اغوا کے بچانے کے لئے محتضر کو تلقینِ کلمہ کا حکم ہوا۔ ظاہر ہے کہ صرف لا الٰہ الا اﷲ اس کے اغوا کا جواب نہیں، لا الٰہ الا اﷲ تویہود و نصارٰی  بھی مانتے ہیں، ہاں وہ کہ جس سے اس ملعون کے فتنے مٹتے ہیں محمد رسول اﷲ کا ذکر کریم ہے صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم۔ یہی اس کے ذریات کے بھی دل میں چُبھتا جگر میں زخم ڈالتا ہے، مسلمان ہرگزہرگز اسے نہ چھوڑیں اور جو منع کرے اُس سے اتنا کہہ دیں کہ
''گر بتوحرام است حرامت بادا''
 (اگر یہ تجھ پر حرام ہے تو حرام رہے۔ت)مجمع بحارالانوار میں ہے :
سبب التلقین انہ یحضرالشیطان لیفسد عقدہ، والمراد بلاالٰہ الا اﷲ الشھادتان۲؎ ۔
تلقین کا سبب یہ ہے کہ اُس وقت شیطان آدمی کا ایمان بگاڑنے آتا ہے،اور لا الٰہ الّا اللہ سے پورا کلمہ طیّبہ مراد ہے۔
 (۲؎ مجمع بحارالانوار    تحت لفظ''لقن''    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ     ۳ /۲۶۲)
فتح القدیر میں ہے :
المقصودمنہ التذکیر فی وقت تعرض الشیطان۳؎ ۔
تلقین سے مقصود تعرض شیطان کے وقت ایمان  یاد دلانا ہے۔
 (۳؎ فتح القدیر      باب الجنائز      مطبوعہ  مکتبہ نوریہ رضویہ سکھر        ۲ /۶۸)
اسی طرح تبیین الحقائق اورفتح اﷲ مبین وغیرہ میں ہے۔مرقاۃ شرح ،شکوٰۃ میں علامہ میرک سے ہے:
من کان اٰخر کلامہ لا الٰہ الّااﷲ المراد مع قرینتہ فانہ بمنزلۃ علم لکلمۃ الایمان۱؎ ۔
حدیث میں جو فرمایا کہ جس کا پچھلا کلام لا الٰہ الّااﷲہواُس سے مراد پورا کلمہ طیبہ ہے کہ لا الٰہ الّااﷲگویااس کلمہ ایمان کانام ہے۔
 (۱؎ مرقات شرح مشکوٰۃ    باب مایقال عند من حضرۃ الموت    فصل ثانی  مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان    ۴ /۱۵)
دُرر غرر میں ہے :
یلقن بذکر شہادتین عندہ لان الاولی لا تقبل بدون الثانیۃ ۲؎ ۔
کلمہ طیّبہ کے دونوں جُز میّت کو تلقین کئے جائیں اس لئے کہ لا الٰہ الّا اللہ بےمحمد رسول اﷲ کے مقبول نہیں۔
 (۲؎ دررشرح غررملّاخسرو    باب الجنائز       مطبوعہ مطبعۃ احمد کامل الکائنہ فی دارالسعادت بیروت    ا/۱۶۰)
غنیـہ ذوی الاحکام میں اس پر تقریر فرمائی،تنویر الابصار میں ہے:
یلقن بذکر الشہادتین۳؎
دونوں شہادتیں تلقین کی جائیں۔
 ( ۳؎ تنویرالابصار متن الدرالمختار    باب صلٰوۃ الجنائز      مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی      ۱ /۱۱۹)
دُر مختار میں ہے :
لان الاولی لاتقبل بدون الثانیۃ۴؎
کہ پہلی بے دوسری  کے مقبول نہیں۔
 (۴؎ درمختار شرح تنویر الابصار       باب صلٰوۃ الجنائز       مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی       ۱/۱۱۹)
المختصر القدوری میں ہے:
لقن الشھادتین ۵؂
پوراکلمہ سکھایا جائے۔
 (۵ ؂المختصر للقدوری   باب الجنائز       مطبوعہ مطبع مجیدی کانپور بھارت      ص۴۴)
جوہرہ نیرہ میں ہے:
لقولہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم لقنوا موتاکم شھادۃ ان لا الٰہ الااﷲ وھوصورۃ التلقین ان یقال عندہ فی حالۃ النزع جھراًوھویسمع اشھدان لاالٰہ الااﷲ واشھدان محمدارسول اﷲ۶؎ ۔
اس لئے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی  علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اموات کو لا الٰہ الا اﷲکی شہادت یاددلاؤ اور اس یاد دلانے کی صورت یہ ہے کہ اس نزع میں اس کے پاس ایسی آوازسے کہ وہ سنے اشھدان لاالٰہ الاﷲ واشھدان محمدارسول اﷲ        پڑھیں۔
 (۶؎ جوہرہ نیرہ     باب الجنائز         مطبوعہ مکتبہ امدادیہ ملتان            ۱ /۱۲۳)
Flag Counter