Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
44 - 144
مسئلہ ۱۲۵۰: از ماہرہ منورہ باغ پختہ مرسلہ سیّد محمد ابراہیم صاحب ۱۵ ربیع الاول ۱۳۰۶ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ سجدات کلام اﷲ شریف وقت تلاوت معاً ادا کرے یا جس وقت چاہے؟ بینوا توجروا
الجواب

سجدہ صلوتیہ جس کا اداکرنا نماز میں واجب ہو اس کا وجوب علی الفور ہے، یہاں تک کہ دوتین آیت سے زیادہ تا خیر گناہ ہے اور غیر صلوٰتیہ میں بھی افضل واسلم یہی ہے کہ فوراً اداکرے جبکہ کوئی عذر نہ ہو کہ اٹھارکھتے ہیں بھول پڑتی ہے وفی التاخیر اٰفات ( دیر کرنے میں آفات ہیں۔ ت) ولہذا علماء نے اس کی تاخیر کو مکروہِ تنزیہی فرمایا مگر ناجائز نہیں،
فی الدرالمختار ھی علی التراخی علی المختار ویکرہ تاخیرھا تنزیھا، ان لم تکم صلویۃ فعلی الفور لصیرورتھا جزء منھا فیاثم بتأخیرھا ۱؎ اھ ملخصا
درمختار میں ہے مختار یہی ہے کہ سجدہ تلاوت فی الفور لازم نہیں ہوتا اور اس کا مؤخر کرنا مکروہ تنزیہی ہے بشرطیکہ وہ نماز میں لازم نہ ہوا ہو، اور اگر نماز میں لازم ہوا تو فی الفور لازم ہوگا کیونکہ اب وہ نماز کا حصّہ بن جائیگا اب اس کی تاخیر سے گناہ ہوگا اھ ملخصاً
(۱؎ درمختار     باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۰۵)
ردالمحتار میں ہے :
تفسیر الفور عدم طول المدۃ بین التلاوۃ والسجدۃ اکثر من اٰیتین اوثلاث علی ماسیأتی حلیۃ ۱؎ انتھی ، واﷲ تعالٰی اعلم
فی الفور کی تفسیر یہ ہے کہ تلاوت اور سجدہ کے درمیان دویا تین آیات کی قرائت کی مقدار کا فاصلہ نہ ہوجائے جیسا کہ عنقریب آرہاہے حلیہ انتہی ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۱؎ردالمحتار    باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۵۶۹)
مسئلہ ۱۲۵۱: از بریلی محلہ ملوکپور مسئولہ مولوی حکیم حافظ امیر اﷲ صاحب مدرس اول عربیہ اکبریہ ۲ جمادی الاولٰی ۱۳۰۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص اقرأ پڑھے فرضوںمیں، اور ضم دوسورتوں کا آیا نہیں، او رسجدہ سورت کے آخر میںہے، اور امام ہے اگر رکوع میں نیت کرے تو مقتدی کا سجدہ تلاوت ادا نہ ہوگا، آیا یوں جائز ہوگا کہ سورت ختم کرکے سجدہ کرے ؟ پھر کھڑا ہوکر رکوع کرے یا تین سجدے کرے؟ مطلع فرمائے۔ بینوا توجروا
الجواب

فی الواقع اگر صورت مستفسرہ میں امام نے فوراً رکوع کیا اور رکوع میں نیتِ سجدہ تلاوت کرلی تو اس کا سجدہ تو ادا ہوگیا مگر جن مقتدیوں نے نیت نہ کی ان کا سجدہ ایک مذہب علماء پر ادا نہ ہوگا۔
عنی عند من لا یتجزئ للماموم بنیۃ الامام وھما قولان حکاھما القھستانی،
میری مراد وہ علماء ہیں جو امام کی نیت کو مقتدی کے لئے کافی نہیں سمجھتے ، اور یہ دو قول ہیں جنھیں قہستانی نے نقل کیا ہے (ت)

نہ وہ آپ جداگانہ سجدہ کرسکیں گے للزوم خلاف الامام ( کیونکہ اس میں امام کی مخالفت لازم آرہی ہے ۔ت) نہ سجدہ نماز انھیں سجدہ تلاوت سے کافی ہوگا اگر چہ وہ اس میں سجدہ تلاوت کی نیت بھی کرلیں لانہ لما نواھا الامام فی رکوعہ تعین لھا افادہ ح قالہ ش ( کیونکہ جب امام نے اس کی ادائیگی کی رکوع میں نیت کی تو وہی اس کے لئے متعیین ہوگیا اسے 'ح'نے بیان کیا اور' ش' نے نقل کیا۔ ت) بلکہ اس کی سبیل ہوگی کہ بعد سلامِ امام سجدہ تلاوت کریں پھر یہ سجدہ رافع ہوگا کما تقرر فی مقررہ ( جیسا کہ اپنے مقام پر ثابت شدہ ہے ۔ ت) تو فرض ہوگا کہ قعدہ کا اعادہ کریں نہ کریں گے تونماز فاسد ہوجاءے گی
(۲؎ ردالمحتار    باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر   ۱/۵۷۱)
فی الدرالمختار عن القنیۃ لونواھا فی رکوعہ ولم ینوھا المؤتم لم تجزہ و یسجد اذاسلم الامام ویعید القعدۃ ولو ترکہا فسدت صلوتہ ۱؎
درمختار میں قنیہ سے ہے اگر امام نے سجدہ تلاوت کی نیت رکوع میں کرلی اور مقتدی نے نیت نہیں کی تو مقتدی کے لئے کافی نہ ہوگا، لہذا جب امام سلام کہے تو مقتدی سجدہ کرے او رقعدہ کو لوٹائے، اور اگر مقتدی نے سجدہ کو ترک کردیا تو اس کی نماز فاسد ہوجائے گی۔ (ت)
(۱؎ درمختار             باب سجود التلاوۃ        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۰۵)
جب یہ دقتیں ہیں تو ایسی حالت خصوصاً اس زمانہ جہالت میں رکوع نماز سجدہ تلاوت ادا کرلینا مقتدیوں کو فتنے میں ڈالنا ہے لہذا امام کو اس سے بچنا چاہئے۔
فی ردالمحتار ینبغی للامام ان لاینوبھا فی الرکوع ۲؎۔
ردالمحتار میں ہے کہ امام کا رکوع میں سجدہ (تلاوت) کی نیت کرنا مناسب نہیں۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار      باب سجود التلاوۃ       مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۵۷۱)
اور اگر یہ کرتاہے کہ سورت ختم کرکے فوراً سجدہ تلاوت کرے اور اس کے بعد کھڑا ہوکر معاً رکوع میں سجدہ چلاجائے تو سجدہ تو سب کا ادا ہوجائے گا مگر یہ فعل مکروہ ہوگا کہ سجود تلاوت ورکوع میں فصل نہ کیا۔
فی مراقی الفلاح لورکع بمجرد قیامہ منھاکرہ ۳؎ ۔
مراقی الفلاح میں ہے کہ اگر سجدہ تلاوت کے بعد محض قیا م کرکے رکوع کرلیا تو مکروہ ہوگا۔ (ت)
 (۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی باب سجود التلاوۃمطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ۲۶)
بس اگر تلاوت کے لئے سجدہ مستقلہ ہی کرنا چاہے تو اس کا یہ طریقہ اسلم کہ سجدہ سے اٹھ کر دوسری سورت مثلاً سور مستفسرہ میں سورہ قدر یا تلاوت والنجم میں سورہئ قمر کے اول سے تین آیتیں خواہ زیادہ پڑھ کر رکوع کرے اس میں اگر چہ ایک رکعت میں دوس00ورتوں سے پڑھنا ہوگا اور فرضوں میں اس کا ترک اولٰی ، مگر سورتوں میں فصل نہ ہو تو مکروہ نہیں، شرح صغیر منیہ میں ہے:
لوجمع بین السورتین فی رکعۃ واحدۃ الاولٰی ان لایفعل فی الفرض ولو فعل لایکرہ الا ان یترک بینھا سورۃ اواکثر ۴؎۔
اگر دوسورتیں ایک رکعت میں جمع کرلیں اور بہتر یہ ہے کہ فرائض میں ایسا نہ کیا جائے اور اگر ایسا کربھی لیا تو کراہت نہیں مگر اس صورت میں جب ان کے درمیان ایک سورۃ یا اکثر سور ہوں ۔ (ت)
 (۴؎ صغیری شرح منیۃ المصلی  تتمات فیما یکرہ فعلہ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی         ص۲۵۶)
بخلاف بعد سجودہ تلاوت بلافصل رکوع میں جانے کے کہ یہ مکروہ ہے کما قدمنا (جیسا کہ ہم نے پیچھے بیان کردیا ۔ ت) تو اس کے دفع کر اسے گوارا کیا جائے گا۔ مراقی الفلاح میں ہے :
اذاکانت اٰخرتلاوتہ ینبغی ان یقول أولو اٰیتین من سورۃ اخری بعد قیامہ منھا حتی لایصیر بانیا للرکوع علی السجود ۱؎۔
جب یہ آخری تلاوت ہو تو سجدہ تلاوت سے قیام کے بعد قرأت مناسب ہے اگر چہ وہ کسی دوسری سورت کی آیات ہوں تاکہ رکوع کی سجدہ پر بنا رکھنے والا نہ ہوجائے ۔ (ت)
 (۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی   باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۶۴)
ایک طریقہ تو یہ تھا اور ان سب سے بہتر وخوش تر اور ہر خدشہ سے سالم ومحفوظ تر یہ ہے کہ صورت مستفسرہ میں تلاوت کے لئے مستقل سجدہ اصلاً نہ کرے بلکہ آیت سجدہ پڑھنے ہی معاً نماز کا رکوع بجالائے اور اس میں نیتِ سجدہ نہ کرے پھر قومہ کے بعد فوراً نماز کے سجدہ اولٰی میں جائے اور اس میں نیت سجدہ کرے اب نہ کوئی قباحت یا کراہت یا تفویت فضیلت لازم ہوئی نہ مقتدیوں پر کچھ دقت آئی اگر چہ انھوں نے کہیں نیت سجدہ تلاوت کی نہ کی ہو کہ سجدہ نماز جب فی الفور کیا جائے تو اس سے سجدہ تلاوت خودبخود ادا ہوجاتا ہے اگر چہ نیت نہ ہو۔
فی ردالمحتار لو رکع وسجد لھا ای للصلٰوۃ فور اناب ای سجود المقتدی عن سجود التلاوۃ بلانیۃ تبعا لسجود امامہ لما مر انفا انھا تودّی بسجود الصلوۃ فوراً  وان لم ینو۲؎۔
ردالمحتارمیں ہے اگر امام نے نماز کا رکوع او رسجدہ فوراً کرلیا تو مقتدی کا سجدہ تلاوت بلانیت امام کی اتباع میں سجدہ کے ساتھ ادا ہوجائے گا جیسا کہ ابھی پیچھے گزرا کہ سجدہ تلاوت فوراً سجدہ نماز سے ادا ہوجاتا ہے اگر چہ نیت نہ کی ہو۔ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار             باب سجوع التلاوۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر         ۱/۵۷۱)
اور یہیں سے ظاہر کہ اس محمود ومحفوظ صورت میں اگر خود امام بھی اصلاً نیت سجدہ تلاوت نہ کرے تاہم سب کا سجدہ ادا ہوجائے گا اور امام ومقتدی ہر وقت سے امان میں رہیں گے بلکہ ہمارے علماء بحالت کثرت جماعت یا اخفائے قرأت اسی طریقہ کو مطلقاً افضل ٹھہراتے ہیں کہ آیت سجدہ پڑھ کر فوراً نماز کے رکوع وسجود کرلے تاکہ تلاوت کے لئے جداسجدے کی حاجت نہ پڑھے جس کے باعث جہال کو اکثر التباس ہوجاتا ہے ۔
مراقی الفلاح میں ہے ،
ینبغی ذلک للامام مع کثرۃ القوم اوحال المخالفۃ حتی لایؤدی الی التخلیط ۳؎۔
لوگوں کی کثرت اور مخالفتِ حال میں امام کے لئے یہی مناسب ہے تاکہ اختلاط کا سبب نہ بنے۔ (ت)
 (۳؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی  باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ نورمحمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ص ۶۴)
علامہ طحطاوی اُس کے حاشیہ میں فرماتے ہیں: ای ولا یجعل لھا رکوعا وسجودا مستقلا خوف الفساد من غیرہ۱؎۔

یعنی امام سجدہ تلاوت کے لئے مستقل رکوع وسجود نہ کرے کیونکہ دوسروں کی نماز میں فساد آئے گا ۔ (ت
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح  باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ۲۶۴)
میں کہتا ہوں کثرت جماعت کی قید اس نظر سے ہے کہ جب ہجوم ہوگا تو عوام بھی ضرور ہوں گے، اب ہمارے زمانہ میں کہ عام لوگ عوام ہی عوام ہیں کثرت و قلت سب یکساں، تو سجود مستقل سے مطلقاً یہی صورت انسب و اولٰی ، مگر یہ کہ امام جانتا ہو کہ اس وقت میرے پیچھے صرف وہی لوگ ہیں جو دینی مسائل کاعلم رکھتے ہیں لیکن اس قدر ضرور یادرکھنا چاہئے کہ یہ صورت اسی حالت میں بن پڑے گی کہ آیت سجدہ کے بعد رکوع وسجود نماز میں دیر نہ کی فوراً بجالایا ورنہ اگر آیت سجدہ پڑھ کر تین چار آیتیں اور پڑھ لیں تو اب سجدہ تلاوت ہرگز  بے خاص مستقل سجدے ہی کے ادا نہ ہوگا اور تاخیر کا گناہ ہوا وہ علاوہ ،
درمختار میں ہے:
ان لم تکن صلویۃ فعلی الفور لصیرورتھا جزء منھا فیأثم بتاخیرھا ۳؎۔
نماز میں لازم آنے والا سجدہ اگر علیحدہ نہ کیا تو فی الفور رکوع وسجدہ کرے کیونکہ یہ سجدہ جزء نماز ہونے کی وجہ سے فی الفور واجب ہوتا ہے تاخیر کی وجہ سے آدمی گنہ گار ہوتا ہے (ت)
(۲؎ درمختار    باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۰۵)
ردالمحتار میں ہے :
فلوانقطع الفورلا بدلھا من سجود خاص بھا مادام فی حرمۃ الصلٰوۃ وعللہ فی البدائع بانھا صارت دینا والدین یقضی بمالہ لا بما علیہ والرکوع والسجود علیہ فلایتأدی بہ الدین ۳؎ اھ
اگر فی الفور نہ ہوا تو الگ سجدہ تلاوت کرنا لازم ہوگا جب تک نمازی حرمت نمازمیں ہے اور اس کی علت بدائع میں بیان ہوئ ہے کہ سجدہ تلاوت قرض ہے اور قرض اس سے ادا ہوگا جو اس کا اپنا حق ہے، نہ کہ اس سے جو اس پر لازم ہے اور رکوع وسجود تو نمازی پر لازم لہٰذا ان سے دین کیسے ادا ہوسکتا ہے اھ (ت)
(۳؎ ردالمحتار    باب سجود التلاوۃ     مطبوعہ مصطفی البابی مصر        ۱ /۵۷۱)
اسی میں ہے:
ان فات الفور لا یصح ان یرکع لھا ولوفی حرمۃ الصلوۃ بدائع ای فلا بدمن سجود خاص بھا ۱؎ الخ ۔واﷲ سبحنہ وتعالی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
اگرفی الفور سجدہ تلاوت نہ ہوسکا تو اب حرمت نماز میں رہتےہوئے بھی اس کے لئے رکوع نہیں کیا جاسکتا بدائع ، یعنی اب اس کے لئے الگ مستقل سجدہ کرنا ہوگا الخ واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (ت)
(۱؎ ردالمحتار        باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/۵۷۰)
Flag Counter