Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
6 - 144
مسئلہ ۱۱۲۴ : از شہر  رانچی قصاب محلہ مرسلہ شیخ  ولی محمد سوداگر چرسہ ۴ جمادی الاولٰی ۱۳۳۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ غیر مقلد وہابی جو تقلید کو بدعت کہے ، ائمہ مجتہدین پر طعن کرے، ختم نبوت اور کرامات اولیا کا قائل نہ ہو ۔ جناب ولی الاولیاء غوث الاعظم پر طعن کرے، انعقاد مجلس میلاد اور  یارسول اﷲ کہنے کو بدعت کہے، آمین بالجہر  و رفع الیدین کرے وغیرہ وغیرہ، ایسے شخص کی اقتداء اور اس کی موانست و مکالمت صوم وصلوٰۃ جائز ہے یا نہیں؟ ایسے عقیدہ والو ں کو واسطے دفع فتنہ وفساد کے جو موجب اس کا خلاف عقیدت باہمی سے مسجد میں نہ آنے دینا جائز  ہے  یا نہیں؟ بحسبِ فرمانِ شرع شریف بحوالہ کتب ارشاد ہو۔
الجواب
ایسا شخص کا فر و مر تد ہے ، اس کے مرتد ہونے کے لئے صرف انکار خا تمیت ہی کافی ہے۔
قال اﷲتعالٰی ولکن رسول اﷲ وخاتم النبیین۳؎
(اﷲتعالٰی کا ارشاد گرامی ہے : اور لیکن اﷲکے رسول اور نبیوں کے خاتم ہیں ۔ت)
 (۳؎ القرآن                                ۳۳/۴۰)
تتمۃ الفتاوٰی اور الاشباہ والنظائرمیں ہے:
ان لم یعرف ان محمداصلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم اٰخرالانبیاء فلیس بمسلم لانہ من الضروریات۔۴؎
اگر کوئی شخص یہ عقیدہ نہیں رکھتا کہ حضرت محمد صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم آخری نبی ہیں تو وہ مسلمان ہی نہیں کیونکہ یہ ضروریاتِ دین میں سے ہے۔(ت)
 (۴؎ الاشباہ والنظائر    کتاب السیروالردۃ    مطبوعہ ادارۃالقرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی     ۱/۲۹۶)
تقلید کو  بدعت کہنا، ائمہ مجتہدین  پر طعن کرنا اور  بے تقلید امام شافعی رحمۃاﷲتعالٰی علیہ رفع  یدین اور جہر سے آمین کہنا خباثات وعلاماتِ غیر مقلدی ہیں ، اور کراماتِ اولیاء سے انکار اور حضور سیّد الاولیا پر طعن گمراہی و بد نصیبی ، اور مجلس میلاد پاک اور یارسول اﷲکہنے کو بدعت کہنا شعاروہابیت ہے اور وہابی لوگ وغیر مقلدین زمانہ پر حکم کفر ہے جس کی تفصیل الکوکبۃ الشھابیۃ اور سل السیوف الھندیۃ اور حسام الحرمین سے روشن۔ شخص مذکور کے  پیچھے نماز باطل محض ہے، اور اس سے مجالست وموانست حرام ۔
قال اﷲتعالٰی واماینسینک الشیطٰن فلا تقعد بعدالذکرٰی مع القوم الظا لمین ۱؎ ۔
اﷲتعالٰی کا فرمان ہے : اور جو کہیں تجھے شیطان بھلادے تو  یاد آنے  پر ظالموں کے پاس نہ بیٹھ۔(ت)
 (۱؎ القرآن                    ۶/۶۸)
وقال اﷲ تعالٰی ولا ترکنوا الی الذین ظلموا فتمسکم النار۲؎ ۔
اﷲتعالٰی نے فرمایا: اور ظالموں کی طرف نہ جھکو کہ تمھیں آگ چھوئے گی۔ (ت)
 (۲؎القرآن                    ۱۱/۱۱۳)
دفع فتنہ وفساد بقدرِ قدرت فرض ہے، اور مفسدوں موذیوں کو بشرطِ استطاعت مسجد سے روکا جائے گا۔
عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری شریف میں ہے پھر درمختار میں ہے :
ویمنع منہ کل موذ و لو بلسانہ۳؎۔
(اور ہرایذادینے والے کو مسجد سے روکا جائے گا اگر چہ اس کی اذیت زبان سے ہو۔ت) واﷲتعالٰی اعلم۔
)۳؎درمختار     آخرباب مایفسدالصلوٰۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۹۴(
مسئلہ۱۱۲۵: از دیرم گام ضلع احمد آباد گجرات جامع مسجد مرسلہ سیّد غلام محی الدین صاحب ۱۳رجب ۱۳۲۷ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ دیرمگام گجرات میں جو عیدگاہ ہے اُس پر چند لوگ جن کا چار پانچ نفر سے زیادہ عدد نہیں خود بخود بلا اجازت بانیِ مسجد وبلا اجازت مسلمانان شہر ایسے قابض و متصرف ہو گئے ہیں کہ گویا وہ مالک ہی ہیں، چنانچہ علی الاعلان اس امر کا اظہار کرتے رہتے ہیں کہ اس مسجد میں سوائے ہمارے دوسرے کا حق نہیں جس کو ہم چاہیں گے امام بنائیں گے، اور امام جو بناتے ہیں توایسا کہ جس کے پیچھے نماز پڑھنے میں تمام مسلمانانِ شہر اور اہل علم حضرات کراہت کرتے ہیں اور یہ کراہت شرعی ہوئی نہ مخالفت ذاتی پر قابضین کی قلیل جماعت کے عقائد کی یہ کیفیت ہے کہ نکاحِ ثانی کو حرام قطعی سمجھتے ہیں ، اور مسجد پرتصرفات میں سے یہ بھی ہے کہ اہل شہر کے ساتھ نماز  پڑھنے میں مزاحمت کرتے ہیں، آیا اہل شہر کو اس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے یا نہیں؟

اور  دوسری عیدگاہ قرار دیکراہل شہر نماز پڑھ سکتے ہیں یا نہیں ؟
الجواب
اہل شھر کواُس مسجد میں نماز پڑھنا جائز ہے، اور اُن لوگوں کو مزاحمت کا کوئی حق نہیں ، اگر وُہ مانع آئیں گے سخت ظالم ہوں گے۔
قال اﷲتعالٰی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکرفیھا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۱ ؎۔
اﷲتعالٰی نے فرمایا: اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوسکتا ہے جو اﷲکی مساجد میں اﷲ کے نام کے ذکر سے روکے اور ان کی ویرانی کی کوشش کرے۔(ت)
)۱؎ القرآن        ۲/۱۱۴ (
اور  ایسا امام کہ وہ مقرر کریں معتبر نہ ہوگا ، امام  وہی مانا جائے گا جسے عام مسلمانان شہر حسبِ شرائط شرعیہ مقرر کریں گے ، اس کے سوا وہ امام جسے وہ پانچ چھ برخلافِ شہر مقرر کریں نماز عید باطل محض ہوگی ، اہل شہر اگر کسی وجہ سے اس عیدگاہ میں نماز  نہ پڑھ سکیں دوسری جگہ پڑھیں اگر چہ کسی میدان میں کہ عیدگاہ میں، عمارت کی حاجت نہیں ، اور اگر دوسری عیدگاہ ہی تعمیر کرنی مناسب ہو  تو انھیں اس کا بھی اختیار ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ۱۱۲۶: ازمرادآباد مرسلہ مولوی عبدالباری ۷صفر ۱۳۳۸ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اگر امام بعد فراغت نماز جمعہ کے مقتدیوں کو اپنے پیچھے قطعی نماز نہ پڑھنے دے اور خود اذکار وغیرہ سے مشغول رہے اور مصلّی سے لے کر مسجد کے دروازے تک سیدھ میں کوئی نمازی نماز نہ پڑھنے پائے بلکہ اگر کسی نے نیّت بھی باندھ لی تو وہ نیت جبراً تڑوادے اس لئے کہ اس کے نکلنے میں حرج ہوگا کیونکہ اس کی عادت ہے بعد فراغت جمعہ بہت دیر کے بعد وہ اپنے حجرہ میں جاتاہے، تو اتنی دیر تک کوئی مصلی اس کے محاذاور عقب میں نماز نہ پڑھے، اگر کسی ناواقف نے ایسا کر بھی لیا تو اس پر نہایت تشدد کرتاہے، یہ کہا ں تک روا ہے؟
الجواب
اﷲ عزّوجل فرماتاہے: وان المسٰجدﷲ۲؎۔
مسجدیں خالص اﷲ کےلئے ہیں،
) ۲؎ القرآن        ۷۲/۱۸(
اُن میں کسی کا ذاتی دعوٰی نہیں پہنچتا۔ اور فرماتاہے: ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیھا اسمہ۳؎۔اس سے بڑھ کر ظالم کو ن جو اﷲ کی مسجدوں کو اُن میں نامِ الہٰی لیئے جانے سے روکے، یہ سب ظلمِ شدید ہے اور بندھی ہوئی
)۳ ؎القرآن        ۲/۱۱۴(
نیت تُڑوا دینا اشد ظلم،
ولاتبطلوااعمالکم۱؎۔
 ( اور اپنے اعمال باطل نہ کرو۔ ت) واﷲتعالٰی اعلم
 ( ۱؎ القرآن                        ۴۷/۳۳)
مسئلہ۱۱۲۷: از شہر کہنہ محلہ بخار پورہ مسئولہ عبدالرحمان بیگ صاحب ۵صفر ۱۳۳۹ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک مسجد جو قدیمی تعمیر کردہ اہلسنت وجماعت کی ہے اور زمانہ  قدیم سے آج تک مسجد مذکورہ پر قبضہ بھی اہلسنت والجماعت کا ، ایسی مسجد میں شیعہ وسُنّی ہر دو فریق کا باہم نماز پڑھنا اور اذان واقامت بھی ہر دو فریق کی ہونا جائز ہے یا نہیں؟ بینوا توجروا۔
الجواب
اہل سنّت کی مسجد میں روافض کا کوئی حق نہیں ، اہل سنت کی معتمد کتابوں خلاصہ وفتح القدیر و علمگیری و تنویرالابصار و درمختار میں تصریح ہے کہ روافض کافر ہیں اور کافر کا مسجد میں کوئی حق نہیں ۔ 

عبارت یہ ہے:
الرافضی اذاکان یسب الشیخین ویلعنھما والعیاذباﷲتعالٰی، فھوکافر۲؎۔ واﷲتعالٰی اعلم
رافحی جب شیخین کریمین کو گالی دے یا ان پر لعنت کرے (والعیاذباﷲتعالٰی) تو وہ کافر ہوگا (ت)واﷲتعالٰی اعلم
 (  ۲ ، خلاصہ الفتوی        کتاب الفاظ الکفر           مطبوعہ   حبیبیہ   کوئٹہ                                ۴ /  ۳۸۱  )
مسئلہ ۱۱۲۸: از ملک بنگالہ قصبہ گوری پور ضلع میمن سنگھ مرسلہ میاں عبدالجلیل ۱۸ذی القعدہ۱۳۱۱ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص بڑا فتان ومفسد ہے، جماعت المسلمین بوجہ اس کے افتراق ہوگیا ہے، لوگ دُوسری مسجد میں نماز پڑھتے ہیں اور  وہ مفسد امام اس قوم باغین کا ہے اور یہ بغاوت دینی نہیں بلکہ محض نفسانیت ہے اس صورت میں اس  مسجد کھنہ کو مسجد  ضرار کہہ سکتے ہیں یا نہیں؟ بینواتوجروا۔
الجواب
مسجد کُہنہ اُن کے جانے اور نماز پڑھنے پڑھانے سے مسجدِ ضرار نہیں ہوسکتی ضرار وہ مسجد ہے جو ابتداء  افسادفی الدین وتفریق بین المومنین کے لئے بنائی گئی ہو۔
قال تعالٰی''والذین اتخذوامسجد اضرارا وکفرا واتفریقا بین المومنین'' الی قولہ تعالی ''ام من اسس بنیانہ علی شفا جرف ھار۱؎۔ الایۃ
اﷲ تعالٰی نے فرمایا: ''وہ لوگ جنھوں نے مسجد بنائی نقصان پہنچانے کو ، اور کفر کے سبب ، اور مسلمانوں مین تفرقہ ڈالنے کو'' (اﷲتعالٰی کے اس قول تک)''یا وہ جس نے اپنی نیوچُنی ایک گراؤ گڑھے کے کنارے '' الآیۃ (ت)
 ( ۱؎ القرآن        ۹/۱۰۷ و ۱۰۸ و ۱۰۹ )
تعمیر شدہ مسجد میں مفسدین کا جانا خواہ ان کا قبضہ وتسلط ہو جانا اُسے مسجد ضرار نہیں کرسکتا، جیسے واقعہ حرہ میں لشکریان یزید یا حادثہ نجد میں مبتعان نجدی بلید کا مساجد طیبہ حرمین محترمین میں مفسدانہ دخل، والعیاذباﷲ تعالٰی واﷲتعالٰی اعلم
Flag Counter