Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
39 - 144
مسئلہ ۱۲۳۴: از رامپور مسئولہ محمد سعید صاحب

اگر امام  پر سہو واجب ہو تو امام کے ساتھ لاحق کو سجدہ کرنا چاہئے یا نہیں اور جو مصلی بعد اس سجدہ سہو امام کے ساتھ شریک ہووے ان کی نماز کا بنا صحیح ہے یا نہیں؟
الجواب

امام کے سہو سے لاحق  پر بھی سجدہ سہو  واجب ہوتا ہے مگر امام کے ساتھ نہ کرے بلکہ نماز  پوری کرکے، ہاں اگر سلام امام سے پہلے فوت شدہ نماز  پوری کرکے  پھر شامل ہوگیا کہ امام کے ساتھ سلام  پھیرا تو امام کے ساتھ ہی سجدہ سہو کرے ورنہ بعد اتمام ۔ اگر قبل اتمام کے سجدہ سہو کرلے گا نماز تو نہ جائے گی مگر یہ سجدہ بےکار جائے گا اور خلاف حکم کا مرتکب ہوگا اور  بعد اتمام  پھر سجدہ سہو کرنا ہوگا،
درمختار میں ہے :
اللاحق یسجد فی اٰخر صلٰوتہ ولو سجد مع امامہ اعادہ  ۱؎۔
لاحق اپنی نماز کے آخرمیں سجدہ کرے اور اس نے امام کے ساتھ سجدہ کرلیا تو  پھر دوبارہ لوٹا ئے ۔(ت)
 (۱؎ درمختار    باب سجود السہو        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی   ۱ /۱۰۲)
ردالمحتار میں ہے:
لانہ فی غیرا وانہ ولا تفسد صلٰوتہ لانہ مازادالا سجدتین  ۲؎۔
کیونکہ یہ اپنے وقت پر نہیں ، البتہ نماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ اس نے دو سجدوں کے علاوہ کسی شی کا اضافہ نہیں کیا ۔ (ت)
 (۲؎ ردالمحتار    باب سجود السہو  مطبوعہ مصطفی البابی مصر    ۱/ ۵۴۹)
جو مصلی سجدہ سہو کے بعد قعدہ میں شریکِ امام ہوئے شریکِ جماعت ہوگئے ان کی بنا صحیح ہے با تفاقِ ائمہ
وانماا لخلاف فی الجمعۃ والمذھب فیہ ایضا الصحۃ۔
اختلاف فقط جمعہ میں ہے اور اس میں بھی مذہب یہی ہے کہ یہ صحیح ہے ۔(ت)
درمختار میں ہے :
ادرکھا فی تشھد او سجود سھو ( ولو فی تشھدہ ش عن ط) یتمھا جمعۃ خلافا لمحمد کما یتم فی العید اتفاقا کما فی عید الفتح ۳؎ ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
اگر کسی نے امام کو تشہد یا سجود سہو میں پالیا ( اگر چہ تشہد جمعہ ہو، ش از ط) تو جمعہ ادا کرے البتہ امام محمد رحمہ اﷲ تعالٰی کا اس میں اختلاف ہے جیسا کہ عید کو اگر تشہد میں پالیتا ہے تو بالاتفاق عید ہی ادا کرے (فتح القدیر باب العید) واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
 (۳؎ درمختار    باب الجمعۃ          مطبوعہ  مطبع مجتبائی دہلی    ۱/۱۱۳)
مسئلہ۱۲۳۵ : از چوہر کوٹ بارکھان ملک بلوچستان    مرسلہ قادربخش صاحب    ۴ربیع الاول شریف ۱۳۳۷ھ

چہ می فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ کہ در سجدہ سہو سلام بہر دوجانب گوید یا یکے جانب اگر امام باشد یا مفرد بکدام روایت فتوٰی است۔

علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ سجدہ سہو کے لئے دونوں جانب سلام کہنا ہوتا ہے یا فقط ایک جانب امام ہو یا منفرد، کس روایت پر فتوی ہے (ت)
الجواب

سلام ہمیں جانب راست دہد امام باشد خواہ منفرد تا  آنکہ گفتہ اند کہ اگر سلام دیگر دہد سجدہ سہو ساقط شو د وبزہ کارگردد۔ واﷲ تعالٰی اعلم

فقط  دائیں جانب سلام کہنا ہوتا ہے خواہ امام ہو یا منفرد ، حتی کہ فقہاء نے فرمایا ہے کہ اگر دوسری جانب سلام کہتا ہے تو سجدہ سہو ساقط اور ایسے عمل سے گنہگار ہوگا ۔ (ت) واللہ تعالی اعلم
مسئلہ۱۲۳۶: از جڑدہ ضلع میرٹھ مسئولہ سید سراج احمد صاحب ۱۲ شعبان ۱۳۳۷ھ

چار رکعت والی نماز میں امام دو رکعات کے بعد بیٹھا اور التحیات کے بعد درود شریف شروع کردیا مقتدی کو معلوم ہوگیا ، ایسی حالت میں مقتدی امام کو اشارہ کرسکتا ہے یا نہیں؟ اور اگر کرسکتا ہے تو کس طرح سے؟
الجواب

اُس کا معلوم ہونا دشوار ہے کہ امام آہستہ پڑھے گا، ہاں اگر یہ اتنا قریب ہے کہ اس کی آواز اس نے سنی کہ التحیات کے بعد اس نے درود شریف شروع کیا تو جب تک امام اللھم صل علٰی سے آگے نہیں بڑھا ہے یہ سبحان اﷲ کہہ کربتائے اور اگر اللھم صل علی سیدنا یا صل علی محمد کہہ لیا ہے تو اب بتانا جائز نہیں بلکہ انتظار کرے ، اگر امام کو خود یاد آئے اور کھڑا ہوجائے فبہا اور اگر سلام پھیرنے لگے تو اس وقت بتائے ، اس سے پہلے بتائے گا تو بتانے والے کی نماز جاتی رہے گی اور اس کے بتانے سے امام لے گا تو اس کی اور سب کی جائے گی۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۳۷: از بریلی مدرسہ منظر الاسلام    مسئولہ مولوی احسان علی صاحب طالبعلم  ۱۱شوال ۱۳۳۷ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ وتر میں قبل دعائے قنوت کے سہواً رکوع کیا اور دو ایک تسبیح بھی پڑھ چکا اب خیال ہوا کھڑے ہوکر قنوت پڑھی تو اس صورت میں سجدہ سہو لازم ہے یا نہیں؟
الجواب

تسبیح پڑھ چکا ہو یا ابھی کچھ نہ پڑھنے  پایا اسے قنوت پڑھنے کے لئے رکوع چھوڑنے کی اجازت نہیں اگر قنوت کے لئے قیام کی طرف عود کیا گناہ کیا پھر قنوت پڑھے یا نہ پڑھے اس پر سجدہ سہو ہے۔
درمختار میں ہے:
ولونسیہ القنوت ثم تذکرہ فی الرکوع لا یقنت فیہ لفوات محلہ ولا یعود الی القیام ، فان عادالیہ وقنت ولم یعد الرکوع لم تفسد صلٰوتہ، وسجد للسھو قنت اولا لزوالہ عن محلہ  ۱؎ اھ ( ملخصا)
اگر نمازی قنوت پڑھنا بھول گیا پھر اسے رکوع میں یاد آیا وہ اب قنوت نہ پڑھے کیونکہ اپنے محل سے فوت ہوگئی ہے اور نہ اب قیام کی طرف لوٹے، اگر لوٹ کر قنوت پڑھی اور رکوع دوبارہ نہ کیا تو اس کی نماز فاسد نہ ہوگی وہ سجدہ سہو کرے خواہ اس نے قنوت پڑھی یا نہ پڑھی کیونکہ قنوت اپنے مقام سے ہٹ گئی اھ (تلخیصاً)
 (۱؎ درمختار        باب الوتر والنوافل    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی    ۱ /۹۴)
اقول وقولہ ولم یعد الرکوع ای ولم یرتفض بالعود للقنوت لا ان لو اعادہ فسدت لان زیادۃ مادون رکعۃ لاتفسد نعم لا یکفیہ اذن سجود السھو لانہ اخرالسجدۃ بھذا الرکوع عمدا فعلیہ الاعادۃ سجد للسھو او لم یسجد ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
اقول ، قولہ اور اس نے رکوع دوبارہ نہ کیا یعنی اس نے قنوت کی خاطر لوٹنے میں رکوع ترک نہ کیا ہو ، یہ معنی نہیں کہ اگر اس نے رکوع لوٹا لیا تو نماز فاسد ہوجائیگی کیونکہ رکعت سے کم کا اضافہ فاسدنہیں کرتا، ہاں اب سجدہ سہو کافی نہیں کیونکہ اس نے عمداً سجدہ کو رکوع کی وجہ سے مؤخر کیا ، پس اب اس نماز کا اعادہ لازم ہے خواہ اس نے سجدہ سہو کیا یانہ کیا۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
مسئلہ ۱۲۳۸،۱۲۳۹: ازمانیا والا ڈاک خانہ قاسم پور گڈھی ضلع بجنور مرسلہ سید کفایت علی صاحب ۳ ربیع الاول شریف   ۱۳۳۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ :

(۱) امام کی نیت چار فرضوں کی تھی دو رکعت اولٰی ختم کرچکا تھا بیچ میں التحیات بھول گیا اور اﷲ اکبر کہہ کر کھڑا ہوگیا، بعد کو مقتدی نے بتایا وہ بیٹھ گیا التحیات پڑھی اور آخر میں سجدہ سہو کیا، آیا مقتدی کی امام کی نماز ہوئی یا نہیں؟

(۲) ایک شخص وتر پڑھ رہاتھا تیسری رکعت میں اﷲ اکبر کہہ کر دعائے قنوت کا ارادہ تھا وہ بھول گیا اور بیٹھ کر سجدہ سہو کیا پھر دوبارہ وتر پڑھے پھر وہیں آکر اﷲ اکبر کہنا بھول گیا دعائے قنوت پڑھی سجدہ سہو کیا آیا ہوا یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب

(۱) اگر امام ابھی پورا سیدھا کھڑا  نہ ہونے  پایا تھا کہ مقتدی نے بتایا اور وہ بیٹھ گیا تو سب کی نماز  ہوگئی اور سجدہ سہو کی حاجت نہ تھی اور اگر امام  پورا  کھڑا ہوگیا تھا اس کے بعد مقتدی نے بتایا تو مقتدی کی نماز اسی وقت جاتی رہی اور جب اس کے کہنے سے امام لوٹا تو اس کی بھی گئی اور سب کی گئی۔ اور اگر مقتدی نے اس وقت بتایا تھا کہ امام ابھی پورا سیدھا  نہ کھڑا ہوا تھا کہ اتنے میں پورا سیدھا ہوگیا اس کے بعد لوٹا تومذہب اصح میں نماز ہو تو سب کی گئی مگر مخالف حکم کے سبب مکروہ ہوئی کہ سیدھا کھڑا ہونے کے بعد قعدہ اولٰی کے لئے لوٹنا جائز نہیں، نماز کا اعادہ کریں خصوصاً ایک مذہب قوی پر نماز ہوئی ہی نہیں ، تواعادہ فرض ہے، اسی کی امام زیلعی نے تصریح کی ہے اور یہی مشاہیر کتب میں ہے۔
وما بحث المحقق فی الفتح وتبعہ فی البحر ففیہ بحث بیناہ فیما علقناہ علی ردالمحتار صف ۷۷۹۔ واﷲ تعالٰی اعلم
محقق نے فتح میں بحث کی ہے ، بحر میں اس کی اتباع ہے اور اس میں بحث ہے جو ہم نے ردالمحتار صف ۷۷۹ پر حاشیہ میں تحریر کی ہے۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم
 (۲) پہلی بار کہ دعا قنوت پڑھنا بھول گیا تھا اور سجدہ سہو کرلیا وتر ہوگئے، دوبارہ پڑھنا گناہ ہوا،
حدیث میں ہے:
لاوتران فی لیلۃ ۱؎
(ایک رات  میں دو وتر نہیں، ت) واﷲ تعالٰی اعلم
 (۱؎ مسند احمد بن حنبل    حدیث طلق بن علی    مطبوعہ دارالفکر بیروت  ۴/۲۳)
Flag Counter