Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
7 - 144
مسئلہ۱۱۲۹:  از گوہالباڑی ضلع مالوہ انگریز  آبا د ڈاکخانہ بھولاہاٹ مرسلہ شیخ غریب اﷲ صاحب ۴ رجب ۱۳۱۴ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک بستی میں مسلمانان ہم قوم ہم مذہب قریب دواڑھائی سو گھر کے رہتے ہیں اور ایک مسجد پختہ عرصہ دس بارہ برس سے کہ بنوائی ہوئی انھیں مسلمانان کی ہے اور ایک دل ایک رائے ہو کر اسی مسجد میں نماز پنجگانہ جمیع مسلمانان باشندہ بستی مذکورہ اداکرتے ہیں اتفاق وقت کہ بعد چند سال کے دو مسلمان رئیس میں جو  رہنے والے اسی بستی کے ہیں جھگڑا وتکرار دنیاوی دربارہ زمین خواہ کسی امر دنیاوی کے برپا ہوا اور ہنوز  ہے یا نہیں ہے کہ منجملہ دو کے ایک نے بلا سبب اپنے زورنفسانی وضد میں آکر چالیس پچاس گھر مسلمانوں کو شامل اپنے لے کر اُس مسجد مذکورہ سے روگرداں ہوا اور ہوکر ایک مسجد گیا ہی جسے پھو س کہتے ہیں اپنے مکان کے قریب تعمیر کرا کر نماز پنجگانہ مع ہمراہیان خود اداکرتا ہے تو کیا رہتے ہوئے مسجد پختہ کے کہ مسجد ہذا سے مسجد گیااندازی دوسو قدم پر واقع ہے اور ان دونو ں کے راستہ درمیان کسی طرح کا خوف جان ومال کا نہیں ہے نماز پنج وقتی مسجد گیاہ میں اداہوسکتی ہے کہ نہیں؟ اس کے جواز ولاجواز سے جہاں تک تعمیل فرماکر ممتاز فرمایا جائے گا عین نوازش واکرام ہے اور ان دونوں رئیسوں کا بلکہ سائرمسلمانان کا فیصلہ ہے مکرر آنکہ اُن لوگوں نے جتنے روز تک اُس مسجد گیاہ میں جان بوجھ کر نماز پڑھی تو اُن سبھوں کی نماز ہوئی یا نہیں، اور بصورت نکلنے حکمِ جواز آمنّاصدقناو بصورت نکلنے ناجواز ان مسلمانوں روگردانوں پر ازروُئے شرع شریف کے کیا لازم آسکتا ہے اور ان لوگوں کو جماعت میں پھوٹ ڈالنے والا کہہ سکتے ہیں یا نہیں ؟ اور جماعت میں پھوٹ ڈالنے والے پر کیا حکم مطابق شرع کے جاری کیا جائےگا اور  وہ لوگ کیا کہے جاسکتے ہیں؟ آگاہ فرمایا جائے۔بینوا توجروا۔
الجواب
جتنی نمازیں ان لوگوں نے اس نئی مسجد میں پڑھیں ان کی صحت اور ان سے ادائے فرض میں تو اصلاً شبہہ نہیں اگر چہ یہ مسجد انھوں نے کسی نیت سے بنائی ہو،

لقول رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم جعلت لی الارض مسجد اوطھورا فایمارجل من امتی ادرکتہ الصلوٰۃ فلیصل۱؎۔ 

کیونکہ نبی اکرم ؐ نے فرمایا : میری خاطر ساری زمین مسجد اور پاک کردی گئی ہے ، میرا امتی جہاں نماز کا وقت پائے وہاں ہی ادا کرلے(ت)
 ( ۱؎ صحیح البخاری        کتاب الصّلٰوۃ     باب قول النبی جعلت لی الارض مسجداالخ    مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی        ۱/۶۲)
ہاں یہ کہ وہ مسجد شرعاً مسجد ہوئی یا نہیں ، اور اس میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے یا نہیں اور یہ لوگ جماعت میں پھوٹ ڈالنے والے ہوئے یا نہیں۔ یہ امور اُن لوگوں کی نیت پر موقوف ہیں، اگر یہ مسجد انھوں نے بغرض نماز خالص اﷲ عزوجل ہی کے لئے بنائی اگر چہ اس پر باعث باہمی رنجش ہوئی کہ بسبب رنج ایک جگہ جمع ہونا مناسب نہ جانا اور نماز  بمسجد ادا کرنی نہ چاہی، لہٰذا یہ مسجد بہ نیت بجا آوری نماز ہی بنائی تو اس کے مسجد ہونے اور اس میں نماز جائز و ثواب ہونے میں کوئی شبہ نہیں
لانہ وقف صدرعن اھلہ فی محلہ علی وجھہ
 ( کیونکہ یہ وقف ہے اہل وقف سے محلِ وقف میں طریق کے بمطابق وقف ہوئی ہے۔ت)
اوراس نیت کی حالت میں یہ لوگ جماعت میں پھوٹ ڈالنے والے بھی نہیں ٹھہرسکتے کہ اُن کا مقصود اپنی نماز با جماعت ادا کرنا ہے ، نہ دوسروں کی جماعت میں تفرقہ ڈالنا ، یہاں تک کہ علماء تصریح فرماتے ہیں کہ اہل محلہ کو جائز ہے کہ بغرضِ نماز ایک مسجد کی دو مسجدیں کرلیں ۔
درمختارمیں ہے:
لاھل المحلۃ جعل المسجدین واحد او عکسہ لصلوۃ لالدرس اوذکر۲؎۔
اہل محلہ دو مساجد کو ایک یا اس کا عکس کرسکتے ہیں مگر نماز کے لئے ، درس یا ذکر کے لئے ایسا نہیں کرسکتے(ت)
( ۲؎ درمختار        آخر باب مایفسدالصلٰوۃ الخ            مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت        ۱/۹۴)
اشباہ میں ہے:
لاھل المحلۃ جعل المسجد الواحد مسجدین والاولی ان یکون لکل طائفۃ مؤذن۳؎۔
اہل محلہ ایک مسجد کو دو مساجد بناسکتے ہیں اور بہتر یہ ہے کہ ہر گروہ کے لئے الگ مؤذن ہو۔(ت)
( ۳؎ الاشباہ والنظائر    القول فی احکام المسجد   مطبوعہ  ادارۃ  القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲/۲۳۴/  ۶۳۵ )
اور ا گر یہ نیت نہ تھی مسجداﷲ کے لئے نہ بنائی بلکہ اس سے مقصود اگلی مسجد کو ضرر  پہنچانا اور اس کی جماعت کا متفرق کردینا تھا تو بیشک یہ مسجد نہ ہوئی ، نہ اس میں نماز کی اجازت بلکہ نہ اس کے قائم رکھنے کی اجازت، اور اس صورت میں یہ لوگ ضرور تفریق جماعت مومنین کے وبال میں مبتلاہوئے کہ حرام قطعی وگناہ عظیم ہے۔
قال اﷲتعالٰی والذین اتخذوامسجدا ضرارا وکفرا وتفریقا بین المؤمنین ۱؎ الایۃ
اﷲتعالٰی کا فرمان ہے : اور وہ لوگ جنھوں نے مسجدنقصان کا ذریعہ، کفر اور مسلمانوں کے درمیان تفریق پیداکرنے کا ذریعہ بنایا ۔(ت)
 ( ۱؎ القرآن        ۹/۱۰۷)
مگر نیت امر باطن ہے اور مسلمان پر بد گمانی حرام وکبیرہ، اور ہر گز مسلمان سے متوقع نہیں کہ اس نے ایسی فاسد ملعون نیت سے مسجد بنائی۔
قال اﷲ تعالٰی ولا تقف مالیس لک بہ علم ان السمع والبصر والفؤاد کل اولئِک کان عنہ مسئولا ۲؎۔
اﷲ تعالٰی کا فرمان ہے: نہ پیچھے لگ اس چیز کے جس کا تجھے علم نہیں کیونکہ سمع، بصر اور دل ہر ایک کے بارے میں سوال کیا جائے گا ۔(ت)
( ۲؎ القرآن        ۱۷/۳۶)
تو بے ثبوت کافی شرعی ہرگز اس برُی نیت کا گمان کرنا جائز نہیں بلکہ اسی پہلی نیت پر محمول کریں گے اور مسجد کو مسجد اور اس میں نماز کو جائز ثواب اور اس کی آبادی کو بھی ضرور سمجھیں گے۔
مسئلہ ۱۱۳۰:کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ مسجدصغیر و کبیر میں کیا فرق ہے ؟ بینواتوجروا
الجواب
اقول وباﷲ التوفیق وبہ الوصول الٰی ذری التحقیق
 ( اﷲتعالٰی کی توفیق سے اور اس کے ذریعے تحقیق تک وصول ہوتا ہے۔ت)
تحقیق یہ ہے کہ علمائے کرام ۱۱مسئلوں میں مسجد صغیر وکبیر میں فرماتے ہیں : ایک مسئلہ صحت اقتداواتصال صفوف کہ مسجد بقعہ واحدہ ہے اس میں امام ومقتدی کا فصل مائع صحت اقتدا نہیں اگر چہ امام محراب میں اورمقتدی یا صف قریب باب ہو مگر مسجد کبیر میں حکم مثل صحرا ہے کہ اگر امام وصف میں اتنا فاصلہ ہو جس میں دو صفیں ہوسکتیں تو اقتدا صحیح نہ ہوگی۔ دوسرے مسئلہ اثم مرورپیش مصلی کہ مسجد میں دیوار قبلہ تک جائز نہیں جب تک بیچ میں حائل نہ ہو ہاں مسجد کبیر مثل صحراہے کہ مصلی جب خاشعین کی سی نماز پڑھے کہ نگاہ موضع سجود پر جمائے رہے تو اسں حالت میں جہاں تک اس کی نظر پہنچے کہ نظر کا قاعدہ ہے جھاں جمائئ جاے اس سے کچھ آگے بڑھتی ہے  وہاں تک گزرنا ممنوع وناجائز ہے اس سے آگے روا، ان دونوں مسئلوں میں مسجد کبیر سے ایک ہی مراد ہے یعنی نہایت درجہ عظیم ووسیع مسجد جیسی جامع خوارزم کہ سولہ ہزار ستون پر تھی یا جامع قدس شریف کہ تین مسجدوں کا مجموعہ ہے ، باقی عام مساجد جس طرح عامہ بلاد میں ہوتی ہیں سب ان دونوں حکموں میں متحد ہیں اگر چہ طول وعرض میں سو سو گز ہوں،
امام وقع فی القھستانیۃ عندذکرالمسجد الصغیر، ھواقل من ستین ذراعا، وقیل من اربعین وھوالمختار، کمااشارالیہ فی الجواھر ۱؎ وفی الطحطاوی قولہ اوبمسجد کبیر ھو ماکان اربعین ذراعافاکثر والصغیر ماکان اقل من ذلک وھوالمختار قھستانی عن الجواھو ۲؎ وفی الشامیۃ۳ ؎ ۔ بمثلہ بالسند المذکور فرأیتنی کتبت علیہ فیما علقت علی ردالمحتار مانصہ
قہستانیہ میں مسجد صغیر کے تذکرہ میں جو ہے کہ وہ ساٹھ گز سے کم ہوتی ہے بعض کے نزدیک چالیس گز ، یہی مختارہے ۔ اسی کی طرف جواہر میں اشارہ ہے۔ طحطاوی میں ہے کہ اس کا قول '' یا مسجد کبیر جو چالیس گز یا اس سے زائد ہو اور صغیر وہ ہے جو اس سے چھوٹی ہو، یہی مختاہے''۔ قہستانی عن الجواہر اور شامیہ میں سند مذکور کے ساتھ اسی طرح ہے ، مجھے یاد پڑتا ہے کہ میں نے ردالمختار کے حاشیہ میں لکھا،
 ( ۱؎ جامع الرموز     فصل مایفسد الصلوٰۃ        مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ گنبد قامو س ایران    ۱/۲۰۱) 

(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختارباب مایفسدالصلوٰۃ        مطبوعہ دارالمعرفۃبیروت        ۱/۲۶۸) 

( ۳؎ ردالمحتار        باب یفسد الصلوة  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۱/۶۳۴)
اقول وباﷲ التوفیق یظھرلی ان ھذاخطاء بل الحاصل ھھنا فی الصغیر والکبیر ماتقدم فی الکتاب (اعنی ردالمحتار عن الامداد) فی مسئلۃ الفصل ا لمانع عن الاقتداء انہ لایمنع الافی مسجد کبیر جدا کمسجد القدس وذلک لانھم عللو کراھۃ المروربین یدیہ فی المسجد الصغیر الی جدارالقبلۃ بان المسجد بقعۃ واحۃ کما فی شرح الوقایۃ وفی شرحنا ھذاوقد ذکر محشینا فی تقریرہ مسألۃ الفصل لمانع فقال بخلاف المسجد الکبیر فانہ جعل فیہ مانعا الخ فانظر ای کبیر ذٰلک ماھو الاالکبیر جدا کمسجد القدس ، وما ذکر القھستانی عن الجواھر فانما کان فی الدار فی مسئلۃ الفصل لافی المسجد کما مرت عمارۃ الجواھر (حیث قال العلامۃ المحشی۱؎) فی القھستانی ف؎: البیت کا لصحراء والاصح انہ کالمسجد، ولھذا یجوزالاقتداء فیہ بلا اتصال الصفوف کما فی المنیۃ اھ ولم یذکر حکم الدارفلیراجع، لکن ظاھر التقیید بالصحراء والمسجد لکبیر جداان الدار کالبیت تامل ، ثم رأیت فی حاشیۃ المدنی عن جواھر الفتاوی ان قاضی خاں سئل عن ذلک ،فقال، اختلفوا فیہ، فقدرہ بعضھم بستین ذراعاوبعضھم قال ان کانت اربعین ذراعافھی کبیرۃ والا فصغیرۃ، ھذاھوالمختار اھ وحاصلہ ان الدار الکبیرۃ کالصحراء والصغیرۃ کالمسجد، وان المختار فی تقدیر الکبیرۃ اربعون ذراعا۲؎
اقول (میں کہتا ہو) اﷲکی توفیق سے مجھ پر یہ واضح ہوا کہ یہ خطاوغلط ہے بلکہ صغیر وکبیر مسجد میں حاصل وہی چیز ہے جو کتاب (یعنی ردالمختار میں امداد کے حوالے سے )اس فصل کے تحت گزرا جو'' اقتدا سے مانع کے بیان '' میں ہے اس مسجد میں مانع ہے جو بہت ہی بڑی ہو مثلاً مسجد قدس کیونکہ فقہاء نے مسجد صغیر میں قبلہ کی جانب نمازی کے آگے سے گزرنے سے منع  پر جو علت بیان کی ہے وہ یہ ہے کہ مسجد ایک ہی ٹکڑا کی طرح ہے جیسا کہ شرح الوقایہ اور ہماری اس شرح میں ہے اور ہمارے محشی نے فاصل مانع کو بیان کرتے ہوے کہا بخلاف مسجد کبیر کے، کیونکہ اس میں مانع بنایا گیا ہے الخ غور کرو بڑی کونسی مسجد ہے وہ وہی ہو گی جو بہت ہی بڑی ہو مثلاً

مسجد قدس جو کچھ قہستانی نے جواہر سے نقل کیا ہے وہ گھر میں مسئلہ فصل کے بارے میں ہے نہ کہ مسجد کے بارے میں ، جیسے کہ عبارت جواہر سے گزرا (کیونکہ اسکے الفاظ یہ ہیں کہ علامہ محشی نے قہستانی میں کہا کہ گھر کھلے میدان کی طرح ہے اور اصح یہ ہے کہ بیت، مسجد کی طرح ہوتا ہے اسی لئے اس میں بلا اتصال صفوف بھی اقتداجائز ہوتی ہے جیساکہ منیہ میں ہے اھ اور دار کا حکم بیان نہیں کیا ، چاہے کہ غور کیا جائے لیکن ظاہراًصحرا یا مسجد کبیر کو بہت بڑا قرار دینا اگاہ کررہا ہے کہ دار کا حکم گھروالا ہے تامل ، پھر میں نے حاشیہ مدنی میں جواہر الفتاوٰی سے دیکھا کہ قاضی خاں سے اس بارے میں پوچھا گیا تو انھوں نے فرمایا اس میں اختلاف ہے بعض نے ساٹھ گز کہا ہے بعض نے کہا کہ اگر چالیس گز ہوتو بڑی مسجد ورنہ چھوٹی، اور یہی مختار ہے اھ حاصل یہ ہے کہ بڑی دار صحرا کی طرح اور چھوٹی دار مسجد کی طرح ہے اگرچہ مختار بڑی مسجد کیلئے چالیس گز ہوناہی ہو۔

ف؎ : اعلٰیحضرت  نے یہا ں سے اقول تک شامی کی عبارت نقل کی ہے پھر اقول وبھذاتلتئم سے آخر تک اعلٰیحضرت کا اپنا حاشیہ ہے۔ نذیر احمد
 ( ۱؎ جدالممتار علی ردالمحتار    باب مایفسدالصلوٰۃ الخ    المجمع الاسلامی مبارکپور، انڈیا        ۱/ ۳۰۰ و ۳۰۱) 

(۲؎  ردالمختار        باب الا مامۃ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۵۸۵)
اقول وبھذا تلتئم کلماتھم وﷲالحمد ۔ فان منھم من قید ھذہ المسئلۃ با لمسجد الصغیر کمتنا ھذا و الغرر و النقا یۃ والکافی والبر جندی عن المنصوریۃ عن الامام قاضی خاں وظھیرالدین المرغینانی، ومنھم من اطلق کالخلاصۃ و جوامع الفقہ کما فی الفتح و المراد واحد فان الصغیر احتراز عن الکبیر  جدا، فعامۃ المساجد فی حکم الصغیر فساغ الاطلاق لمن اطلق بل اوضحہ جدا کلام العلامۃ الشلبی علی التبیین عن الداریۃ عن شیخ الاسلام ان ھذا اعتبار موضع السجود اذاکان فی الصحراء اوفی الجامع الذی لہ حکم الصحراء امافی المسجد فالحد ھوالمسجد اھ فانظر کیف اطلق المسجد واراد بہ مقابل ذلک الکبیر جدا، وایضا تلتئم کلمات الذخیرۃ فانہ ذکر فی الفصل الرابع من کتاب الصلوٰۃ فی مسئلہ المرور الاصح  ان بقاء المسجد فی ذلک کلہ علی السواء الخ ۔ واستشھد علیہ بکلام محمد المطلق فی المساجد ، غیرالمختص قطعاً بما دون اربعین ، ثم اعاد المسئلۃ فی الفصل التاسع فقال ان کان المسجد صغیرا  یکرہ  فی ای موضع  یمر و الی ھذا اشار محمد فی الاصل فذکر ذلک لکلام لمحمد بعینہ فعلم وﷲ الحمد ان المزاد بالمطلق والمقید واحد وھی المساجد کلھا سوی ما یمنع  فیہ الفصل بصفین الاقتداء ولاینا فیہ اطلاق من اطلق و قال انما یأثم بالمرور فی موضع  السجود کفخر الاسلام وصاحب الھدایۃ والوقایۃ وغیرھم وذلک لان المساجد کبقعۃ واحدۃ فالی جدارالقبلۃ کلہ موضع السجود کما قالہ فی شرح الوقایۃ بل اشارالیہ محمد فی الاصل کما فی الذخیرۃ فتحصل وﷲ الحمد ان لاخلاف بینھم وان الممنوع فی المسجدالمرور مطلقا الٰی جدار القبلۃ و فی الجامع الکبیر جدا والصحراء الی موضع نظرالمصلی الخاشع وبہ ظھر ان بحث المحقق فے الفتح  وقع مخالفاللمذھب لمااطبقوا علیہ فاغتنمہ فان ھذا التحریر من فیض القدیر فاغتنمہ فان ھذااتحریر من فیض القدیر علی العاجزالفقیر واﷲالحمد حمدا کثیرا طیبامبارکافیہ۱ ؎ اھ ماکتبت علیہ واﷲتعالٰی اعلم
اقول اس سے فقہاء کی تمام عبارات میں تطبیق ہوگئی وﷲالحمد، کیونکہ بعض نے اس مسئلہ کو مسجدصغیر کے ساتھ مقید کیا ہے جیسے کہ ہمارے اس متن وغرر ،نقایہ ،بحر، کافی، اور برجندی میں منصوریہ سے قاضی خاں اور ظہیر الدین مرغینانی کے حوالے سے کہا اور بعض نے اس کو مطلق رکھا مثلاً خلاصہ اور جامع الفقہ، جیسا کہ فتح میں ہے اور مراد ایک ہی ہے کیونکہ صغیر ایسی کبیر سے احتراز ہے جو بہت ہی بڑی ہو تو  اکثر مساجد صغیر کا حکم رکھتی ہیں تو جس نے مطلق رکھا اس کا اطلاق جائز ہوگیا بلکہ علامہ الشلبی نے تبیین پردرایہ سے شیخ الاسلام کے حوالے سے خوب واضح کیا ہے کہ موضع سجدہ کا اعتبار تب ہوتا ہے جب صحرا ہو یا ایسی جامع مسجد ہو جو حکم صحرا رکھتی ہو  رہا دیگر مسجد کا معاملہ تو وہاں یہ حدِ مسجدہی ہے اھ آپ غور کریں انھوں نے مسجد کو مطلق رکھا اور اس سے مراد ایسی مسجد لی جو بہت ہی بڑی کے مقابل ہو، اور کلماتِ ذخیرہ بھی جمع ہوگئے کیونکہ انھوں نے کتا ب الصلوٰۃ کی فصل رابع میں نمازی کے آگے سے گزرنے کا مسئلہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ اصح یہ ہے کہ مسجد کے تمام مقامات اس میں برابر ہیں الخ اور اس پرا ستشہاد امام محمد کے کلام سے کیا جو مساجد کے معاملہ میں مطلق ہے اور چالیس گز سے کم مسجد کے ساتھ ہر گز مخصوص نہیں، پھر نویں فصل میں دہرایا اورکہا اگر مسجد چھوٹی ہو تو ہر جگہ سے گزرنا مکروہ ہے اور اسی کی طرف امام محمد نے اصل میں اشارہ فرمایا اور امام محمد کی عبارت بعینہٖ نقل کی ،ﷲالحمد اس سے واضح ہوگیا کہ یہاں مطلق اور مقید دونوں سے مراد ایک ہی ہے اور تمام مساجد کا معاملہ مساوی ہے سوا ان کے جن میں دوصفوں کا فاصلہ اقتداء کے لئے مانع ہے اور مطلق کہنے والے کا اطلاق جس نے یوں کہا ہے کہ نمازی کے آگے سے جائے سجدہ پر گزرنے والا گنہگار ہوگا ، اس کا یہ اطلاق فخرالاسلام ، صاحب ِہدایہ اور وقاریہ وغیرہ کے منافی نہیں ہے ، یہ اس لئے کہ مساجد ایک ٹکڑا کی مانند ہوتی ہیں پس وہ قبلہ کی دیوار تک تمام کی تمام موضع سجدہ کا حکم رکھتی ہیں جیسا کہ شرح وقایہ میں ہے بلکہ اس کی طرف امام محمد نے اصل میں اشارہ فرمایا جیسا کہ ذخیرہ میں ہے ﷲالحمد واضح ہوگیا کہ ان کے درمیان اختلاف نہیں اور گزرنا مسجد میں دیوار قبلہ تک مطلقاً ممنوع ہے، اور بہت  بڑی جامع مسجد ہو  یا صحرا ہو تو پھر خشوع کے ساتھ نماز پڑھنے والے نمازی کی نظر کے پھیلاؤ تک آگے سے گزرنا ممنوع ہے ، اسی سے یہ بھی واضح ہوگیاکہ فتح میں محقق کی بحث مذہب متعلق علیہ کے خلاف ہے ۔ اس تقریر کو غنیمت جان لو کیونکہ اس عاجز فقیر پر رب قدیر کاعطیہ ہے ،اﷲ ہی کے لئے حمد کثیر مبارک اور طیب ہے، وہ ختم ہوا جو میں نے وہاں لکھا تھا ۔ واﷲتعالٰی اعلم(ت)
( ۱؎ جدالمحتارعلٰی ردالمحتار    باب یفسدالصلوٰۃ الخ        المجمع الاسلامی بیروت    ۱/۰۲۔۳۰۱)
Flag Counter