Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
40 - 144
مسئلہ ۱۲۴۰: ۲۴ربیع الاول شریف ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ اما م کو سہو ہوا یعنی کھڑا ہونا تھا بیٹھ گیا یا برعکس اس کے ، تو کوئی مقتدی بجائے تسبیح (سبحان اﷲ ) كے  تکبیر ( اﷲ اکبر) کہہ دے تو نماز میں اس کی کچھ قباحت و خرابی نہیں آئے گی، اور جو شخص یہ کہے کہ امام کو اگر قعدہ کرنا ہے تو لفظ التحیات کہنا چاہئے اور جو قیام کرنا ہے تو  اﷲ اکبر ، یعنی جونسا رکن کرنا ہے اس میں کا پہلا لفظ کہنا چاہئے ۔ صحیح ہے یا غلط؟
الجواب

نماز میں اﷲ اکبر  یا التحیات کہنے سے خرابی نہیں، اور سنت سبحان اﷲ کہنا ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۴۱: از پنڈول بزرگ ڈاک خانہ رائے پور ضلع مظفر پور    مسئولہ نعمت شاہ خاکی بوراہا ۹محرم الحرام   ۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین شرع متین کثر ہم اﷲ ابقاہم ، کا اس مسئلہ میں کہ کوئی شخص انتہائی سہو و نسیان کی وجہ سے کوئی بات ٹھکانے سے یاد نہیں رکھتاہے یہاں تک کہ نماز کے لئے جب وضو کرتا ہے تو ایک ایک اعضاء کو دس دس مرتبہ دھوتا ہے اور  پھر بھی اس کو خیال ہوتا ہے کہ دو ہی مرتبہ یا ایک مرتبہ دھویا ہے نماز کے لئے کھڑا ہوا تو تکبیر تحریمہ پانچ پانچ مرتبہ کہی چار رکعت پڑھیں دورکعت خیال کیں علٰی ھذا القیاس تسبیح رکوع وسجود میں غرضیکہ دنیوی کاموں میں بھی مثلاً کوئی چیز کہیں رکھ دی یا کسی کو دے دی پھر خیال جو کیا اس کے خلاف ہوا، ایسی حالت میں اس شخص نے ایک آدمی اس کے ارکان و تسبیح و رکعت وغیرہ شمار کرنے کے لئے مقرر کیا تاکہ وہ گن کر بتادے آیا یہ جائز ہے یا نہیں؟ اور وہ شخص ایسے سہو ونسیان کی حالت میں ان سب باروں میں کیاکرے؟
الجواب

آدمی مقرر کرنا جائز نہیں ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۴۲:  وکیل الدین طالب علم مدرسہ منظر الاسلام بریلی ۱۰ محرم الحرام ۱۳۳۹ھ

اگر امام نے رکعت ثانیہ میں سہو سے تین سجدے کئے اور اس کو ظن غالب دو سجدوں کا تھا و تاخروج عن الصلوٰۃ امام کو بالکل یاد نہ ہوا، مقتدیان بہت تھے  یعنی  تین صف میں سے ہر صف میں  ۲۶،۲۵ اشخاص تھے لیکن امام کو کسی نے یاد کرایا نہیں، اب نماز  امام  و قوم کی صحت وعدم صحت کی وجہ کیا ہے؟
الجواب

فرض ادا ہوگیا ، واجب ترک ہوا، سجدہ سہو لازم تھا، نمازیں پھیریں اتنے آدمی، ایسی کثیر جماعت نہیں جس کے سبب سجدہ سہو ساقط ہو۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۴۳: ضلع سکّھر سندھ اسٹیشن ڈھرکی ڈاکخانہ خیر پور ڈھرکی خاص دربار معلی قادریہ چونڈے شریف از طرف ابوالنصر فقیر سرور شاہ ۱۷جمادی الآخر 

ما قولکم رحمکم اﷲ تعالٰی کہ شخصے رادرنماز مغرب سجدہ سہو لازم  بودنہ داد جبر نقصان گزارد یانہ، اگر گزرد چگونہ نیت بندد و چند رکعت گزارد وہمیں جبر نقصان حکم نفل دارد یا واجب یا فرض؟

اس بارے میں آپ ( اﷲ تعالٰی آپ پر رحمتیں نازل فرمائے) کا کیا فرمان ہے کہ ایک شخص پر نماز مغرب میں سجدہ سہو لازم ہوگیا مگر اس نے نہ کیا اب نقصان کا ازالہ کرے یا نہ ؟ اگر کرنا ہے تو کس نیت سے؟ کتنی رکعات اداکرے اور یہ ازالہ نفل کا حکم رکھتا ہے یا واجب و فرض کا ؟ (ت)
الجواب

جبر نقصان واجب است سہ رکعت بہ نیت اعادہ ہماں نماز مغرب برائے تلافی مافات کند ۔ واﷲ تعالٰی اعلم

نقصان کا اعادہ لازم ہے  پھر دوبارہ تین رکعت اس نیت سے ادا کرے کہ میں کمی کا ازالہ کررہا ہوں، واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
مسئلہ ۱۲۴۳تا۱۲۴۵: از مدرسہ اہلسنت منظرالاسلام بریلی مسئولہ مولوی عبداﷲ بہاری۳ شوال۱۳۳۹ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں :

(۱) فرضوں کی تیسری یا چوتھی رکعت میں بعد الحمد شریف کے کسی آیت کا پورا  یا نصف لفظ زبان سے نکل گیا یا رکوع میں سہواً ایک بار سبحان ربی الاعلٰی کہہ دیا، اسی طرح سجدہ میں اور اسی طرح فرضوں کی پہلی رکعت میں جبکہ مقتدی ہے سبحٰنک کے بعد اعوذباﷲ شریف پڑھ لی تو کیا الحمد شریف کا پڑھنا بھی ضرور ہوگا اور اوپر کی صورتوں میں سجدہ سہو  ہوگا یا نہیں؟

(۲) جماعت میں امام نے سمع اﷲ لمن حمدہ کی جگہ اﷲ اکبر کہا اور سجدہ سہو نہیں کیا، کیا نماز ہوئی یا نہیں؟

(۳) فجرکے فرضوں میں دوسری رکعت کے بعد اور دیگر وقتوں میں چوتھی رکعت کے بعد امام یا منفرد التحیات پڑھنی بھول کر کھڑا ہوگیا، اب اس کو کیا کرنا چاہئے ؟ بینوا توجروا
الجواب

(۱) ان میں سے کسی صورت میں سجدہ سہو نہیں اور مقتدی کو الحمد شریف پڑھنا حرام ہے۔ واﷲ تعالٰی اعلم

(۲) نماز ہوگئی اور سجدہ سہو کی اصلاً حاجت نہیں۔ واﷲ تعالٰی اعلم

(۳) جبکہ قعدہ اخیرہ بھول کر زائد رکعت کے لئے کھڑا ہوا تو جب تک اس رکعت زائدہ کا سجدہ نہیں کیا ہے بیٹھ جائے اور التحیات پڑھ کر سجدہ سہو کرے، اور اگر اس نے رکعتِ زائد ہ کا سجدہ کرلیا تو اب فرض باطل ہوگئے  پھرسے پڑھے ۔       واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۴۶: ا زپنڈول بزرگ ڈاکخانہ رائے پور ضلع مظفر پور مسئولہ نعمت شاہ خاکی بوراہا  ۱۱محرم الحرام ۱۳۳۹

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص کمال درجہ کا بھول رکھتا ہے نماز کے اندر وضو و تکبیر و رکوع وسجود وقیام بلکہ ہر رکعت نماز پنجوقتی میں بھول کے خوف سے بلند قرأت کے ساتھ پڑھتا ہے تاکہ ہم بھول نہ جائیں، کتنا ہی وہ شخص دل میں خیال وغور کرکے پڑھتاہے تاہم بھول جاتا ہے کچھ بھی خیال نہیں رہتا ہے اور وہ شخص جب نماز پڑھنے لگتا ہے تو ایک شخص کو اس غرض سے بٹھاتا ہے کہ جو کچھ سہو واقع ہو اس کوبتلاتا جائے اس شخص کو نماز کے اندر بہت پریشانی ہوتی ہے اس کے علاوہ وہ کہتا ہے کہ نماز چھوڑدوں پھر کہتا ہے کہ نماز کس طرح چھوڑوں، اور وہ شخص بہت تندرست اور مستقل مزاج ہے ،ایسی حالت میں اس شخص کے بارے میں کیا حکم ہے؟ بینوا توجروا۔
الجواب

کسی شخص کو پاس بٹھا لینا اور اس کے بتانے پر نماز پڑھنا نماز باطل کرے گا، فجر و مغرب وعشاء میں منفرد کو بآواز پڑھنے کی اجازت ہے، ظہر و عصر میں صحیح مذہب پر اجازت نہیں، چارہ کار یہ ہے کہ وہ شخص جماعت میں مقتدی ہو کر پڑھے تو مقتدی کو قرا ت کرنی نہ ہوگی اور امام کے افعال اسے بتانے اور یاد دلانے والے ہوں گے، جماعت ویسے بھی واجب ہے، اور ایسے شخص پر تو نہایت اہم واجب ہے کہ بغیر اس کے اس کی نماز ٹھیک ہی نہیں، سنتیں اور نفل جو پڑھے ان میں کسی شخص کو امام کرلے کہ نفل محض میں تین  تك جماعت جائز ہے، اور جب کوئی شخص امامت کو نہ ملے اپنی یاد پر پڑھے رکعتوں میں اگر شبہہ ہو تو کم سمجھے، مثلاً ایک اور دو میں شبہہ ہو تو ایک سمجھے اور دو اور تین میں ہو تو دو، اور جہاں جہاں قعدہ اخیرہ کا شبہہ ہو تو وہاں بیٹھتا جائے اور اخیر میں سجدہ سہو کرے اور اگر کسی طرح اپنی یاد سے نماز ادا کرنے پر قادر ہی نہ ہو تو معاف ہے،
درمختار میں ہے:
 ( ولو اشتبہ علی مریض اعداد الرکعات والسجدات لنعاس یلحقہ لایلزمہ الادا ٕ) و لواداھا بتلقین غیرہ ینبغی ان یجزیہ کذافی القنیۃ ۱؎
 ( اگر کسی مریض پر بسبب اونگھ کے جو اسے لاحق ہوتی ہے رکعات وسجدوں کی تعداد میں اشتباہ  پیدا ہوگیا تو اس پر ادائے نماز لازم نہیں) اور اگر غیر کی تلقین کی بنا پر انھیں ادا کرلیا تو چاہئے کہ یہ اسے کافی ہو جیسا کہ قنیہ میں ہے،
 (۱؎ درمختار            باب صلوٰۃ المریض    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۱۰۴)
قال العلامۃ ط قد یقال انہ تعلیم وتعلم وھو مفسد کما اذا قرأمن المصحف او علمہ انسان القرأۃ  و ھو فی الصلاۃ ۲؎
علامہ طحطاوی نے فرمایا اس پر یہی اعتراض کیا گیا ہے کہ یہ تعلیم وتعلم ہے جو کہ مفسد نماز ہوتا ہے جیسے کہ کسی آدمی نے مصحف سے  پڑھا یا اسے دوسرے آدمی نے قرأت سکھادی حالانکہ وہ نماز میں تھا،
 (۲؎ حاشیہ الطحطاوی علی الدرالمختار    باب صلوٰۃ المریض    مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت    ۱ /۳۱۹)
قال العلامۃ ش قالت وقد یقال انہ لیس بتعلیم وتعلم بل ھو تذکیر  او اعلام فھوکا علام المبلغ بانتقالا ت الامام فتأمل ۳؎ اھ
علامہ شامی نے فرمایا میں کہتا ہوں کہ کہا گیا ہے کہ تعلیم و تعلم نہیں بلکہ یاد دلانا اور اطلاع کرنا ہے پس یہ اسی طرح ہے جس طرح بڑے مجمع میں امام کے انتقالات کی اطلاع دینے والا ہوتا ہے فتامل اھ
 (۳؎ ردالمحتار            باب صلوٰۃ المریض    مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱ /۵۶۲)
و رأیتنی کتبت علیہ مانصہ اقول فیہ ان الفتح لایزید علی التذکیر بشیئ وقد قال قوم  وصح ان المقتدی اذا فتح علی امام بعد ما قرأ قدرالواجب تفسد صلٰوتہ لانہ تعلیم من دون ضرورۃ فان اخذبہ الامام فسدت صلٰوۃ الکل لانہ تعلم من دون ضرورۃ والقائلون بالجواز  ( وھو  المعتمد) انما اعتمد واعلی انہ للحاجۃ کما بینہ فی الحلیۃ مع الا اعتراف بانہ تعلیم وتعلم انی استشھد بخلافہ الیسوا قد اجمعوا أن لو فتح علی المصلی غیرہ فاخذ فسدت صلٰوتہ، وقد مرالتنصیص علی کل ذلک والاستشھادبالمبلغ لم یصادف محلہ فانھم جمیعا حینئذ فی صلٰوۃ واحدۃ فالصواب عندی الجواب بان ھذا لضرورۃ وھی تجلب التیسیر وبعد فیہ بعد کیف ولوجاز ( ھذا ) کان ینبغی ان یلزمہ الاداء کما یلزمہ التوجہ اذا وجد من یوجھہ ففی تجویزہ ابطال اصل المسئلۃ المنقولۃ فلا عبرۃ ببحث القنیۃ ۱؎
میں نے وہاں یہ حاشیہ تحریر کیا ہے اقول اس میں لقمہ دینا یاد دلانے سے زائد نہیں ہوتا اور ایک جماعت نے کہا کہ صحیح یہ ہے کہ مقتدی جب اپنے امام کو قدر واجب قرأت کے بعد لقمہ دے تو اس مقتدی کی نماز فاسد ہوجاتی ہے کیونکہ یہ بغیر ضرورت کے تعلیم ہے ایسی صورت میں اگر امام نے لقمہ لے لیا تو سب کی نماز فاسد ہوگی کیونکہ یہ بغیر ضرورت کے تعلم ہے اور جو جواز ( اور معتمد بھی یہی ہے ) کے قائل ہیں انھوں نے اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ یہ ضرورت کی وجہ سے ہے جیسا کہ حلیہ میں بیان کیا گیا ہے باوجود اس اعتراف کے کہ تعلیم وتعلم ہے، میں اس کے خلاف شہادت پیش کرتاہوں ، کیا فقہاء کا اس پر اجماع نہیں کہ اگر غیر نمازی نے نمازی کو لقمہ دیا اور اس نے قبول کرلیا تو نماز فاسد ہوجائیگی اور اس تمام گفتگو پر پہلے تصریحات گزر چکی ہیں اور مقتدی مکبر کو بطور استشہاد پیش کرتا ہے اپنے محل پر نہیں کیونکہ مذکور صورت میں تمام کی نماز ایک ہے لہذا میرے نزدیک درست جواب یہ ہے کہ یہ ضرورت ہے جو آسانی کا تقاضا کرتی ہے اور ابھی اس میں بُعد ہے ، کیسے ہوسکتا ہے حالانکہ یہ جائز ہو تو مناسب تھا کہ اس  پر  ادا لازم ہو جس طرح تو جہ دلانے والے کی موجودگی میں توجہ کرنا لازم ہے لہذا اس کے جواز میں اصل منقول مسئلہ کا ابطال لازم آتا ہے اس لئے قنیہ کی بحث کا اعتبار نہیں ہوگا
 (۱؎ جدالممتار علٰی ردالمحتار    باب صلوٰۃ المریض    المجمع الاسلامی مبارك پور     ۱/۳۵۴)
وقد یقال عن ھذا الاخیرانہ قادر بقدرۃ غیرہ فلا یلزمہ وان فعل صح فلیتأمل حق التأمل۔ واﷲ تعالٰی اعلم
اور اس آخری مسئلہ ( جو اپنے آپ نماز درست نہیں کرسکتا ) کے بارے میں کہا گیا ہے کہ چونکہ یہ دوسرے کی قدرت سے قادر ہوتا ہے اس لئے اس پر نماز کی صحت لازم نہیں اور اگر اس نے غیر سے اصلاح لے لی تو صحیح ہے، اس میں مکمل غور کرو، (ت) واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter