فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ ۱۲۴۷: کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وتروں میں رکعتِ ثالث میں امام بجائے قنوت پڑھنے کے تکبیر قنوت کہہ کر رکوع کو چلا گیا اور مقتدیان کی تکبیر کہنے سے واپس ہو کر قنوت پڑھا اور پھر دوبارہ رکوع کیا اور سجدہ سہو کیا نماز ادا ہوگئی یا وتر فاسد ہوئے رکوع میں پورا جھک گیا تھا جب قنوت کی طرف رجوع کی ۔ بینوا توجروا
الجوا ب جو شخص قنوت بھول کر رکوع میں چلاجائے اسے جائز نہیں کہ پھر قنوت کی طرف پلٹے بلکہ حکم ہے کہ نماز ختم کرکے اخیر میں سجدہ سہو کرلے پھر اگر کسی نے اس حکم کا خلاف کیا تو بعض ائمہ کے نزدیک اس کی نماز باطل ہوجائے گی اور اصح یہ ہے کہ برا کیا گنہگار ہوا مگر نماز نہ جائے گی ۔
ردالمحتار میں مبتغی سے ہے:
لوسھا عن القنوت فرکع فانہ لوعاد وقنت لاتفسد علی الاصح ؎ اھ
اگر قنوت بھول گئی اور رکوع کیا اب اگر لوٹ کر قنوت پڑھی تو اصح قول کے مطابق نماز فاسد نہ ہوگی اھ
(۱؎ ردالمحتار باب سجود السہو مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۵۵۱)
وفیہ عن الفتح فی مسئلہ العود الی التشھد بعد القیام للثالثۃ لایحل ولکنہ بالصحۃ لایخل ۲؎ اھ
اور اسی میں مسئلہ تیسری رکعت کی طرف قیام کے بعد تشہد کی طرف لوٹنا کے تحت ہے کہ یہ جائز نہیں البتہ صحت نماز میں مخل نہیں اھ (ت)
(۲؎ ردالمحتار باب سجود السہو مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۵۰)
بہر حال اس عود کو جائز کوئی نہیں بتاتا تو جن مقتدیوں نے اسے اس عود ناجائز کی طرف بلانے کے لئے تکبیر کہی ان کی نماز فاسد ہوئی امام ان کے کہنے کی بنا پر نہ لوٹتا نہ ان کے بتائے سے اسے یاد آتابلکہ اسے خود ہی یاد آتا اور لوٹتا اگر چہ اس کا یاد کرنا اور ان کا تکبیر کہنا برابر واقع ہوتا تو اس صورت میں مذہب اصح پر امام اور باقی مقتدیوں کی نماز ہوجاتی یعنی واجب اترجاتا اگر چہ اس کراہت تحریم کے باعث اعادہ واجب ہوتا اب کہ وہ ان مقتدیوں کے بتانے سے پلٹا اور یہ نماز سے خارج تھے تو خود اس کی بھی نماز جاتی رہی اور اس کے سبب سب کی گئی لانہ امتثل امرھم اوتذکر بتکبیرھم فعادبرائ نفسہ فقد تعلم ممن ھو خارج الصلوۃ کما افادہ فی البحر ( کیونکہ اس نے ان کی بات مانی یا اسے ان کی تکبیر سے یاد دہانی ہوئی اور وہ اپنی رائے سے لوٹا تو اب اس نے نماز سے خارج آدمی سے سیکھا یا جانا ہے ۔ جیسا کہ بحر میں اس کا افادہ کیا۔ ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۴۸: از شہر کہنہ ۱۱ جمادی الآخرہ ۱۳۱۷ھ ترک آرد قعدہ اولٰی لیکن باستادن نزدیک ترشد آنگاہ نشست بازباقی نماز گزارد دریں حال نماز اوجائز است یا نے؟ بینوا توجروا
اگر پہلا قعدہ ترک کرکے تیسری رکعت کے لئے نمازی سیدھا کھڑا ہوگیا پھر واپس لوٹا اور باقی نماز ا دا کی اس کی نماز ہوئی یا نہیں؟ بینواتوجروا
الجواب ہرکہ درفرض یا وتر قعدہ اولٰی فراموش کردہ استادہ تابتمامہ استادہ نشود بسوئے قعود رجوعش باید پس اگر ہنوز بقعود اقرب بودسجدہ سہو نیست واگر بقیام نزدیک ترشدہ باشد سجدہ سہو لازم آید تانیم زیریں ازبدن انسان راست نشدہ است نہ نشستن نزدیک ست وچوں ایں نصف راست شدہ پشت ہنوز خمیدہ است بہ استادن قریب ست اگر بتمام راست استاد آنگاہ نشستن روانیست اگر بقعدہ اولٰی بازمیگر دوگنا ہگار شود اما راجح آنست کہ نماز دریں صورت ہم از دست نرود سجدہ سہو واجب شود
فی الدرالمختار سھا عن القعود الاولی من الفرض ولو عملیاثم تذکرہ عادالیہ ولاسہو علیہ فی الاصح مالم یستقم قائما فی ظاھر المذھب وھو الاصح فتح، وان استقام قائما لایعود فلو عاد لا تفسد لکنہ یکون مسیئا ا ویسجد لتاخیر الواجب وھوالاشبہ کما حققہ الکمال وھوالحق بحر ۱؎ اھ مختصرا
جو شخص فرض یا وتر میں پہلا قعدہ بھول کر کھڑا ہونے لگے اگر وہ سیدھا کھڑا نہیں ہوا تو واپس لوٹ آئے اب اگر وہ قعود کے قریب تھا تو سجدہ سہو لازم نہ ہوگا اور اگر قیام کے قریب تھا توسجدہ سہو لازم ہوگا کہ جب تک انسان کا نیچے والا حصہ سیدھا نہ ہو وہ بیٹھنے کے قریب ہوتا ہے اور اگر نیچے والا نصف حصہ سیدھا ہوجائے خواہ ابھی پشت ٹیڑھی ہو وہ کھڑا ہونے کے قریب ہوگا، اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو اب بیٹھنا جائز نہیں ، اب اگر پہلے قعدے کی طرف لوٹ آتا ہے تو گنہگار ہوگا، اور راجح یہ ہے کہ اس کی نماز ختم نہ ہوئی اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا، درمختار میں ہے اگر فرض ( اگر چہ عملی ہوں) کے پہلے قعدے کو بھول گیا پھر اسے یاد آیا اور لوٹ آیا تو اب اصح قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو نہیں بشرطیکہ وہ سیدھا کھڑا نہ ہوا یہی ظاہر مذہب ہے اور یہی اصح ہے فتح۔ اور اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو نہ لوٹے اگر لوٹ آیا تو نماز فاسد نہ ہوگی لیکن گناہگار ہوگا اور تاخیر واجب کی وجہ سے سجدہ کرے اور یہی مختار ہے جیسا کہ اس کی تحقیق کمال نے کی ہے اوریہی حق ہے بحر اھ مختصر۔
(۱؎ درمختار باب سجودالسہو مطبوعہ مجتبائی دہلی ۱/۱۰۲)
وفی ردالمحتار قولہ ولاسھو علیہ فی الاصح یعنی اذا عاد قبل ان یستتم قائما وکان ای القعود اقرب فانہ لاسجود علیہ فی الاصح وعلیہ الاکثر ۱؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
ردالمحتار میں ہے قولہ اصح قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو نہیں یعنی جب کہ وہ سیدھا کھڑے ہونے سے پہلے لوٹا حالانکہ وہ قعود کے قریب تھا تو اب اس پر اصح قول کے مطا بق سجدہ نہیں اور اکثر فقہاء کی یہی رائے ہے۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم
(۲؎ ردالمحتار باب سجود السہو مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۵۰)