Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
42 - 144
باب سجود التلاوۃ 

(سجدہ تلاوت کا بیان )
مسئلہ ۱۲۴۹: از مارہرہ مطہرہ باغ پختہ مرسلہ جناب سيد محمد ابراہیم صاحب ہشتم ربیع الاول ۱۳۰۶ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اکثر کتب نظم ونثر میں آیات سجدہ لکھی ہوتی ہےان کا کیا حکم ہے آیا سجدہ کرنا چاہئے یا نہیں؟ جیسے منقبت میں جناب مولوی عبدالقادر صاحب خصصہم اﷲ بالمواہب کا شعر ہے : ؂

 		راہ حق میں کردیا سجدہ میں قربان اپنا سر

  		ایسی واسجد واقترب کی کس نے کی تفسیر ہے

بینوا توجروا۔
الجواب

وجوب سجدہ تلاوت ، تلاوت کلمات معینہ قرآن مجید سے منوط ہے۔ وہ کلمات جب تلاوت کئے جائیں گے سجدہ تالی وسامع پر واجب ہوگا کسی نظم یا نثر کے ضمن میں آنے سے غایت یہ ہے کہ اول وآخر کچھ غیر عبارت مذکور ہوئی جسے ایجاب سجدہ میں دخل نہ تھا ، نہ یہ کہ حکم سجدہ کی رافع ومزیل ہو اُس کا ہونا نہ ہونا برابر ہوا جس طرح حرف اسی قدر کلمات تلاوت کریں اور اول وآخر کچھ نہ کہیں سجدہ تلاوت واجب ہوگا، ایسے ہی یہاں بھی کہ جس عبارت کا عدم وجودیکساں ہے وہ نظر سے ساقط اور حکم سکوت میں ہے وھذا ظاھر جدا (اور یہ نہایت واضح ہے ۔ت) ہاں قابل غور یہ بات ہے کہ سجدہ تلاوت کس قدر قرأت سے ہوتا ہے اصل مذہب وظاہرالروایہ میں ہے کہ ساری آیت بتما مہااس کا سبب ہے یہاں تک کہ اگر ایک حرف باقی رہ جائے گا سجدہ نہ آئے گا مثلاً اگر حج میں الم تر ان اﷲ سے ان اﷲیفعل ما تک پڑھ گیا سجدہ نہ ہوا جب تک یشاء بھی نہ پڑھے ، اور یہی مذہب آثار صحابہ عظام وتابعین کرام سے مستقاد اور ایسا ہی امام مالک وامام شافعی وغیرہما ائمہ کا ارشاد بلکہ ائمہ متقدین سے اس بارے میں اصلاً خلاف معلوم نہیں کتب اصحاب سے متون کہ نقل مذہب کے لئے موضوع ہیں قاطبۃً اسی طرف گئے اور دلائل وکلمات عامہ شروح کہ تحقیق وتنقیح کی متکفل ہیں اسی پر مبنی ومتبنی ہوئے اور اکابر اصحاب فتاوٰی بھی ان کے ساتھ ہیں ۔
وقایہ ونقایہ و ملتقی الابحر میں ہے:
تجب علی من تلا آیۃ ۱؎ ۔
 ( سجدہ آیت کی تلاوت کی وجہ سےواجب  ہوتا ہے۔ ت)
 (۱؎ شرح الوقایۃ      باب سجود التلاوۃ     مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ دہلی        ۱ /۲۲۹ )
کنز و وافی میں ہے:
تجب باربع عشر آیۃ ۲؎
 ( سجدہ تلاوت چودہ آیات کی وجہ سے لازم ہوتا ہے ۔ت)
 (۲؂ کنز الدقائق   باب سجود التلاوۃ  مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱ /۲۵)
تنویر میں ہے :
تجب سبب تلاوۃ آیۃ۳؎
(سجدہ آیات کی تلاوت کی وجہ سے واجب ہوجاتا ہے ۔ ت)
 (۳؎ درمختار              باب سجود التلاوۃ  مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی        ۱/۱۰۴)
غنیہ میں ہے :
اذاقرأ  اٰیۃ السجدۃیجب علیہ ان یسجد ۴؎ اھ ملخصا
جب کسی نے آیت سجدہ پڑھی تو اس پر سجدہ تلاوت کرنا لازم ہے اھ ملخصا (ت)
 (۴؎ غنیۃ المستملی شرح منیۃ المصلی    باب سجود التلاوۃ  مطبوعہ سہیل اکیڈمی لاہور        ص ۴۹۸)
خانیہ میں ہے :
سجدۃ التلاوۃ تجب علی من تجب علیہ الصلوۃ اذا قرأ السجدۃ اوسمعھا ۵؎۔
سجدہ تلاوت اس شخص پر واجب ہوتا ہے جس پر نماز واجب ہے جبکہ اس نے آیت سجدہ پڑھی یا سنی ۔ (ت)
 (۵؎ فتاوٰی قاضی خاں        فصل فی قرأۃ القرآن خطأ       مطبوعہ نولکشور لکھنؤ        ۱/۷۵)
برجندی شرح نقایہ فتاوٰی ظہیریہ امام ظہیر الملہ والدین مرغینانی سے ہے :
المرادبالاٰیۃ اٰیۃ تامۃ حتی لوقرأ  اٰیۃ السجدۃ کلھا الا الحرف الذی فی اٰخرھا لا یسجد ۶؎ الخ
آیت سے مراد پوری آیت ہے حتی کہ کسی نے آیت پڑھی مگر اس کا اخری حرف نہ پڑھا تو سجدہ لازم نہیں الخ (ت)
 (۶؎ شرح نقایہ برجندی        فصل فی سجدۃ التلاوۃ          مطبوعہ نولکشور       ۱/۱۵۵)
ہدایہ میں ہے :
موضع السجدۃ فی حم السجدہ عند قولہ تعالٰی لایسأ مون فی قول عمر رضی اﷲ تعالی عنہ وھوالماخوذ للاحتیاط ۱؎۔
حم السجدۃ میں حضرت عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ کے فرمان کے مطابق لایسأمون پر سجدہ ہے ۔ احتیاط کی

بناء پر اسی پر عمل ہے۔ (ت)
 (۱؎ الہدایہ    فصل فی سجدۃ التلاوۃ     مطبوعہ نو لکشور لکھنؤ    ۱/۱۴۳)
فتح القدیر میں ہے :
وجہہ انہ ان کان السجود عند تعبدون لایضرہ التاخیر الی الاٰیۃ بعدہ وان کان عند لایسامون  لم یکن السجود قبل مجز ئا۔ ۲؎
اس کی وجہ یہ ہے اگر سجدہ تعبدون پر لازم ہوجاتا ہے تو اس کے بعد آیت اسے نقصان دہ نہیں اور اگر سجدہ لایسأمون پر ہو تو اب پہلے ہونے کی وجہ سے کافی نہ ہوگا۔ (ت)
 (۲؎ فتح القدیر     فصل فی سجدۃ التلاوۃ مطبوعہ    نوریہ رضوریہ سکھر    ۱/۴۶۵)
کافی میں ہے :
موضع السجدۃ فی حم عند قولہ لایسأمون وھو مذھب ابن عباس وقال الشافعی عند قولہ ان کنتم ایاہ تعبدون  وھو مذھب علی رضی اﷲ تعالی عنہم لان الامر بالسجود فیھا والاحتیاط فیما قلنا لیخرج عن الواجب بیقین فانھا ان کانت عند الاٰیۃ الثانیۃ والسجود قبلھا غیر جائز فلو سجد عند تعبدون لایخرج عن العھدۃ الخ ۳؎
سورہ حم میں سجدہ لایسأمون کے الفاظ پر ہے اور یہ حضرت ابن عباس کا مذہب ہے امام شافعی کے مطابق سجدہ ان کنتم ایاہ تعبدون کے الفاظ پر ہے اور حضرت علی رضی اﷲعنہ کا یہی مذہب ہے کیونکہ سجدہ کاحکم اسی میں ہے، اور احتیاط ہمارے قول میں ہے تاکہ مکلف سے واجب کی ادائیگی بالیقین ہوجائے کیونکہ اگر سجدہ دوسری آیت پر ہے تو اس سے پہلے سجدہ جائزنہیں لہذا اگرسجدہ تعبدون پر کیا تو مکلف اپنی ذمہ داری سے عہدہ برآنہ ہوگا الخ (ت)
(۳؎ کافی شرح وافی)
ردالمحتار میں امداد الفتاح اُس میں بحرالرائق اُس میں بدائع سے ہے  :
رجحنا الاول للاحتیاط عند اختلاف مذاہب الصحابۃ لانھا لو وجبت عند تعبدون ہ فالتاخیر الی لایسأمون  لایضر بخلاف العکس لانھا تکون قبل وجود سبب الوجوب ۱؎ الخ
ہم نے صحابہ میں اختلاف کی وجہ سے احتیاطاً پہلے کو ترجیح دی ہے کیونکہ اگر سجدہ تعبدون پر لازم ہو تو لاسیأمون تک تاخیر نقصان دہ نہیں اور اس کے عکس میں نقصان ہے کیونکہ ایسی صورت میں وجوب سب سے پہلے ہوگا۔ الخ (ت)
 (۱؎ ردالمحتار        باب سجود التلاوۃ    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۵۶۵)
اسی طرح شرح وقایہ ومجمع الانہر ومستخلص وغیرہا میں ہے :
فقد نصوا علی ان سبب الوجوب الاٰیۃ بتمامھا حتی جعلوا التقدیم علیھا کتقدیم الصلوۃ علی وقتھا۔
فقہاء نے تصریح کی ہے کہ وجوب سجدہ کا سبب پوری آیت ہوتی ہے حتی کہ پوری آیت سے پہلے سجدہ کرنا ایسے ہی ہےجیسے نماز وقت سے پہلے ادا کرلی ہو۔ (ت)
حلیہ میں ہے :
سجدۃ التلاوۃ واجبۃ فی الاعراف عقب اٰخرھا وفی الرعد عقب قولہ وظلالھم بالغدووالاٰصال  وفی النحل عقب قولہ ویفعلون مایؤمرون  وفی بنی اسرائیل عقب قولہ ویزیدھم خشوعا  وفی مریم عقب قولہ خروا سجد اوبکیا  وفی الحج عقب قولہ ان اﷲ یفعل مایشاء ہ وفی الفرقان عقب قولہ وزادھم نفورا ہ وفی النمل عقب قولہ ویعلم ما تخفون وما تعلنون  وھو معز والی اکثر الفقھاء وقال مالک عند قولہ رب العرش العظیم ووذکر النووی انہ الصوب وانہ مذھب الشافعی کما صرحت بہ اصحابہ وفی الم السجدۃ عقب قولہ وھم لا یستکبرون وفی ص عقب قولہ واناب  وفی قولہ عند المالکیۃ وھو روایۃ عن مالک عقب ماٰب  وفی حم السجدۃ عقب قولہ والایسأمون  ومشہور مذہب مالک عقب تعبدون  وفی النجم عقب اٰخرھا و فی الانشقاق عقب قولہ لا یسجدون  مشہور مذہب مالک عقب اٰخرھا وفی العلق عقب اٰخرھا ثم لم یحک عن احد ممن قال بالسجود فی ھذاالمواضع الاربعۃ عشرخلاف فی شیئ من محالھا المذکورۃ فیما عدالمواضع الاربعۃ التی بینت الخلاف فیھا نعم فی ذخیرۃالذکر فی الرقیات الخ وذکر ھھنا روایۃ غریبۃ عن الامام محمد رحمۃ اﷲ تعا لی ۱؎اھ ملتقطا
سجدہ تلاوت اعراف میں آخری آیت کے بعد ہے رعد میں ظلالھم بالغدوو الاٰصال کے بعد ہے۔ نحل میں ویفعلون ما یومرون پر ، بنی اسرائیل میں ویزیدھم خشوعا پر ، مریم میں خرواسجدہ ویکبار پر ، حج میں ان اﷲ یفعل مایشاء پر، فرقان میں وزادھم نفورا کے بعد ، نمل میں ویعلم ماتخفون وماتعلنون پر ، اور یہ اکثر فقہاء کی طرف منسوب ہے امام مالک رب العرش العظیم پر سجدہ کے قائل ہیں  امام نووی نے کہا یہی صواب اور مذہب شافعی ہے جیسا کہ ان کے اصحاب نے تصریح کی ہے۔الم السجدۃ میں وھم لایستکبیرون پر، ص میں واناب کے بعد، اور مالکیہ کے نزدیک ماٰب کے بعد، اور یہی امام مالک رحمۃ اﷲ علیہ سے مروی ہے

حم السجدۃ میں ولایسأمون کے بعد، اور مذہب مالک میں مشہور تعبدون کے بعد ہے، النجم میں آخری آیت کے بعد، انشقاق میں لایسجدون کے بعد، اور مذہب مالک مشہور اس کی آخری آیت پر، علق میں آخری آیت کے بعد لازم ہے ، ان چودہ مقامات میں کوئی اختلاف مروی نہیں ماسوائے ان چار مقامات کے جن میں اختلاف ذکر کردیاگیا ہے ، ہاں ذخیرہ میں ہے کہ الرقیات میں ہے الخ اور وہاں امام محمد رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ سے روایت عزیبہ ذکر کی گئی ہے اھ ملتقطاً (ت)
(۱؎ حلیۃ المحل یشرح منیۃ المصلی)
اقول  : فانظر الی قولہ واجبۃ عقب کذا وعقب کذا فان عقب ظرف للوجوب فلا وجوب قبل تمام الاٰیۃ وانظرع ماذکر من اقوال المالکیۃ والشافعۃ تستقید بھا انھم ایضا معنا فی ذلک ثم النظر الی قولہ لم یحک من احد الخ تشعربہ ان لاخلاف فہی لائمہ السلف اللھم الاروایۃ نادرۃ عن امامنا الثالث رحمہ اﷲ تعالی۔

اقول آپ نے انکے الفاظ فلاں لفظ کے بعد فلاں کے بعد واجب ہے ، ملاحظہ کئے، لفظ عقب وجوب کے لئے جگہ کا بیان ہے پس تمام آیت سے پہلے سجدہ کا وجوب نہ ہوگا، مالکیہ اور شوافع جو اقوال ذکر کرتے ہیں انھیں دیکھیں ان سے مستفاد کہ اس معاملہ میں ہمارے ساتھ ہیں پھر یہ الفاظ دیکھو کہ کسی سے اختلاف مروی نہیں الخ جس سے واضح ہورہا ہے کہ ائمہ سلف کو اس میں کوئی اختلاف نہیں مگر وہ روایت جو ہمائے تیسرے امام رحمہ اﷲ تعالٰی سے مروی ہے ۔ (ت)
اسی طرح شرح معانی الآثار امام طحطاوی میں تصریح فرمائی کہ اواخرِ آیات موضع سجود ہے اور رحم السجدہ میں اختلاف محل یوں نقل کیا:
قال بعضھم موضعہ تعبدون ہ وقال بعضھم موضعہ لا یسأمون ہ وکان ابوحنیفۃ و ابویوسف ومحمد یذھبون الی المذھب الاخیر واختلف المقتدمون فی ذلک ۱؎۔
بعض نے فرمایا کہ سجدہ کامقام تعبدون ہے ، بعض نے فرمایا لایسأمون ہے، امام ابو حنیفہ ، امام ابویوسف اور امام محمد تینوں آخری کی طرف گئے ہیں، مقتدین نے اس میں اختلاف کیا ہے
 (۱؎ شرح معانی الآثار    باب سجود التلاوۃ فی الفصل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۷)
ثم اسند عن ابن عباس وابی وائل وابن سیرین ومجاھد وقتادۃ مثل مذھب اصحابنا وعن ابن مسعود وابن عمر مثل مذھب المالکیۃ واسند عن مجاھد قال سألت ابن عباس ون السجدۃ التی فی حم قال اسجد باٰخرالاٰیتین ۲؎ اھ
پھر انھوں نے سنداً بتایا کہ ابن عباس ، ابو وائل، ابن سیرین، مجاہد اور قتادہ کا مذہب ہمارے اصحاب کی طرح ہے ابن مسعود اور ابن عمر کا مسلک مالکیہ والا ہے، اور مجاہد سے سنداً بیان کیا ہے کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہا سے حم میں سجدہ کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے فرمایا دونوں آیات کے آخر میں سجدہ کرو اھ ۔
 (۲؎ شرح معانی الآثار    باب سجود التلاوۃ فی الفصل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۷)
قلت والباء للسبیبۃ ثم اخرج عنہ بطریق اخر قال سجدہ رجل فی الاٰیۃ الالی من حم فقال ابن عباس عجل ھذا بالسجود ۳؎۔
قلت( میں کہتا ہوں کہ ) باء سببیہ ہے پھر دوسری سند سے ابن عباس سے روایت کیا ایک آدمی نے حم کی پہلی آیت پر سجدہ کیا اس پر حضرت ابن عباس رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے فرمایا: سجدہ میں جلدی کردی ۔(ت)
 (۳؎ شرح معانی الآثار    باب سجود التلاوۃ فی الفصل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۷)
پھر فرمایا :
فکانت ھذہ السجدۃ التی فی حم مماقد اتفق علیہ واختلف فی موضعھا وما ذکرنا قبل ھذامن السجود فی السور الاخر فقد اتفقواق علیھا وعلی مواضعھا التی ذکرناھا ۴؎ الخ
حم کے سجدہ پر اتفاق ہے لیکن اس کے مقام میں اختلاف ہے اور جو اس سے پہلے سورتوں کے آخر میں سجدوں کا ذکر آیا ان پر اور ان کے مذکور مقامات پر اتفاق ہے الخ (ت)
 (۴؎ شرح معانی الآثار    باب سجود التلاوۃ فی الفصل    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۱/۲۴۷)
Flag Counter