Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
8 - 144
مسئلہ۱۱۳۱:ازشہر محلہ جسولی مسئولہ مولوی غلام جان پنجابی طالب علم مدرسہ اہلسنت وجماعت ۱۶ شعبان۱۳۳۶ھ
زید نے دس برس ہوئے مسجد کے پیچھے جوزید کا مکان مسجد کے متصل بلاخلا تھا اور مسجد کی بنا سے اس کی بنا جداگانہ تھی اور زمین بھی زید کی اپنی موروثی تھی اُس مکا ن پر زید نے ایک بالاخانہ بنایا اور زید کے نیچے مکان کا چھت مسجد کی چھت کے برابر ہے صرف بالا خانہ مسجد سے اونچا ہے بلکہ بالاخانہ مسجد کے برابر بھی نہیں ہے مسجد کے بائیں جانب طالب علم کے حجرے کے برابر ہے ، ہاں کچھ تھوڑا ساکونا بالاخانے کا مسجد کے کونے کے برابر ہے لیکن زید بالاخانہ بنانے کے بعد دل میں نادم ہوا، اور چونکہ روپیہ خرچ ہو چکا تھا اس وجہ سے اس نے بالاخانے کو اکھیڑا نہیں لیکن مسجد کی عزت کی وجہ سے زید مع  آل وعیال بالاخانہ میں نہیں رہتا نیچے مکان میں رہتا ہے اب اس بالاخانے کو اکھیڑنا چاہے  یا نہیں؟
الجواب
جبکہ مسجد کی کسی چیز میں تصرف نہ ہو  تو  اس کا  اکھیڑنا کچھ ضرور  نہیں۔واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۳۲:  ازسیرام پور ضلع ہوگلی مرسلہ محمد عبدالحکیم بیڑی مرچنٹ ۲۹ربیع الآخرشریف ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد قبل سے ہے اور نماز  پنجگانہ ہوا کرتی ہے اور متولی مسجد کا سہ منزلہ مکان مسجد کے متصل ہے بعد انتقال متولی کے لوگوں نے مسجد میں نماز پڑھنا چھوڑ  دیا اور عزر یہ ہے کہ جس مسجد کے قریب کوئی اونچی عمارت ہو  اس مسجد میں نماز  نہیں جائز ہے، لہٰذا لوگوں نے دوسری مسجد متصل پہلی مسجد کے  پندرہ قدم کے فاصلہ میں بناتے ہیں اور منع کرنے سے نہیں مانتے حالانکہ اس مسجد کے بنانے سے سابق مسجد کے ویران ہونے کا احتمال ہے لہٰذا حکم خدا و رسول جل  و علا و صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کیا ہے؟
  الجواب
یہ محض جاہلانہ باطل خیال ہے شریعت میں اس کی کوئی اصل نہیں ، کعبہ معظمہ کے گرد مکہ مکرمہ میں بہت بلند بلند کئی کئی منزل کے مکان ہیں کہ بظاہر کعبہ معظمہ سے اونچے معلوم ہوتے ہیں حالانکہ نہ کوئی مکان کعبہ معظمہ سے اونچا ہوسکتا ہے نہ کسی مسجد سے ، کعبہ و مسجد ان ظاہری دیواروں کانام  نہیں  بلکہ اتنی جگہ کے محاذی ساتوں آسمان تک سب مسجد ہے اس سے اونچا کیا اُس کے کروڑویں حصے برابر کوئی مکان بلند نہیں ہوسکتا اگرچہ سو منزلہ ہو،
درمختارمیں ہے :
انہ مسجد الٰی عنان السماء ۱؎۔۔
 (یہ آسمان تک مسجد ہے۔ت)
 (۱؎ درمختار    باب مایفسد الصلوٰۃ    مطبوعی مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۹۳)
ردالمحتار میں ہے:
وکذا الی تحت الثرٰی کمافی البیری عن الاسبیجابی۲ ؎۔
اور اسی طرح تحت الثرٰی تک، جیسا کہ بیری میں اسبیجابی سے ہے۔ ت)
 ( ۲؎ردالمحتار    باب مطب فی احکام المسجد  مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۶۵۶)
اس بیہودہ خیال کی بنا پر دوسری مسجد پندرہ بیس قدم کے فاصلہ پر بنانا جس سے پہلی مسجد کی جماعت کو نقصان پہنچے خود ہی ممنوع تھا، ایک تو  وہ خیال باطل ، دوسرے جماعت میں تفریق کہ مسجد ضرار کے اغراض فاسدہ سے ایک غرض ہے۔
قال تعالٰی وتفریقا بین المؤمنین۳ ؎
 (اﷲ تعالٰی نے فرما یا: اور مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کو۔ت)
 ( ۳؎ القرآن      ۹ / ۱۰۷)
یہاں تک کہ اس سے مقصود مسجد اوّل کا باطل ومعطل کردینا ہے یہ سخت حرام اشد ظلم ہے۔
قال اﷲتعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲان یذکر فیھا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۴؎
واﷲتعالٰی اعلم۔
اﷲتعالٰی نے فرمایا : اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ، جو اﷲتعالٰی کی مساجد سے اس کے نام کے ذکر کو روکتا ہے اور انھیں خراب کرنے کی کوشش کرتاہے ۔ (ت) واﷲتعالٰی اعلم
 ( ۴؎القرآن      ۲ / ۱۱۴ )
مسئلہ۱۱۳۲ : از موضع بیرا ڈاکخانہ سٹرا گنج  ضلع ڈھاکہ ملک بنگال مرسلہ مولوی خواجہ شمش الدین محمد فریدی ۱۰  جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اطراف ضلع فرید پور ضلع کھونـڈا میں قدیم سے ایک مسجد ہے جس میں اہل محلہ پنجگانہ نماز جمعہ پڑھتے چلے آئے ہیں ان دنوں دنیاوی کسی لین دین کے جھگڑے میں بعض مصلی وغیر مصلی اس مسجد قدیم کے مقابل چارپانچ  سو ہاتھ کے فاصلہ میں محض ضد و مخالف سے دوسری ایک مسجد بنائی ہے اور اس مسجد قدیم کے باقی مصلی صاحبوں کو  یہاں سے  بھگا کر  لے جانے کی  پوری کوشش کررہا ہے تاکہ یہ مسجد ویران ہوجائے اور یہاں پڑھنے والے لوگ اچھی طرح سے ضبط ہو جائیں، مسجد قدیم میں امام  و متولی صاحب و دیگر مصلی صاحبان کبھی کسی کو  پڑھنے سے مانع  مزاحم نہ ہوا،  اور  نہ اس لین دین کے جھگڑے میں شامل ہے تاہم چند قدیمی مصلی صاحبوں کو  بوجہ عداوت مخالفت یہاں سے بھگالے گیا ہے ، پس اس صورت میں مسجد جدید میں نماز جائز ہوگی یاحکم میں مسجد ضرار کے ہوگا؟ اگر شرعاًمسجد ضرار قرار پائے بوجہ مخالفت وعداوت وتفریق جماعت تو اس مسجد کو کیا کرنا ہوگا؟ اگر شرعاً مسجد جدید ضرار  ثابت ہوجائے تو جن مولوی صاحبان نے جدید مسجد نماز عدمِ جواز ومسجدِ ضرار  فرمایا تھا ان عالمو کو گالی دینے و برا کہنے وعداوت رکھنے ، حقیر جاننے والے پر شرعاً کیا حکم ہے؟
الجواب
اگر  واقع میں ایسا ہی ہے کہ یہ لوگ یہ مسجد اﷲ کےلئے نہیں بناتے محض ضداور نفسانیت اور مسجد قدیم کی جماعت متفرق کرنے کے لیئے بناتے ہیں تو ضرور  وہ مسجد ضرار کے حکم میں ہے اور اس حالت میں ان لوگوں کو جو اسے مسجد ضرار کہتے ہیں براکہنا اور گالی دینا سخت حرام اور موجب عذاب شدید ہے اور اگر واقعی کسی جھگڑے کے سبب وہ مسجد قدیم میں نہیں آسکتے اور وہاں نماز پڑھنے میں صحیح اندیشہ اپنی آبرو  وغیرہ کا رکھتے ہیں اس مجبوری سے اس میں آنا ترک کرکے اور اپنی جماعت کے لئے دوسری مسجد بوجہ اﷲ بناتے ہیں تو وہ ہر گز مسجد ضرار نہیں ہوسکتی ، جو اسے ضرار کہتے ہیں برا کرتے ہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۳۳: از  موضع سیسی تحصیل و ڈاکخانہ کچھا ضلع نینی تال مرسلہ عبدرلرحمن پدھان ۲ صفر ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ میرے گاؤں کی مسجد پُرانی خام  تھی،  وہ شکستہ بھی ہے،  دوسرے آبادی کم ہوجانے سے ایک کنارے پر آبادی کے ہوگئی ہے جو بہت بے موقع ہے، اس لئے مسجد اندر آبادی جدید تعمیرکرانے کی خواہش ہے، اس واسطے مطابق حکم شرع شریف دوسری جگہ میں  مسجد جدید تعمیر ہوسکتی ہے یا نہیں  اگر  ہوسکتی ہے تو کس طرح؟ خلاصہ حکم سے آگاہی بخشے۔
الجواب
مسجد بیچ آبادی میں تعمیر کریں ثواب عظیم  پائیں گے، اور اُس پہلی مسجد کا بھی آبادرکھنا فرض ہے ، اس کنارے والے پانچوں وقت اس میں نماز  پڑھیں واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۳۴تا۱۱۳۷: از شہر محلہ گڑھیا موصولہ  از شیخ ولایت حسین
ایک مسجد متصل کتب خانہ دومنزلہ پر واقع تھی دیوار زینہ مسجد پر اہل ہنود سے بحق ملکیت تنازعہ ہوکر کل مکانات مع جائے تنازعہ کے اہل اسلام صاحبان بریلی نے بحق مسجد وزیارت مع ایک قطعہ دیگر اراضی ہنود سے خرید لیا، مسجد نہایت چھوٹی ہونے کے سبب توسیع اُس  کی ہونا تجویز کیا گیا، انجمن اسلامیہ بریلی نے تمام تعمیر وغیرہ کا انتظام اپنے ذمہ یعنی سپردگی میں لیا اور تو سیع مسجد مذکورہ قطعہ اراضی دیگر تجویز کرکے کام تعمیر شروع کیا، مسجد کہنہ کو چھوڑکر متصل اُس کے دوسری مسجد جدید تعمیر کی اور مسجد کہنہ کو ایسا منہدم کیا کہ نشان تک اُس کا باقی نہ رہا اور جائے مسجد کہنہ کو دیگر دکانات میں بغرض حصولِ زر شامل کرلیا جاتاہے ، سوالات ذیل برائے جواب پیش ہیں:

(۱) بجائے توسیع مسجد کہنہ کے دوسری جگہ جدید مسجد تعمیر ہونا کیا مسجد اول کا حکم بموجب شرع شریف رکھے گی؟ 

(۲) جگہ مسجد کہنہ منہدمہ کو دیگر تعمیر دنیوی میں شامل کرکے کام میں لانا جائز ہے  یا نہیں؟

(۳)جن اہل اسلام صاحبان سے یہ فعل مذکورہ بالاظہور میں آیا حکماً یا عملاً مشیر، ان کے ہے شرعاً کیا حکم ہے؟

(۴) بقیہٖ اہل اسلام کو فاعل مذکوربالا سے کیاعمل درآمد کرنا چاہئے؟
الجواب
جبکھ اس مسجد جدید کو مسلمانوں نے مسجد کرلیا یہ بھی مسجدہوگئی، مسجد اول کی اور اس کی دونوں کی حفاظت و آبادی فرض ہے، مسجد اول کو منہدم کرکے تعمیر دنیاوی تعمیر دینی میں ہی میں شامل کر دینا حرام حرام سخت حرام ہے، جنھوں نے ایسا کیا ہو  اور جو  اس میں مشیر ہوں اور جو اسے جائز رکھیں سب اس آیہ کریمہ کے تحت میں ہیں:
ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیھااسمہ وسعٰی فی خرابھا اولئِک ماکان لھم ان ید خلوا ھا الاخائفین لھم فی الدنیا خزی ولھم فی الاٰخرۃ عذاب عظیم۱ ؎۔
اُن سے بڑھ کر ظالم کون جو اﷲ کی مسجدوں کو اُن میں اﷲ کا نام لئے جانے سے روکیں اور اُن کی ویرانی میں کوشاں ہو انھیں تو مسجدوں میں قدم رکھنا روانہ تھامگر ڈرتے ہوئے ان کے لئے دنیامیں رسوائی اور ان کے لئے آخرت میں بڑا عذاب ہے۔
( ۱؎ القرآن        ۲ /۱۱۴ و ۱۱۵)
فرض فرض فرض قطعی فرض ہے کہ مسجد اول کو  بھی بدستور مسجد رکھیں ، اور اگر اُس کی دکانیں کرلی گئی ہوں فرضِ قطعی ہے کہ فوراً فوراً  اُن دکانوں کو منہدم کرکے بدستور مسجد کا اعادہ کریں ورنہ عذاب عظیم کے مستحق ہوں گے ، جو نہ مانیں اور قرآن عظیم کی مخالفت پر  اڑے رہیں مسلمانوں کو ان سے اجنتاب لازم ہے ، ان کے  پاس بیٹھنا منع  ہے۔
قال اﷲ تعالٰی واماینسینک الشیطان فلا تقعد بعد الذکری مع القوم الظالمین ۱؎۔
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: اگر کبھی شیطان بھلادے تو  یاد آنے  پر ظالموں کے  پاس نہ بیٹھو۔
( ۱؎ القرآن        ۶/ ۶۸)
اور اس سے بڑھ کر ظالم کون جو مسجد ویران کر کے اس کا دکانیں کرلے وہ لوگ اگر مخالف خدا سے باز نہ آئیں تو مسلمانوں پر فرض ہے کہ کوشش کرکے مسجد منہدم کو  پھر مسجد کرلیں۔  واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter