(۱۲) امام ملک العلما ابوبکر مسعودبدائع الصنائع فی ترتیب الشرائع جلد اول صفحہ ۱۷۶ میں فرماتے ہیں:
المسبوق انما یتابع الامام فی سجود السھو لا فی سلامہ وان سلم فان کان عامدا تفسد صلٰوتہ وان ساھیا لا تفسدو ولا سھو علیہ لانہ مقتد وسھو المقتدی باطل ۱؎۔
مسبوق سجدہ سہو میں امام کی اتباع کرے لیکن سلام نہ کرے اور اگر اس نے سلام پھیر دیا تو اگر دانستہ تھا تو مسبوق کی نماز فاسد ہوجائے گی اور اگر بھول کرتھا تو نماز فاسد نہ ہوگی اور اس پر سجدہ سہو بھی نہیں کیونکہ وہ مقتدی ہے اور مقتدی کا سہو باطل ہوتا ہے ۔(ت)
(۱؎ بدائع الصنائع فصل بیان من یجب علیہ سجود السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی /۱۷۶)
وہیں فرمایا:
ان سلم قبل تسلیم الامام اوسلما معا لایلزمہ لان سھوہ سھوالمقتدی و سھو المقتدی متعطل ۲؎۔
اگر مسبوق نے امام کے سلام سے پہلے سلام کیا یا دونوں نے اکٹھے سلام کیا تو مسبوق پر سجدہ سہو لازم نہیں کیونکہ اس کا سہو مقتدی کا سہو ہے اور مقتدی کا سہو قابل اعتنا نہیں۔ (ت)
(۲؎ بدائع الصنائع فصل بیان من یجب علیہ سجود السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۷۶)
کیسے نصوصِ جلیلہ ہیں کہ مقتدی کا سہو معطل ہے باطل ہے اس کا کچھ حکم نہیں، اگر اعادہ واجب کرے تو یہ احکام ہی باطل معطل ہوں گے نہ کہ اس کا سہو۔
(۱۴) اقول مسئلہ مسبوق نے حکم کو آفتاب سے زیادہ روشن کردیا، یہ تو تمام کتب میں تصریح ہے کہ مسبوق اگر سہواً امام کے ساتھ سلام پھیر دے اس پر سجدہ سہو نہیں، اگر سہو مقتدی کچھ مؤثر ہوتا تو واجب تھا کہ مسبوق پر سجدہ واجب ہوتا کہ اپنی فائت رکعت پوری کرکے آخرمیں بجالاتا اور اب نہ امام کی مخالفت لازم آتی نہ قلب موضوع، مگر تصریح کرتے ہیں کہ اس پر سے یہ سہو بوجہ اقتداء ساقط ہے تو ثابت ہوا کہ سہو مقتدی اصلاً معتبر وملحوظ ہی نہیں ورنہ باوصف امکان جابر قصداً ترک جابر کرائیں پھر خود ہی اعادہ کا حکم فرمائیں، یہ محال ہے کہ بلاعذر صحیح ترک جابر گناہ ہے،
متون میں ہے:
تجب سجد تان
( دو سجدے واجب ہیں ۔ت)
اور شریعت گناہ کا حکم نہیں دیتی۔
فان قلت انما لایسجد بعد قضاء مافاتہ لانھما صلٰوتان حکما وان اتحدت التحریمۃ وسھو صلٰوتہ لا یسجد لہ فی اخری قال فی البدائع صفحۃ ۱۷۶ فان قیل ینبغی ان لا یسجد المسبوق مع الامام لانہ ربما یسھو فیما یقضی فیلزمہ السجود ایضا فیؤدی الی التکرار وانہ غیر مشروع، فالجواب ان التکرار فی صلٰوۃ واحدۃ غیر مشروع وھما صلٰوتان حکما وان کانت التحریمۃ واحدۃ لان المسبوق فیما یقضی کالمنفرد ونظیرہ المقیم اذا اقتدی بالمسافر فسھا الامام یتابعہ المقیم فی السھو وان کان المقتدی ربما یسھو فی اتمام صلٰوتہ ۱؎اھ
اگر آپ سے سوال کریں کہ فوت شدہ رکعات کے بعد سجدہ نہیں کیا جائے گا کیونکہ اب اگر چہ تحریمہ کی وجہ نماز ایک ہے مگر حکماً دو نمازیں ہیں اور ایک نماز کا سجدہ دوسری نماز میں نہیں کیا جاتا، بدائع ص ۱۷۶ میں فرمایا اگر یہ سوال کیا جائے کہ مسبوق کو امام کے ساتھ سجدہ نہیں کرنا چاہئے کیونکہ بعض اوقات بقیہ رکعتوں میں مسبوق بھول جاتا ہے جس کی وجہ سے اس پر سجدہ سہو لازم آجاتا ہے تواب سجدہ سہو میں تکرار ہوجائے گا اور یہ مشروع نہیں ، توجواب یہ ہے کہ سجدہ سہو کا تکرار ایک نماز میں نامشروع ہے اور اس صورت میں نماز اگر چہ تحریمہ کے لحاظ سے ایک ہے مگر حکم کے اعتبار سے دو نمازیں ہیں کیونکہ مسبوق بقیہ رکعات میں منفرد کی طرح ہوتا ہے اس کی نظیریہ ہے کہ مقیم جب مسافر کی اقتداء کرے اور امام بھول جائے تو سجدہ سہو میں مقیم امام کی اتباع کرے گا اگر چہ بعض اوقات مقتدی بقیہ رکعتوں میں بھول جاتا ہے اھ
(۱؎ بدائع الصنائع فصل بیان من یجب علیہ سجود السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۷۶)
وفی الکافی شرح الوافی للامام النسفی الورقۃ ۸۵ فیمن قعد للرابعۃ ثم صلی خامسۃ ساھیا فضم سادسۃ مانصہ لا یسجد للسھو قیا سا لان ھذا سھو وقع فی الفرائض وقد انتقل منہ الی النفل من سھا عن صلٰوۃ لایسجد لہ فی صلٰوۃ اٰخری ۲؎ اھ
اورامام نسفی کی کافی شرح الوافی ص ۸۵پر ہے ایسا شخص جس نے چوتھی رکعت کا قعدہ کیا پھر بھول کر پانچویں رکعت ادا کی تو وہ چھٹی رکعت بھی ساتھ ملالے کے بارے میں الفاظ ہیں کہ وہ قیاساً سجدہ سہونہ کرے کیونکہ یہ ایک سہو تھا جو فرائض میں واقع ہوا حالانکہ اب وہ نمازی نوافل کی طرف منتقل ہوچکا ہے اور جو شخص ایک نماز میں بھولا وہ اس کا سجدہ دوسری نماز میں نہیں کرسکتا اھ
(۲؎ کافی شرح وافی ص ۸۵)
اقول ھما کصلٰوہ واحدۃ فی حق الجبر لا تحاد التحریمۃ الا تری الی ماقالہ فی الکافی متصلا بالعبارۃ المذکورۃ ویسجد للسھو استحسانا لان النقصان دخل فی فرضہ عند محمد بترک السلام الذی ھو واجب وھذا النفل بناء علی التحریمۃ الاولٰی فیجعل فی حق وجوب السھو کانھا صلٰوۃ واحدۃ کمن صلی ست رکعات تطوعا بتسلیمۃ سھا فی الشفع الاول یسجد للسھو فی اخر الصلوۃ وان کان کل شفع صلٰوۃ علی حدۃ ۱؎ اھ
اقول اتحاد تحریمہ کی وجہ سے نقصان کو پورا کرنے کے لئے یہ دونوں ایک نماز کی طرح ہیں آپ نے کافی کی وہ عبارت نہیں دیکھی جو مذکورہ عبارت کے متصل ہے کہ( قیاسّا تو نہیں) مگر بطور استحسان سجدہ کرے کیونکہ امام محمد کے نزدیک نقصان فرائض میں ہوا ہے کیونکہ نمازی نے واجب سلام کو ترک کردیا ہے اور یہ ( دو رکعتیں) پہلی تحریمہ کی ہی وجہ سے نفل بن رہی ہیں لہذا وجوب سجدہ سہو میں یہ دونوں ایک ہی نماز ہیں جس طرح کہ وہ شخص جس نے چھ نوافل ایک سلام سے پڑھے اور پہلی دورکعت میں بھول گیا تو اب اگر چہ یہاں ہر شفع مستقل نماز ہے مگر سجدہ سہو آخر میں کرے گا اھ
(۱؎ کافی شرح وافی ص ۸۵)
فاذا کان ھذا فی صلٰوتین مستقلتین بل مختلفتین فرضیۃ و تنفلا فلان یکون فی اجزاء صلٰوۃ واحدۃ اولی وان اختلفت اقتداء وانفراد، ویقطع النزاع مانصوا علیہ ان المسبوق ان لم یسجد لسھو الامام مع الامام یجب علیہ ان یسجد لہ فی اٰخرما یقضیہ، قال فی البدائع صف ۱۷۶ و لوقام المسبوق الی قضاء ماسبق بہ ولم یتابع الامام فی السھو سجد فی اخر صلٰوتہ فان المسبوق یبنی ما یقضی علی تلک التحریمۃ فجعل الکل کانہا صلٰوہ واحدۃ لاتحاد التحریمۃ واذاکان الکل صلٰوۃ واحدۃ وقد تمکن فیھا النقصان بسھو الامام لم یجز ذلک بالسجدتین فوجب جبرۃ ۲؎ اھ
جب دو الگ الگ نمازوں بلکہ وہ فرض ونفل کے اعتبار سے مختلف بھی ہیں کا حال یہ ہے تو ایک ہی نماز کے اجزا میں بطریق اولٰی ہونا چاہئے اگر چہ وہ اقتدا وانفراد کے لحاظ سے مختلف ہیں اور اب نزاع ختم ہوگیا جس پر فقہاء نے تصریح کی ہے کہ مسبوق نے سہو امام کی وجہ سے اگر امام کے ساتھ سجدہ نہیں کیا تو اپنی نماز کے آخرمیں سجدہ کرنا واجب ہوگا۔ بدائع کے صفحہ ۱۷۶ پر فرمایا کہ اگر مسبوق اپنی بقیہ نماز کی ادائیگی کے لئے کھڑا ہوگیا اور سہو میں امام کی اتباع نہ کی تو اپنی نماز کے اخر میں سجدہ سہو کرے کیونکہ مسبوق نے بقیہ نماز کی بنا اسی سابقہ تحریمہ پر کی ہے تو اب اتحاد تحریمہ کی وجہ سے مسبوق نے نماز کو ایک بنالیا ہیے اور جب یہ تمام نماز ایک ہے اور اس میں سہو امام کی وجہ سے ایسا نقصان ہوچکا ہے جس کا ازالہ دوسجدوں سے نہیں ہوسکتا تو اس کا ازالہ واجب ہوگا اھ
(۲؎ بدائع الصنائع فصل بیان من یجب علیہ سجو السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۷۷)
فاذاکان ھذا علیہ بسھو امامہ فلوکان لسھو نفسہ حالۃ الاقتداء حکم لوجب علیہ ان یسجد لہ فی اخر صلٰوتہ لکن نصوا قاطبۃ انہ لیس علیہ فثبت باجماعھم ان سھو المقتدی لا حکم لہ ۔
جب یہ بات امام کے سہو کی وجہ سے ہے تو اب اگر حالت اقتداء میں خود اس سے غلطی ہوجانے پر حکم لاگو ہو تو اس پر نماز کے آخر میں لازم ہوجانا چاہئے لیکن فقہاء نے قطعی تصریح کی ہے کہ اس پر اس صورت میں سجدہ سہو نہیں کیونکہ فقہاء کا اس پر اجماع ہے کہ مقتدی کی سہو پر کوئی حکم نافذ نہیں ہوسکتا ۔ (ت)
(۵) یہیں سے روشن ہوا کہ بحث نہر اصلاً قابل التفات نہیں اگرچہ سید ابوالسعود نے اس کا اتباع کیا اور علامہ شامی نے ردالمحتار ومنحۃ الخالق میں اسے مقرر رکھا حدیث ہی کے مقابل ان کی بحث معتبر نہ ہوتی
، طحطاوی علی الدرالمختار جلد اول صفحہ ۱۸۱ ''مسئلہ دو رکعت نفل قبل نماز مغرب '' میں ہے :
فی البخاری انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم قال صلوا قبل المغرب رکعتین و ھو امر ندب و منع صاحب النھر لایظھر لوجود الدلیل المروی فی الصحیح ۱؎۔
بخاری میں ہے کہ رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: مغرب سے پہلے دورکعات ادا کرو۔ اور یہ حکم برائے ندب ہے، صاحب نہر نے اس سے منع کیا لیکن یہ منع واضح نہیں کیونکہ امر ندب صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔(ت)
(۱؎ طحطاوی علی الدرالمختار کتاب الصلوٰۃ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱ / ۸۱)
اسی طرف علامہ نے حاشیہ مراقی الفلاح میں اس مسئلہ دائرۃ صفحہ ۳۰۳میں اشارہ کیا ہے کلام نہر نقل کرکے فرمایا:
وقد علمت مفاد الحدیث افادہ بعض الافاضل ۲ ؎ ۔
آپ حدیث کا وہ معنی جان چکے جو بعض افاضل نے بیان کیا ۔(ت)
(۲؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح باب سجود السہو مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۲۵۲)
بلکہ ہم ثابت کرچکے کہ نص صریح امام اعظم وامام ابویوسف وامام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہم واطباق جملہ کتب مذہب کے خلاف ہے تو مقتضی کلامہم نہیں بلکہ نقیض کلامہم ہے ھکذا ینبغی التحقیق واﷲ تعالٰی ولی التوفیق والحمد ﷲ رب العٰلمین۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم۔