مسئلہ ۱۲۵۶: خلیل پور تحصیل گنور اسٹیشن ببرالہ لشکر سید محمد حسن صاحب ڈپٹی کلکٹر مرسلہ عظیم اﷲ خاں صاحب ۱۴ جمادی الآخرہ ۱۳۱۳ھ
بندہ نے بتقریب ملازمت انگریزی دورہ شروع کیاہے دو ماہ دورہ ہوگا، اور اصلی مقام سے ۳۴ کو س کے فاصلہ تک جانے کا ارادہ ہے ليكن اب تک ۳۰ کوس سے کم فاصلہ پر رہا اورہمیشہ درمیان میں مقام اصلی کی واپسی کا ارادہ رہا اور واپس ہوتا رہا، اب اصلی مقام سے چل کر ریل کی سواری میں ۳۰ کوس سے زیادہ پہنچنے کا ارادہ ہے اور دورہ کے طورپر کہیں دو روز کہیں چار روز ٹھہرنا ہوگا ایسی حالت میں باعتبار مسافت سفر نماز میں قصر کرنا چاہئے یا اہل خبا کی طرح پوری نماز پڑھنا چاہئے، جناب دورہ وغیرہ کے حال سے واقف ہیں اگر سوال میں کچھ اجمال اطلاق رہا ہو تو اس کو جواب میں رفع فرمادیں اور مفصل عام فہم جواب بواپسی ڈاک ارشاد ہو منزل دس ۱۰کوس کی شمار ہوتی ہے یا نہیں بارہ ۱۲ کوس کی اب تک جو پوری نماز پڑھی یہ صحیح کیا ياغلط؟ والسلام خیر ختام
الجواب
دورہ غالباً جس طور پر ہوتا ہے کہ آٹھ آٹھ دس دس کوس نیت سے چلتے اور ایک جگہ پہنچ کر پھر دوسرے کو روانہ ہوتے ہیں یہ حالت سفر نہیں اگر چہ اس میں سوکوس کا فاصلہ ہوجاتے ، یونہی اگر اُس موضع بعید سے واپسی بھی اسی طریق دورہ ہو کہ یکے بعد دیگرے قریب قریب مقامات کے قصدسے چلتے ہوئے محل اقامت کے نزدیک آکر پلٹ آئیں تو اس رجوع میں بھی قصر نہیں، ہاں اگر جانے خواه آنے کیسی محل اقامت بالخصوص ایسی جگہ کے عزم پر چلیں جو وہاں سے مدّت سفر پر ہو تو سفر متحقق اور قصر واجب ہوگا اسی طرح اگر دورہ کسی ایسے مقام پر ختم ہوا جہاں سے محلِ اقامت تین منزل ہے اب بخطِ مستقیم وہاں کو پلٹے تو بھی وہاں سے یہاں تک حلات سفر ہے ، فتح القدیر میں ہے:
الخلیفۃ ان کان انما قصدالطواف فی ولایتہ فالاظھرانہ حینئذ غیر مسافر حتی لایقصر الصلوۃ فی طوافہ کالسائح ۱؎ اھ ملخصا ذکرہ فی باب الجمعۃ مسئلۃ تمصر منی فی الموسم ۔
حاکمِ وقت اپنی مملکت میں دورہ کرنے کی نیت سے سفر کرے تو وہ مسافر نہ ہوگا حتٰی کہ وہ سیاحت کرنے والے کی طرح نماز میں قصر نہیں کرسکتا اھ ملخصا، اسے صاحبِ فتح القدیر نے باب الجمعہ مسئلہ ''منٰی موسم حج میں شہربن جاتا ہے'' کے تحت ذکر کیا ہے( ت)
(۱؎ فتح القدیر باب صلوۃ الجمعہ مطبوعہ نوریہ رضویہ سکھرسندھ ۲/ ۲۶)
اختیار شرح مختار وخزانۃ المفتین میں ہے :
الخلیفۃ اذا سافر یقصر الصلٰوۃ الا اذا طاف فی ولایتہ ۲؎۔
حاکم جب سفر کرے تو وہ قصر کرے گا مگر اس صورت میں جب و ہ اپنی مملکت دورہ میں کررہا ہو تو پھر قصر نہیں کرسکتا (ت)
(۲؎ خزانۃ المفتین )
فتاوٰی بزازیہ میں ہے : خرج الامیر مع الجیش الطلب العد ولایقصر وان طال سیرہ وکذا اذا خرج لقصد مصردون مدۃ سفر ثم منہ الٰی اٰخ کذلک لعدم نیۃ السفر۳؎۔
امیر لشکر کے ساتھ دشمن کی طلب کے لئے نکلا تو قصر نہ کرے اگر چہ اس کا سفر کتنا ہی طویل ہو اور اس طرح اس صورت میں بھی قصر نہیں، جب وہ مدت سفر سے شہر کے ارادے سے نکلاپھر وہاں سے درسے ایسے شہر کی طرف چلا جو مدت سفر سے کم مسافت تھا کیونکہ اس میں نیت سفر نہ تھی۔(ت)
(۳؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوٰی الہندیہ الثانی والعشرون فی السفر مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۷۲)
اسی میں ہے :
وفی الرجوع لومن مدۃ سفر قصروا ۴؎۔
اور رجو ع کی صورت میں اگر مدت سفر ہے تو نما ز میں قصر کرلیں (ت)
( ۴؎ فتاوٰی بزازیہ علی ہامش الفتاوٰی الہندیہ الثانی والعشرون فی السفر مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۴ /۷۲)
اقول وباﷲ التوفیق ( میں اﷲ تعالٰی کی مدد سے کہتا ہوں ۔ت) تحقیق مقام یہ ہے کہ تحقیق سفر شرعی کے لئے نہ مجرد سیر بے قصد کا فی نہ تنہا قصد بے سیر بلکہ دونوں کا اجتماع ضرور
کما تفیدہ الا سفارقا طبۃ وبینہ فی خزانۃ المفیتن وغیرھا
( جیسا کہ اس پر عبارات کتب شاہد ہیں اور اسے خزانۃ المفتین وغیرہ میں بیان کیا ہے۔ت) اور قصدسے مراد فی الحال مستبع فعل مقارن سیر ہے جسے عزم کہتے ہیں
کما یدل علیہ تعبیرھم جیمعا بلفظۃ الحال فی حد المسافر بمن جاوز عمران موطنہ قاصدا مسیرۃ ثلاثۃ ایام۔
جیسے کہ تمام فقہاء کا لفظ حال سے تعبیر کرنا اس پر دال ہے لہذا مسافر کی تعریف یوں کی گئی ہے ہر وہ شخص جو تین دن کے سفر کے ارادے سے اپنی آبادی سے نکل جائے (ت)
نہ قصدفی الاستقبال کہ بالاجماع کافی نہیں
کمن خرج قاصدا قریۃ قریبۃ ومن نیتہ ان ینشئی بعدھا سفرا الی بعید فانہ لایکون فی مسیرہ الیھا مسافر اقطعا۔
مثلاً وہ شخص جو کسی قریبی قریہ کے ارادے سے نکلا اور اس کی نیت یہ تھی کہ اس قریہ کے بعد وہ کسی بعید شہر کا سفر کرے گا تو اب وہ اس نکلنے میں قطعاً مسافر نہ ہوگا۔ (ت)
اور نیت اپنی غایت مقصودہ بالذات پر پہنچ کرمنتہی ہوجاتی ہے کہ غایت ماھی غایۃ لہ( غایت جس کے لئے غایت بن رہی ہے ۔ت) سے متاخر فی الوجود ہے اور حرکت کے لئے بعد وجود بقا نہیں، تو اس کے بعد اگر دوسرے مقصود کی طرف نہضت ہو تو وہ سیر آخر وقصد آخر ہے اور قبل وصول منتہی نہیں ہوتی اگر چہ سکون ونزول متخلل ہو ، ولہذا اگر کسی منزل میں کوئی شخص ملے نازل کہے گا میں فلاں جگہ جاتا تھا کہ وہ ملایا جاتے ہیں اس سے ملاقات ہوئی یا جاتے ہوئے راہ میں مل گیا تو وہ نہایات مختلفہ کا قصہ مقارن اول توجہ جزئی مہتعدد بمبدء معین ومنتہائے معین میں کہ ان کا تعین ا سکے تشخص کو لازم ہے ہر گز نہ ہوگا بلکہ صرف غایت اولٰی ہی کا قصد فی الحال اور ثانیہ کا ہو تو فی المال و الاستقبال اگر چہ باعث علی الخروج لحاظ امرین ہو اس سیر خاص میں کسی طرف توجہ اور چیز اور دل میں کہیں جانے کا خیال اور چیز، ثانی قصد مستقبل کو بھی شامل جسے یوں تعبیر کریں گے وہاں بھی جاؤں گا یا یہاں ہوکر وہاں جانا ہے اور اول خاص اسی کےلئے ہے جو اس سیر جزئی مخصوص کا منتہی ہے جس کے حصول پر یہ منتہی ہوجائے گی اس پر دلیل واضح مسئلہ آفاقی ہے جو بقصد حاضری مکہ معظمہ چلابے احرام باندھے، میقات سے تجاوزاسے حرام ہے، اگر حلت چاہے تو علماء فرماتے ہیں حیلہ یہ ہے کہ بین الحرم والمیقات کسی مقام مثلاً جدہ وغیرہ کا قصدکرے کہ وہاں پہنچ کر اس کے اہل سے ملتحق ہوجائے گا اور اب مکہ معظمہ کو جانا داخل میقات سے ہوگا نہ کہ گھر سے ، اب اس میقات نسک کے لئے ہے،
تنویر الابصارو درمختار میں ہے :
دخل اٰفاقی البستان ای مکانا من الحل داخل ا لمیقات لحاجۃ قصدھا ونیۃ مدۃ الاقامۃ لیست بشرط علی المذھب لہ دخول مکۃ غیر محرم ووقتہ البستان ولاشیئی علیہ لانہ التحق باھلہ وھذہ حیلۃ لافاقی یرید دخول مکۃ بلااحرام ۱؎۔
اگر غیر ملکی کسی حاجت کی وجہ سے بستان( میقات کے اندر حل میں ایک جگہ ہے) میں قصداً داخل ہوا تو وہاں مذہب کے مطابق مدتِ اقامت کی بھی نیت شرط نہیں، اب اس کے لئے بغیر احرم مکہ کا داخلہ جائز ہے اور اس کا میقات وہ بستان ہے، اور اس پر کوئی شے لازم نہ ہوگی کیونکہ و ہ وہاں کے اہل کے ساتھ ملا ہے اور یہ اس غیر ملکی کے لئے حیلہ ہے جو بغیر احرام کے مکہ میں داخل ہونے کا اراداہ رکھتا ہو۔ (ت)
(۱؎ درمختار باب الجنایات مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱ /۱۸۰)
نیز اسی میں قبیل فصل احرام ہے :
لو قصد موضعا من الحل کخلیص وحدۃ حل لہ مجاوزتہ بلا احرام فاذا حل بہ التحقق باھلہ فلہ دخول مکۃ بلا احرام وھو الحیلۃ لمرید ذلک الالمامور بالحج المخالفۃ ۲؎۔
اگر حل میں کسی جگہ مثلاً خلیص کا ارادہ رکھتا کیا تواب بغیر احرام داخلہ جائز ہے اور وہ جب وہاں پہنچ گیا تو وہاں اہل سے لاحق ہوگیا تو اب مکہ میں بغیر احرام داخلہ جائز ہوگا اور یہ حیلہ ہر اس شخص کے لئے جو مکہ کا ارادہ بغیر احرام کے کرے البتہ اگر حجِ فرض کا ارادہ ہو پھر جائز نہیں اس صورت میں احکام شرع کی مخالفت لازم آئے گی۔ (ت)
(۲؎ درمختار کتاب الحج مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/ ۱۶۲)
ردالمحتار میں ہے :
قصد موضعا من الحل ای قصد اوّلیا کما اذا قصدہ لبیع اوشراء وانہ اذا فرغ منہ یدخل مکۃ ثانیا ۳؎۔
''حل میں کسی مقام کا ارداہ کیا'' یعنی قصد اولٰی مثلاً خرید یا فروخت کا رادہ کیا جب اس عمل سے فارغ ہوگیا تو اب مکہ میں قصد ثانی سے داخل ہوسکتا ہے ۔(ت)
(۳؎ ردالمحتار کتاب الحج مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۲/ ۱۶۷)