Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
9 - 144
مسئلہ۱۱۳۸: از چھاونی بنمچہ توپ خانہ ٹین نزد مسجد حافظ محمد عبدالرؤف خاں پیش امام مسجد

مسجد بنانا فرض ہے یاواجب یامستحب ؟ اور  برا ہے وہ پیسہ جو خرچ  ہو گارے پتھر میں، اس واسطے کہ امام اعظم رحمۃاﷲ علیہ کی خدمت میں چند آدمی حاضر ہوئے عرض کیا، یا امام ! ہم ایک مسجد بنواتے ہیں کچھ آپ تبرکات عنایت فرمائے کہ برکت ہو ، امام صاحب نے  پہلے چہرہ سائلین کی طرف سے  پھیر کر خراب منہ بنایا اور ایک درہم نکال کر دے دیا دوسرے روز  وہ شخص آئے اور درہم واپس دے کر کہنے لگے کہ حضرت ! لیجئے یہ درہم کوٹھا ہے اس کو بازار قبول نہیں کرتا ۔ امام صاحب نے وہ درہم لے کر رکھ لیا اور فرمایا خوش ہوکر کہ :خراب ہے وہ پیسہ جو گارے پتھر میں خرچ  ہووے۔
الجواب

یہ شیطانی خیال ہیں اور سیّدنا امام اعظم رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے جو حکایت نقل کی وہ محض کذب ، دروغ اور شیطانی گھڑت ہے ۔ ہر شہر میں ایک مسجد جامع بنانا واجب ہے اور ہر محلہ می ایک مسجد بنانے کا حکم ہے۔
حدیث شریف میں ہے:
امر رسول اﷲؐ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم )ببناء المساجد فی الدور و ان تنظف۲ ؎۔
رسول اﷲ ( صلی اللہ تعالی علیہ وسلم ) نے فرمایا کہ ہر محلے میں مسجدیں بنوائی جائیں اور یہ کہ وہ ستھری رکھی جائیں۔ بنائے مسجد میں جو مال صرف ہوتا ہے وہ گارے پتھر میں صرف نہیں ہوتا بلکہ رضائے رب اکبر میں۔
 ( ۲؎ سنن ابوداؤد    باب اتخاذلمساجد فی الدور    مطبوعہ آفتاب عالم پریس لاہو     ص۶۶) 

( سنن ابن ماجہ        باب تطہیرالمساجد وتطییبہا    مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ص۵۵)
اﷲعزوجل فرماتاہے: فی بیوت اذن اﷲ ان ترفع  ۱؎۔
محلوں میں مسجدیں بلند کرنے کا اﷲ نے  اذن دیا ہے۔
 (  ۱؎ القرآن        ۲۴/ ۳۶)
رسول اﷲ  صلی اللہ تعالی علیہ وسلم  فرماتے  ہیں:
من بنی اﷲ مسجدا بنی اﷲ لہ بیتا فی الجنۃ زادفی روایۃ من در ویاقوت ۲ ؎۔ واﷲتعالٰی اعلم
جو اﷲکے لئے مسجد بنائے اﷲاس کے لئے جنت میں موتیوں اور یاقوت کاگھر بنائے گا۔
 (۲؎الصحیح للمسلم        کتاب المساجد            مطبوعہ نور محمد اصح المطابع کراچی    ۱/۶۰۱)

( کتاب الزہد        ۲/ ۴۱۱) 

(مجمع الزوائد ومنبع الفوائد     باب بناء المساجد        مطبوعہ دارالکتاب بیروت       ۲/۷)
مسئلہ۱۱۳۹: از قطب پور ڈاکخانہ پیر گنج ضلع رنگ پور مسئو لہ رحمت اﷲ صاحب ۵رمضان ۱۳۳۹ھ

چہ می فرمایند علمائے دین کہ ایک مسجد قدیم کو  از مال حلال تیارکیا گیا تھا اوروقف بھی کیا گیا اس وقت ایک سود خور کے سود کا مال اور حلال مال دونوں مخلوط ہوگئے ، دونوں میں تمیز نہیں ہو سکتی کہ کون حرام کو ن حلال ہے مسجد قدیم کو تعمیر کیا یعنی گھر کو ٹین دیا  در صحن مسجد کو اینٹ سے  پختہ  کیا اور مصلیوں کے وضو کے واسطے کنواں بنوادیا۔ اب عرض یہ ہے کہ ایسی مسجد میں نماز  پڑھنا درست ہے یا نہیں؟ بینو اتواجروا
الجواب

صورت مذکور میں اُس مسجد میں نماز پڑھنا فقط جائز نہیں بلکہ اس کا آباد رکھنا فرض ہے اور سود کی مخلوط آدمی سے ٹین اور فرش اور کُنواں بنانے میں مسجد میں کوئی حرج نہیں آتا بلکہ اس فرش پر نماز جائز ہے اور اس کنویں سے پینا اور وضو کرنا حلال ۔ امام محمد فرماتے ہیں: بہ ناخذ مالم تعرف شیأ حراما بعینہ ۳ ؎۔

(اسی پر ہمارا عمل ہے جب تک ہم کسی شیء کو حرام نہ جان لیں ۔ت) واﷲتعالٰی اعلم
 ( ۳؎ فتاوٰی ہندیۃ بحوالہ ظہیریۃ الباب لثانی عشرفی الہدایا واضیافات     مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور    ۵/۳۴۲)
مسئلہ ۱۱۴۰:  از کیس اسٹریٹ صاحب بگانی مرسلہ حکیم سیّد محمد اسمٰعیل صاحب ۲۸جمادی الاخرٰی ۱۳۳۷ھ

حضرت مولانا مولوی محمد احمد رضا خاں صاحب قبلہ مدظلہ العالی: السلام علیکم ورحمۃاﷲ وبرکاتہ، حضور کو ایک امر کی تکلیف دی جاتی ہے اور چونکہ یہ خدا کا کام ہے اور حضور  ہم لوگوں کے آقا ہیں، حضور  سے دریافت کرنا

میرا فرض منصبی ہے، ایک مسجد بنانے کی خواہش صرف حضور سے اجازت اس امر کی لینی ہے ، یہاں اکثر  پرانی اینٹ ملتی ہے اور وہ اینٹ پاک عمدہ ملتی تو اس اینٹ سے مسجد بناسکتے ہیں یا نہیں؟ حضور کی جیسی رائے عالی ہو اس سے بہت جلد بواپسی ڈاک مطلع فرمائیں،خداوند کریم حضور کو اجر عظیم عطافرمائے گا۔
الجواب

جناب سید صاحب مکرم اکر مکم وعلیکم اسلام ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ، ! فقیر جبل پور  آیا ہوا  ہے، آپ کا عنایت نامہ بریلی سے یہاں آیا، ایسے سوالوں کا خیال ادب والے دلوں میں پیدا ہوتا ہے ، مولٰی تعالٰی توفیق وبرکات  زاید دے، اینٹ اگر چہ پرانی استعمال شدہ ہے مگر جبکہ پاک ہے مسجد میں لگا سکتے ہیں جیسے زمین مسجد کہ اصل مسجد وہی ہے، پہلے کوئی مکان معبد کفار ہو اور اسے توڑ کر مسجد کیا جاتا ہے، مسجد اقدس مدینہ طیبہ کی زمین میں مشرکین کا قبرستان تھا ان کی قبریں کھدواکر  ان کی ہڈیوں وغیرہا کی نجاستوں سے صاف فرماکر حضور ِ انور علیہ افضل الصلوٰۃ والسلام نے اسے مسجد فرمایا۔ و ھو تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۱۴۱: از ہلدوانی ضلع نینی تال مرسلہ حافظ اسرارالحق صاحب ۱۵ صفر۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نے ایک مکان  پختہ وقف کردیا ، تھوڑے عرصہ کے بعد وہ مکان گورنمنٹ نے اُٹھادیا، اس مکان کے بدلے دوسری جگہ زمین دے دی ،  جو زمین مکان کے عوض میں ملی تھی وہ چند شخص جمع ہو کر کے مبلغ  پچاس روپے کو  فروخت کردی گئی، آیا  زمین کا بیع کرنا جائز  ہے یا ناجائز ہے ؟
الجواب

وہ زمین اگر مسلمان نے مسجد کردی تو  اسے بیچنا جائز نہیں ، اور اگر ہنوز  ابھی مسجد نہ کی تھی اور  وہ مناسب نہیں اسے بیچ کر دوسری مناسب جگہ مسجد بنانا چاہتے ہیں تو حرج نہیں واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۱۴۲،۱۱۴۳: از قصبہ ڈبھوئی ریاست بڑودہ مر سلہ حاجی شرف الدین عمرمیاں متولی جامع مسجد ۲۱ صفر ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ:

(۱) اس قصبہ ڈبھوئی ریاست بڑودہ میں ایک عید گاہ قدیم زمانے کی بنی ہوئی ہے، اس کے نزدیک ریل کا احاطہ ہے ، اب رہلوے کمپنی والے اس ریل کے احاطے کو بڑھانے کی غرض سے عیدگاہ کو گراکر اور جاپر بنا دینا چاہتے ہیں، آیا یہ شرع شریف میں درست ہے یا نہیں؟ اگر مسلمانِ ڈبھوئی اس عیدگاہ کو نہ دیں تو ریاست کی جانب سے جبراً گرادینے کا اندیشہ ہے اس حالت میں کیا کیا جائے؟

(۲) ریاست بڑودہ تعلقہ سنگھیڑا موضع ماکنی کے قریب جنگل میں ایک مسجد قدیم شاہی زمانے کی بنی ہوئی اس وقت مسمار حالت میں ہے، اس مسجد میں چند قیمتی پتھّر ، محرابیں، کھمبے وغیرہ جو  نقشی کام کئے ہوئے ہیں زمین پر گرے ہوئے ہیں ، اس موضع کے ہنود وغیرہ  جن کی حالت اچہی ہے اٹہا کر لے جاتے ہیں اور اس موضع کے مسلمانوں کی حالت ایسی نہیں کہ اس مسجد کو پھر تعمیر کر سکیں، لہٰذا ان پتھروں کو لے جاکر کسی اور قصبہ کی مسجد میں لگانا جائز ہے یا نہیں ؟ اگر مسلمان ان پتھروں کو نہ لے جائیں گے تو ہنود لوگوں کا ان پتھروں کو اٹھاکر لے جا نے کا اندیشہ ہے۔
الجواب

(۱) محض اندیشہ کا لحاظ نہیں، واقعی جبر ہو تو اس کے عوض دوسری زمین لے کر چھوڑ سکتے ہیں، واﷲ تعالٰی اعلم۔

صورتِ مستفسرہ واقعی ہے تو مسلمان ان پتھروں کو  دوسری مسجد میں لگا سکتے ہیں کما بینہ فی ردالمحتار( جیسا کہ اسے ردالمحتار میں بیان کیا ہے ۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔
Flag Counter