امام احمد قسطلانی ارشاد الساری شرح صحیح بخاری میں فرماتے ہیں:
لو سجد قبل تمام الاٰیۃ ولو بحرف لم یصح لان وقتھا انما یدخل بتمامھا ۱؎۔
اگر کسی نے آیت سے ایک حرف بھی پہلے سجدہ کیاتو صحیح نہ ہوگا کیونکہ اس کو وقت تمام آیت پر شروع ہوتا ہے (ت)
(۱؎ ارشاد الساری شرح البخاری ابواب سجود القرآن مطبوعہ دارالکتاب العربی بیروت ۲/۲۸۱)
اس مذہب جلیل الشان مشید الارکان پر شعر مذکور کے پڑھنے سننے سے سجدہ نہیں آسکتا کہ اس میں آیت سجدہ بتمامہا نہیں، اسی طرح ہر وہ نظم جس میں پوری آیت سجدہ نہ ہو، اور یہیں سے ظاہر ہوگیا کہ قرأت وسماعت نظم مطلقاً موجب سجدہ نہیں کہ آیات چار دو گانہ(عہ) سے کوئی آیت وزن عروضی کی مساعدت نہیں فرماتی جسے نظم میں لانا چاہیں گے یا پوری نہ آئے گی یا ترتیب کلمات بدل جائے گی بہر حال آیت بحالہا باقی نہ رہے گی،
عہ: سجدے والی چودہ آیتیں۔
اللھم الااٰیتی النجم والعن فلعل الوزن یسعھما فی بعض الشطور النا درۃ اوالزحافات البعیدۃ اولابنیۃ الغریبۃ ولو بضم بعض الکمات فی الاول اولاخر فلیعمل الفکر۔
ہاں ، صرف سورہ نجم اور علق کی دو آیتوں میں وزن شعری کی گنجائش شاید بعض نادر وجوہ اور بعید تبدیلیوں اور اجنبی وزنوں میں وہ بھی اول یا آخر میں بعض کلمات ملانے کی وجہ سے پیدا ہوجائے، لہذا غور وفکر کو عمل میں لانا چاہئے ۔ (ت)
ہاں بعض علمائے متاخرین کا یہ مذہب ہے کہ آیت سجدہ سے سرف کو کلمے پڑھنا موجب سجدہ ہے جن میں ایک وہ لفظ جس میں ذکر سجود ہے جیسے آیت سوال میں لفظ واسجد اور دوسرا اُس کے قبل یا بعد کا جیسے اُس میں واقترب ہ یہ مذہب اگر چہ ظاہر الروایہ بلکہ روایات نوادر سے بھی جدا ، اور مسلک ائمہ سلف وتصریح وتلویح متون و شروح کے بالکل خلاف ہے مگر سراج وہاج وجوہرہ نیرہ ومراقی الفلاح میں اس کی تصحیح واقع ہوئی ، شرح نور الایضاح میں ہے:
قراء ۃ حرف السجدہ مع کلمۃ قبلہ اوبعدہ من اٰیتھا توجب السجود کالایۃ المقروءۃ بتمامھا فی الصحیح۲؎ ۔
صحیح قول کے مطابق اگر ایت سجدہ میں صرف حرف سجدہ کو اس کے ماقبل یا مابعد کلمہ کے ساتھ پڑھ لیا تو سجدہ لازم ہوجائے گا جیسے کہ تمام آیت کی تلاوت سے لازم ہوتا ہے ۔(ت)
علامہ طحطاوی اُس کے حاشیہ میں فرماتے ہیں:
فی الجوھرۃ الصحیح فادہ انہ اذاقرأ حرف السجدۃ وقبلہ کلمۃ وبعد کلمۃ وجب السجود والافلا ۲
جوہرہ میں ہے کہ صحیح یہ ہے کہ جب حرف سجدہ پڑھا اور اس کے ساتھ اس سے پہلے کا کلمہ بھی پڑھا تو سجدہ لازم ہوگا اگر پہلے یا بعد کا کلمہ نہ پـڑھا تو سجدہ لازم نہ ہوگا۔(ت)
(۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی باب سجود التلاوۃ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص۲۶۱)
سراج میں ہے کہ کیا سجدہ لازم ہونے کے لئے تمام آیت کی تلاوت ضروری ہے یا بعض کی، اس میں اختلاف ہے، اور صحیح یہی ہے کہ جب کسی نے حرف سجدہ کو اس سے پہلے یا بعد کے کلمہ کے ساتھ ملاکر پڑھا تو سجدہ سہو لازم ہوجائے گاورنہ نہیں، (ت)
(۲؎ ردا لمحتار باب سجود التلاوۃ مطبوعہ مصطفٰی البابی مصر ۱/ ۵۶۵)
علامہ ابن امیر الحاج نے ائمہ متقدمین کا مذہب بیان فرماکر روایت نادرہ رقیات ذکر کی جس کی نسبت فرمایا:
ذکر فی تتمۃ الفتاوی الصغری ان الفقیہ اباجعفر ذکرہ فی غریب الروایۃ عن محمد ۳؎۔
فتاوٰی صغرٰی کے تتمہ میں ہے کہ فقیہ ابو جعفر نے امام محمد سے ایک غریب روایت کے حوالے سے ذکر کیا ہے ۔(ت)
(۳؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
پھر فرمایا:
وقال الفقیہ ابوجعفر اذاقرأ حرف السجدۃ ومعھا غیرھا قبلھا اوبعدھا امر بالسجود وسجدو ان کان دون ذلک لایسجد۴؎ ۔
فقیہ ابوجعفر نے فرمایا اگر کسی نے حرف سجدہ کو پڑھا اور غیر یعنی ماقبل اور مابعد کو بھی پڑھا تو اسے سجدہ کاحکم دیا جائے گا اور وہ سجدہ کرے اور اس کے بغیر پڑھا تو سجدہ تلاوت لازم نہ ہوگا (ت)
(۴؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
اس سے ظاہر کہ یہ مذہب صرف فقیہ ابوجعفر ہندوانی کا ہے ائمہ سے نوادر میں بھی منقول نہیں۔ اقول رہیں تصحیحیں وہ تعدد کتب سے متکثر نہیں ہوتیں کہ جسے منصب اجتہاد فتوٰی نہیں اس کا ھوالصحیح (یہی صحیح ہے ۔ ت) کہنا نقل محض وتقلید مجرد ہے، پھر خادمِ فقہ جانتا ہے کہ اجماع متون کی شان عظیم ہے خصوصاً جبکہ جماہیر شراح وکبرٰی فتاوٰی بھی ان کے ساتھ ہوں یہاں تک بعض صریح تصحیحوں کو اسی وجہ سے نہ مانا گیا کہ مخالف متون میں کما بیناہ فی کتاب النکاح من العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویۃ علی الخصوص ( جیسا کہ ہم نے اس کا تفصیلی بیان '' العطایا النبویۃ فی الفتاوی الرضویہ '' کے کتاب النکاح میں خصوصی طور پر کیا ہے ۔ت) جبکہ وہ مذہب ائمہ مذہب سے منقول بھی نہیں صرف بعض مشائخ کا مسلک ہے اور حکم اُس قبیل سے نہیں جو اختلاف زمانہ سے بدل جائے ، ایسی حالت میں اس تصحیح پر تعویل واعتماد ضروری ہونا بغاوت خیر منع وانکار میں ہے ،
لاجرم محقق ابن عابدین شامی نے عبارت مذکورہ سراج کے بعد حم السجدہ میں تعبدون ہ ولایسامون ہ کا اختلاف اور اس میں ہمارے علماء کا استدلال ،مذکور عن الامداد عن البحر عن البدائع نقل کرکے فرمایا:
الظاہر ان ھذا الاختلاف مبنی علی ان السبب تلاوۃ اٰیۃ تامۃ کما ھو ظاہر اطلاق لمتون وان المراد بالاٰیۃ مایشمل الاٰیۃ والاٰیتین اذاکانت الثانیۃ متعلقۃ بالاٰیۃ التی ذکر فیھا حرف السجدۃ وھذاینا فی مامرعن السراج من تصحیح وجوب السجود بقرائۃ حرف السجدۃ مع کلمۃ قبلہ اوبعدہ ، لایقال مافی السراج بیان لموضع اصل الوجوب وما مرعن الامداد بیان لموضع وجوب الاداء اوبیان لموضع السنۃ فیہ لانا نقول ان الاداء لایجب فورالقرائۃ کماسیأتی، ومامرفی ترجیح مذھبنا من قولھم لانھا تکون قبل وجود سبب الوجوب، وقد ذکر مثلہ ایضا فی الفتح وغیرہ یدل علی ان الخلاف بیننا وبین الشافعی فی موضع اصل الوجوب وانہ لایجب السجود فی سورۃ حم السجدہ الاعندانتھاء الآیۃ الثانیۃ احتیاطا کما صرح بہ فی الہدایۃ وغیرھا، لان الوجوب لایکون الابعد وجود سببہ فلو سجدھا بعد الاٰیۃ الاولی لا یکفی لانہ یکون قبلک سببہ ونہ ظھران مافی السراج خلاف المذھب الذی مشی علیہ الشراح ولمتون تامل۱؎ انتھی
ظاہر یہی ہے کہ اس اختلاف کی بنیاد اس پر ہے کہ سجدہ کا سبب پوری آیت کی تلاوت ہے جیسا کہ متون کے اطلاق سے ظاہر ہے اور آیت سے مراد وہ حصہ ہے جو ایک آیت یا دو آیات پرمشتمل ہو جبکہ دوسری آیت اس پہلی سے متعلق ہو جس میں حرف سجدہ ہے لیکن یہ بات سراج کی اس سابقہ تصریح کے منافی ہے کہ حرف سجدہ کو پہلے یا بعد کے کلمہ کے ساتھ ملاکر پڑھنے سے سجدہ لازم ہوجاتا ہے (جواباً) یہ نہیں کہا جاسکتا کہ سراج میں اصل وجوب کے مقام کا بیان ہے اور امداد کے حوالے سے جو گزرا اس سے مراد وجوب ادا کے مقام یا اس میں سنت طریقے کا بیان متصور ہے ، اس لئے کہ ہم کہتے ہیں کہ اداء قرأت پر فی الفور لازم نہیں ہوتی جیسا کہ عنقریب آرہاہے ۔ ہمارے مذہب کی ترجیح میں فقہا کا جو قول گزرا کہ اختتام آیت سے قبل سجدہ سبب وجوب سے پہلے ہونا لازم آئے گا اور اسی کی مثل فتح وغیرہ میں جو مذکور ہے وہ دلالت کرتا ہے کہ ہمارے او رشوافع کے درمیان اصل وجوب کے مقام میں اختلاف ہے، او ر سورہ حم السجدہ میں وہ سجدہ احتیاط کے پیش نظر دوسری آیت کے اختتام پر لازم کرتے ہیں جیسا کہ ہدایہ وغیرہ میں تصریح ہے کیونکہ وجوب اپنے سبب کے بعد ہوتا ہے اگر کسی نے پہلی آیت کے بعد سجدہ کرلیا تو کافی نہیں ہوگا کیونیکہ یہ اس کے سبب سے پہلے ہوگا اور اس سے ظاہر ہوگیا کہ سراج میں جوکچھ ہے وہ اس مذہب کے خلاف ہے جس پر متون اور شروحات ہیں انتہی.
(۱؎ ردالمحتار باب سجود التلاوۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۶۵)
اقول تاملناہ فوجدناہ حقا واماقولکم الظاھر ان ھذا الاختلاف الخ فلیس ھذا محل الظاہر بطل ھوا لمتعین قطعا کما لایخفی ثم العجب من علامۃ الشرنبلالی حیث جزم فی متنہ بما صحح السراج وعول فی شرحہ علی کلام البدائع مع تنافیھا صریحا وللعبد الضعیف غفراﷲ تعالٰی لہ فی تحقیق ھذا الرام رسالۃ مستقلۃ الفتھا بعد ورودھذ السؤال و اوضحت فیھا المرام بتوفیق الملک المتعال۔
اقول : ہم نے اس پر غور کیا تو اسے حق پایا، باقی رہا معاملہ تمھارے اس قول کا کہ ظاہر یہ ہے کہ یہ اختلاف الخ تو یہ محل ظاہر یہ نہیں بلکہ قطعی طور پر متعین ہے جیسا کہ واضح ہے، پھر علامہ شرنبلالی پر تعجب ہے کہ انھوں نے متن میں اس پر جزم کیا ہے جسے سراج نے صحیح قرادیا اور شرح میں کلام بدائع پر اعتماد کیا حالانکہ ان دونوں کے درمیان صراحۃً منافات ہے عبد ضعیف (اﷲتعالٰی ا س کی مغفرت فرمائے) نے اس سوال کے بعد اس مسئلہ کی تحقیق پر مستقل رسالہ لکھا ہے جس میں اﷲ تعالٰی کی توفیق سے مقصد کو واضح کیا ہے ۔(ت)
بالجملہ اصل مذہب معلوم ہے تاہم محل وہ ہے کہ سجود میں ضررنہیں اور برتقدیر وجوب ترک معیوب اور صریح تصحیح جاذب قلوب، لہذا انسب یہی ہے کہ اسی مذہب مصحح پر کاربند ہو کر شعر مذکور کی سماعت وقرائت پر سجدہ کرلیں اسی طرح ہر نظم ونثر میں جہاں آیت سجدہ سے صرف سجدہ مع کلمہ مقارنہ پڑھا جائے سجدہ بجالائیں،
وﷲ الموفق واعلم ان فی المسئلۃ ثلثۃ مذاھب اخراجلھا ما فی الرقیات وھو الوجوب باکثر الآیۃ مع حرف السجدۃ مشی علیہ ما تنون کالتبیین والخلاصۃ والدرالمختار وغیرھا ولکن لم یذل بالتصحیح والباقیان انزل درجۃ فلا یعرج علی شیئ منھا فی مخالفۃ المتون وعامۃ الشروح وقد ذکرنا الکلام علی کل ذلک فی رسالتنا المذکورۃ بتوفیق اﷲ سبحنہ وتعالٰی ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
اور اﷲ تعالٰی توفیق دینے والا ہے ، واضح رہے کہ مسئلہ میں تین اور (بھی) مذاہب ہیں ان میں سے اجل وہ ہے جو رقیات میں ہے کہ اگر کسی نے حرف سجدہ اکثر آیت کے ساتھ پڑھ لیا تو اس پر سجدہ واجب ہوجائے گا ارت اسی کو بعض ماتنین نے اختیار کیا مثلاً صاحب تبیین ، خلاصہ اور درمختار وغیرہ ، لیکن اس کی تصحیح نہیں کی اور بقیہ دو درجہ کے لحاظ سے اتنے نیچے ہیں کہ وہ متون اور اکثر شروحات کے مقابل نہیں آسکتے، ہم نے اﷲ تعالٰی کی توفیق سے اس پر اپنے مذکورہ رسالے میں تفصیلاً گفتگو کی ہے۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم۔