Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
5 - 144
مسئلہ۱۱۱۷:  از بری سال 	مرسلہ جان محمود  	ساکن چاند
کیا فرماتے ہیں علمائے دین مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ میں ایک مسجد مدت سے قائم ہے اور وہ خود متولی ہے اور جمعہ کی نماز بھی ہمیشہ پڑھی جاتی ہے ابھی متولی مسجد نے ایک شخص کو کسی وجہ سے منع کیا کہ وہ اس مسجد میں نہ آئے جب اُس کو منع کیا تو وہ شخص اور چند مصلی مجتمع ہو کر دوسری جگہ پر ایک مسجد نئی بناکر لی اس قدر فاصلہ پر ہے کہ اگر بلند آواز سے اذان کہے تو احتمال سنائی کی ہے، اس صورت میں دونو ں مسجدوں میں جمعہ کی نماز جائزہے یا ایک میں ، اگر ایک میں ہے تو اوّل یا ثانی ، اگر صورت، مذکورہ میں منع کرنا کسی مصلی کو شرعاً کوئی وجہ سے جائز ہے یا نہیں ؟ بینوابحوالۃ الکتاب توجروا یوم الحساب۔
الجواب
جو شخص موذی ہو کہ نمازیوں کو تکلیف دیتاہے برابھلا کہتا ہے شریر ہے اُس سے اندیشہ رہتاہے ایسے شخص کو مسجد میں آنے سے منع کرنا جائز ہے، اور اگر بد مذہب گمراہ مثلاًوہابی یا رافضی یا غیر مقلد یا نیچری یا تفضیلی وغیرہا ہے اور مسجد میں آکر نمازیوں کو بہکاتا ہے اپنے مذہب ناپاک کی طرف بلاتا ہے تو اسے منع کرنا اور مسجد میں نہ آنے دینا ضرور  واجب ہے۔
فقد نص فی العینی ثم المختار وغیرھما من معتمدات الاسفار،باخراج کل موذ و لوبلسانہ۔۱؎
علامہ عینی نے تصریح کی ہے پھر درمختار وغیرہ معتمد کتب میں ہے کہ ہر ایذادینے والے کو مسجد سے نکال دیا جائے خواہ اس کی اذیّت زبان سے ہو ۔(ت)
)۱؎ دُرمختار     آخر باب ما یفسد الصلوٰۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی            ۱ /۹۴(
یوُنہی جس کے بدن میں بدبو ہو کہ اس سے نمازیوں کو ایذا ہو مثلاًمعاذاﷲ گندا دہن یا گندا بغل یا جس نے خارش وغیرہ کے باعث گندھک ملی ہو اسے بھی مسجد میں نہ آنے دیا جائے لقولہ صلی اﷲتعالٰی علیہ وسلم فلا یقربن مصلانا۲؎ (رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ وہ ہرگز ہماری نماز گاہ کے قریب نہ آئے ۔(ت)

اور بلاوجہ شرعی اپنی کسی رنجش دنیوی کے باعث مسجد سے کسی مسلمان کو  روکنا سخت گناہ ہے۔
)۲ ؎ مجمع الزوائد     کتاب الصلوٰۃ باب فیمن اکل ثوماالخ    مطبوعہ دارالکتاب بیروت            ۲ / ۱۷(
لقولہ تعالی ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲ ان یذکر فیھا اسمہ و سعٰ فی خرابھا۳؎
اﷲتعالٰی کا فرمان ہے :اور کون اس سے بڑھ کر ظالم ہو سکتاہے جو اﷲکے نام کے ذکر سے روکے اور ان کی بربادی میں کوشاں ہو۔(ت)
)۳؎ القرآن   ۲ /۱۱۴ (
اور مسجد جبکہ بہ نیت خالصہ بنا  ئی جائے تو پہلی مسجدکے کسی قدر  قریب ہو کچھ حرج نہیں۔
لما فی الاشباہ والدر ان لاھل المحلۃ جعلوا المسجد الواحد مسجدین ۴؎
اشباہ اور در میں ہے کہ اہل محلہ کے لئے جائز ہے کہ ایک مسجد کو وہ دو مساجد بنالیں۔(ت)
)۴؎الاشباہ والنظائر    القول فی احکام المسجد     مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی    ۲ /۲۳۴،  ۲۳۵)

درمختار         قبیل باب الوتر و النوافل    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی            ۱/ ۹۴ (
مگر جمعہ قائم کرنے کے لئے ضرور  ہے کہ امامِ جمعہ وہ ہو جسے بادشاہِ اسلام نے امامِ  جمعہ مقررکیا یا وہ جسے اس نے اپنا نائب کیا اور یہ نہ ہو تو  وہ جسے اہل اسلام جمع ہو کر امامِ جمعہ مقرر ومعین کریں، ہر شخص جمعہ و عیدین کی امامت نہیں کرسکتا 

کما نصوا علیہ معتمدات المذھب(جیساکہ اس پر معتمدات مذہب نے تصریح کی ہے ۔ت)

اس طرح کا امام اگر اس دوسری مسجد کو میسر ہوگا تو  اس میں بھی جمعہ جائز ہوگا ورنہ نہیں ۔ واﷲ سبحٰنہ وتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۱۱۸تا۱۱۲۱: از شہر پوربندر ملک کا ٹھیا واڑ محلہ ڈیڈ روڈ مسئولہ کھتری عمر ابوبکر صاحب ۲۰ جمادی الاولٰی۱۳۳۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل ذیل میں :

(۱) صحن مسجد داخل مسجد ہے یا خارج مسجد ہے؟

(۲) اذان ثانی جمعہ جو صحن مسجد میں پڑھی جائے تو داخل مسجد قرار پائے گی یانہ؟

(۳) کوئی شخص باوجود داخل مسجد ہونے کے صحن مسجد میں نماز پڑھے تو اُس کو مسجدکا پورا ثواب ملے گا یا کم؟

(۴) جنازہ مسجد میں یاصحن مسجد میں پڑھنا جائز ہے یانہیں؟
     الجواب
  صحنِ مسجد جزوِ مسجد ہے کما نص علیہ فی الحلیۃ(جیسا کہ حلیہ میں اس پر تصریح ہے ۔ت) اُس میں نماز مسجد ہی میں نماز  ہے، پٹے ہوئے درجے کو مسجد شتوی کہتے ہیں یعنی موسم سرماکی مسجد اور صحن کو مسجد صیفی یعنی موسم گرما کی مسجد ۔ اذان مسجد میں منع ہے ، نہ دالان میں اجازت ہے نہ صحن میں ۔ مسجد میں جنازے کے لئے اجازت نہیں ھوالصحیح (یہی صحیح ہے ۔ت) صحن کسی حکم میں مسجد سے جدا نہیں۔ واﷲتعالٰی اعلم۔
مسئلہ۱۱۲۲: از  پیلی بھیت محلہ بھُورے خاں مرسلہ حا جی عزیز احمد صاحب ۷صفر۱۳۳۲ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ فصیل حوض خارج مسجد ہے ۔بینواتوجروا۔
الجواب
حوض قدیم کی فصیل فنائے مسجد ہے ،نہ عین مسجد ، ورنہ اس پر  وضو ناجائز ہوتا، اور فنائے مسجد میں اذان جائز ہے۔ واﷲتعالٰی اعلم
مسئلہ  ۱۱۲۳ :  از ترپول سولول ڈاک خانہ ہرول ضلع دربھنگہ بلگرام چرسہ مرسلہ عبدالحکیم صاحب ۲۱جمادی الاولٰی ۱۳۳۶ھ
ایک جگہ بستی میں بستی کے سارے مسلمان مل کرکے مسجد بنوایا لیکن زمین دوسرے آدمی کے نام سے، جس کے نام سے زمین ہے وہ دعوٰی کرتاہے کہ وہ مسجد ہماری ہے ہم جس کو حکم دیں گے وہ نماز پڑھے گا اور ہم جس کو حکم دیں گے وہ امامت کرےگا۔ وہ جسے روک دیتاہے اس مسجد میں اس کی نماز جائز ہوگی یانہیں ؟ اور اُس مسجد کو کیا کہا جائے گا؟
الجواب
اﷲ عزوجل فرماتاہے : ان المسٰجدﷲ۱؎
مساجد خاص اﷲ کی ہیں۔ ان میں کسی کا کوئی دعوٰی نہ زمین والے کو نہ عملے والوں کا ، اور بلا وجہ شرعی کسی سنی مسلمان کو مسجد سے منع کرنا حرام ہے ۔
)۱؎ القرآن      ۷۲ / ۱۸ (
اﷲ عزوجل فرماتا ہے ، ومن اظلم ممن منع مسٰجد اﷲان یذکر فیھا اسمہ وسعٰی فی خرابھا۔۲؎
اُس سے بڑھ کر ظالم کون جو اﷲ کی مسجد کو روکے اُن میں اﷲکا نام لیاجانے سے اور ان کی ویرانی میں کوشش کرے۔

مگر اُس کے منع کرنے سے نہ مسجد میں کوئی نقصان آئے گا نہ وہ جسے منع کیا اُسے مسجد میں نماز پڑھنا منع ہوجائےگا واﷲتعالٰی اعلم۔
)۲؎ القرآن                                ۲/۱۱۴(
Flag Counter