Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
4 - 144
اقول  : ویو ضحہ قول الھدایۃ و الھندیۃ یصلی رکعتی الفجر عند باب المسجد ثم یدخل ۔۳؎
اقول (میں کہتا ہوں) ہدایہ اور ہندیہ کے الفاظ نے واضح کردیا ہے کہ وہ فجر کی سنتیں مسجد کے دروازے پر  پڑھ کر مسجد میں داخل ہو۔(ت)
(۳ ؎ الھدایۃ   باب ادراک الفریضۃ مطبوعہ المکتبۃ العربیہ کراچی       ۱/ ۱۳۲۷ )
امام ابوالبر کات(۸) حافظ الدین نسفی کافی شرح میں فرماتے ہیں:
الافضل فی السنن المنزل ثم باب المسجد ان کان الامام یصلی فی المسجد ثم المسجد الخارج ان کان الامام یصلی فی الداخل اوالداخل ان کان فی الخارج ا؎ اھ ملخصاً
سنتوں کے لئے افضل مقام گھر  ہے اور  اگر  امام  مسجد میں جماعت کروارہا ہو تو مسجد کا دروازہ بہتر مقام ہے، اگر امام داخل مسجد میں جماعت کروا رہا ہو تو  پھر خارج مسجد اسی طرح امام خارج مسجد ہو تو سنتوں کے لئے داخل مسجد بہتر ہے اھ تلخیصاً (ت)
(۱؎ کافی شرح وافی)
(۹)محقق علاّمہ زین بن نجیم مصری بحرالرائق  پھر (۱۰)علامہ سیّدی احمد طحطاوی حاشیہ درمختار میں فرماتے ہیں:
السنۃ فی السنن انیاتی بھا فی بیتہ او عند باب المسجد وان لم یمکنہ ففی المسجد الخارج۲؎ الخ
سنتّوں کے لئے سنت یہ ہے کہ انھیں گھر میں ادا کرے یا مسجد کے دروازے کے  پاس ،اور اگر  وہاں ممکن نہ ہو تو پھر صحنِ مسجد میں ادا کرے الخ (ت)
(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی الدرالمختار    باب ادراک الفریضہ    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت      ۱/۳۰۰)
 (۱۱) منیہ و شرح (۱۲) صغیر منیہ للعلامہ ابراہیم الحلجی میں ہے:
ۤ(السنۃ) المؤکدۃ (فی سنۃ الفجر) ھو ان لایاتی بھا مخالطاللصف ولاخلف الصف من غیر حائل و (ان یاتی بھا) اما (فی بیتہ)  وھو الافضل)او عند باب المسجد) ان امکن بان کان ھناک موضع لائق للصلاۃ (وان لم یمکنہ) ذلک (ففی المسجدالخارج) ان کانوا یصلون فی الداخل و بالعکس ان کان ھناک مسجدان صیفی وشتوی۳؎ اھ
 (سنّت) مؤکدہ ( فجر کی سنتوں میں) یہ ہے کہ انھیں صف کے متصل اور بغیر  رکاوٹ کے صف کے  پھیچے بھی ادا نہ کرے (انھیں بجالائے) یا (گھر میں) اور  یہی افضل طریقہ ہے ،یا (مسجد کے دروازے کے پاس) اگر ممکن ہو یعنی اگر وہاں نماز ادا کی جا سکتی ہو (اور اگر ممکن نہ ہو) یہ بات (تو پھر صحنِ مسجد میں )اگر لوگ داخل مسجد نماز ادا کررہے ہوں اور عکس کی صورت میں عکس ہوگا اگر وہاں دومساجد صیفی اور شتوی ہیں اھ (ت)
) ۳؎ صغیری شرح منیۃ المصلی   فصل فی النوافل  مطبوعہ مجتبائی دہلی بھارت        ۱/۲۰۴(
امام محقق (۱۳) علامہ محمد محمد محمد ابن  امیر الحاج حلبی حلیہ میں اسی قول منیہ کے نیچے فرماتے ہیں ،
المسجد الخارج صحن المسجد۴؎ اھ
(مسجد خارج سے مراد صحنِ مسجد ہے اھ۔ت)
) ۴؎ التعلیق المجلی لمافی منیۃ الصلی بحوالہ حلیہ امیرالحاج مع منیۃ المصلی فصل فی السنن مطبوعہ مکتبہ قادریہ لاہور ص ۳۹ ۴(
دیکھو اول کی سات کتابوں میں صیفی و شتوی دونوں کو مسجد فرمایا اور آٹھ سے گیارہ تک چار کتابوں میں انھیں مسجد داخل ومسجد خارج سے تعبیر کیا ۔ صغیری نے ان عبارات شتی کا مصداق واحد ہونا ظاہر کردیا، اور حلیہ میں تصریح فرمادی کہ مسجد بیرونی صحنِ مسجد کا نام ہے ، تو صاف واضح ہوگیا کہ صحنِ مسجد قطعاً مسجد ہے جسے علماء کبھی مسجد صیفی اور کبھی مسجد الخارج سے تعبیر فرماتے ہیں والحمدﷲعلٰی وضوح الحق (حق کے واضح ہو جانے پر اﷲ کی حمد ہے۔ ت) ان نصوص صریحہ کے بعد اُن استنبا طول کی حاجت نہ تھی مگر کیا کیجئے کہ فقیر انھیں پہلے ذکر کرچکا تھا معہذااُن کے ابقا میں طالبان علم وخادمانِ فقہ کی منفعت کہ اقوال علماء سے ا ستنباطِ مسائل کا طریقہ دیکھیں وباﷲالتوفیق اب کہ بحمد اﷲکا لشمس علٰی نصف النہار واضح و آشکار ہوگیا کہ صحنِ مسجد بالیقین جزءِ مسجد ہے تو اس کے لئے تمام احکام ِ مسجد آپ ہی ثابت، جن کا ثبوت صحن پر نمازیں پڑھے جائے خواہ کس شرط پر اصلاًموقوف نہیں کہ مسجد مذہب راجح  پر  واقف کے صرف اس کہنے سے کہ میں نے ا س زمین کو مسجد کیا اور دوسرے مذہب پر ایک قول مصحح ظاہر الروایہ میں دو آدمیوں کی جماعت بااذان واقامت بلکہ واقف کے سوا  ایک  ہی شخص کی اذان و اقامت ونماز برہیئتِ جماعت اور ایک قول ظاہر ا الروایہ میں سوائے واقف ایک ہی آدمی کی منفرداً نماز پڑھ لینے سے بجمیع اجزاہۂ مسجد ہو جاتی ہے تو ہر ہر جزء میں جدا گانہ نماز ہونے کی بالاجماع حاجت نہیں، مذہب اول پر تو خود ظاہر کہ مطلقاً نماز کی شرط ہی نہیں صرف قول کفایت کرتا ہے اور ثانی پر  بھی واضح کہ منفرد کی نماز زیادہ دو شخصوں کی جماعت ہر پارہ مسجد کوشامل نہیں ہو سکتی کما لایخفی فوضح المقصود والحمدﷲالعلی الودود (جیسا کہ واضح ہے تمام حمد اﷲ تعالٰی کے لئے جو بلند اور محبت کرنے والا ہے۔ت)
تنویر الابصار و درمختارو ردالمحتار میں ہے:
یزول ملکہ عن المسجد بقولہ جعلتہ مسجد اعند الثانی(وفی الدرالمنتقی و قدم فی التنویر والدرروالوقایۃ وغیرھا قول ابی یوسف وعلمت ارجحیتہ فی الوقف والقضاء اھ ش) و شرط محمد و الامام الصلٰوۃ فیہ بجماعۃ(واشتراط الجماعۃلانھا المقصودۃ من المسجد، ولذاشرط ان تکون جھرا باذان واقامۃ والالم یصر مسجد ا قال الزیلعی: وھذہ الروایۃ ھی الصحیحۃ وقال فی الفتح: ولو اتحد الامام والمو،ذن وصلی فیہ وحدہ صار مسجد االاتفاق لان الاداء علی ھذاالوجہ کا لجماعۃ، لکن لوصلی الواقف وحدہ فا لصحیح انہ لا یکفی اھ ش) وقیل: یکفی واحد و جعلہ فی الخانیۃ ظاھر الروایۃ (وعلیہ امتون کا لکنزوالملتقی وغیرھما وقد علمت تصحیح الاول وصححہ فی الخانیۃ ایضاً وعلیہ اقتصر  فی کافی الحاکم فھو ظاھر الروایۃ ایض اھ ش)  ۱؎ (مختصرا) واﷲسبحٰنہ وتعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔
اس کی ملکیت مسجد سے ان الفاظ سے زائل ہو جاتی ہے کہ میں نے اسے مسجد بنادیا ہے یہ ثانی امام (ابویوسف) کے نذدیک ہے (الدرالمنتقی میں ہے کہ تنویر، درر اور وقایہ وغیرہ میں قول ابو یوسف کو مقدم  ذکر کیا ، اور آپ جانتے ہیں کہ ان کا قول وقف اورقضاء میں راجح ہے اھ ش) امام محمد اور امام صاحب نے اس میں جماعت کے ساتھ نماز کو بھی لازم و شرط قراردیا ہے(جماعت کا شرط قرار دینا اس لئے ہے کہ مسجد سے مقصود ہی یہی ہے اسی لئے یہ شرط ہے

کہ وہا ں اذان و اقامت بلند آواز سے ہو ں ورنہ وہ مسجد قرار ہی نہ پائے گی۔ امام زیلعی کہتے ہیں کہ یہ روایت صحیح ہے ، اورکہا کہ فتح میں ہے کہ اگر امام اور مؤذن ایک ہی آدمی تھا اور اس نے وہا ں تنہا نماز ادا کی تو وہ بالاتفاق مسجد ہی قرار دی جائے گی کیونکہ اس طریقہ پر ادائیگی جماعت ہی کی طرح ہے لیکن اگر وقف کرنے والے نے فقط نماز ادا کی تو صحیح یہی ہے کہ یہ کافی نہیں ا ھ ش) ایک قول یہ ہے کہ ایک آدمی کا نماز  ادا کرلینا بھی کافی ہے اور اسے خانیہ نے ظاہر الروایہ قرار دیا ہے (اور متون میں یہی ہے جیسے کہ کنز ، ملتقی وغیرہ ،اور آپ اول کی تصحیح جان ہی چکے ، اور اسی کو خانیہ نے صحیح کہا ، اور حاکم نے کافی میں اسی  پر اقتصار کیا ، پس یہی ظاہر روایت ہے ایضاً اھ ش) مختصراً۔ واﷲسبحٰنہ و تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم(ت)
(۱؎ ردالمحتارعلی ا لدرارلمختارشرح تنویر الابصار    کتاب الوقف    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۴ /۳۵۵)
Flag Counter