( میں اﷲ کی توفیق سے سائل فاضل ( جن کے فضائل ہمیشہ رہیں) کی تائید کرتے ہوئے میں کہتا ہوں: )
(۱) بزار مسند اور بیہقی سنن میں امیر المومنین عمر فاروق رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:
لیس علی من خلف الامام سھو فان سھا الامام فعلیہ وعلی من خلفہ ف ۱؎
امام کے پیچھے نماز پڑھنے والے پر سہو نہیں ،ا گر امام بھول گیا تو اس پر اور اس کے مقتدیوں پر سجدہ سہو ہے۔ (ت)
ف: سنن کبرٰی کے الفاظ یوں ہیں ان الامام یکفی من ورائہ فان سھا الامام فعلیہ سجدتا السھو و علی من وراء ہ فان یسجدوا معہ وان سھا احد من خلفہ فلیس علیہ ان یسجد وا لامام یکفیہ۔
(۱؎ سنن الکبری للبیہقی باب من سھا خلف الامام الخ دارصادر بیروت ۲/۳۵۲)
مقتدی پر سہو کی نفی فرمائی اور وہ نفی وقوع نہیں لاجرم نفی حکم ہے کما دلت علیہ کلمۃ علی ( جیسا کہ اس پر ''علٰی'' کا حکم دلالت کر رہا ہے ۔ ت) تو ثابت ہوا کہ سہوِ مقتدی کوئی حکم نہیں رکھتا
(۲) طبرانی معجم کبیر میں عقبہ بن عامر رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے راوی رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا:
لایؤم عبد قوما الا تولٰی ماکان علیھم فی صلٰوتھم ۲؎۔
کوئی آدمی کسی قوم کی امامت نہیں کرتا مگر وہ ہر اس شئی کا ذمہ دار ہوتا ہے جو قوم کی نماز میں ہوتا ہے (ت)
(۲؎ المعجم الكبیر للطبرانی مسند عقبہ بن عامر مطبوعہ مکتبہ فیصلیہ بیروت ۱۷ /۳۲۹)
پر ظاہر کہ تولٰی ما علیھم یو نہی ہے کہ علیھم نہ رہے اگرمقتدی کو اپنے سہو کے سبب حکم اعادہ ہو تو امام سے ان سے تحمل نہیں بلکہ ان پر اثقل کی تحمیل کہ بے اس کے دو سجدوں ہی سے کام چل جاتا اب ساری نماز کا اعادہ کرنا پڑا۔
(۳) بدائع امام ملک العلماء جلد اول صفحہ ۱۷۵ میں ہے :
المقتدی اذاسھا فی صلوٰتہ فلا سہو علیہ۳؎
( اگر مقتدی نماز میں بھول جائے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں۔ت)
(۳؎ بدائع الصنائع فصل من یجب علیہ سجود السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱ /۱۷۵)
(۴) محیط پھر ہندیہ جلد اول صفحہ۱۲۸ مصری میں ہے :
لو ترک الامام سجود السھو فلا سھو علی الماموم ۴؎
( اگر امام نے سجدہ سہو ترک کردیا تو مقتدی پر سجدہ سہو نہیں۔ ت)
(۴؎ فتاوٰی ہندیۃ الباب الثانی عشر فی السجود مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور ۱/ ۱۲۸)
(۵) تبیین الحقائق امام زیلعی جلد اول صفحہ۱۹۵:
لو سلم المسبوق مع الامام ینظر فان سلم مقارنا لسلام الامام او قبلہ فلا سھو علیہ لانہ مقتدبہ وان سلم بعدہ یلزم السھو لانہ منفرد ۵؎۔
اگر مسبوق نے امام کے ساتھ سلام کہہ دیا تو اب دیکھیں گے اگر اس نے امام کے ساتھ یا اس سے پہلے سلام کہہ دیا تو اب مقتدی ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم نہ ہوگا، اور اگر امام کے بعد سلام کیا تو اب منفرد ہونے کی وجہ سے سجدہ سہو لازم ہوگا۔ (ت)
(۵؎ تبیین الحقائق باب السجود مطبوعہ المطبعۃ الکبرٰی الامیریہ بولاق مصر ۱/۱۹۵)
(۶) بحرالرائق جلد دوم صفحہ ۱۰۸:
المسبوق فیما یقضیہ کالمنفرد کما تقدم و علیہ یفرع ما اذاسلم ساھیا فان کان قبل الامام او معہ فلا سھو وان کان بعدہ فعلیہ کما ذکرناہ ۱؎
مسبوق باقی رکعات ادا کرنے میں منفرد کی طرح ہوتا ہے جیسے گزرا، اس پر یہ صورت متفرع ہے کہ جب مقتدی نے بھول کر سلام کہہ دیا تو اگر امام سے پہلے ساتھ ہے تو سجدہ سہو لازم نہیں، اور اگر بعد میں ہے تو اس پر سجدہ لازم ہوگا جیسا کہ پیچھے گزرا۔ (ت)
(۱ بحرالرائق باب سجود السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۱۰۰)
ان چاروں عبارتوں میں مثل حدیث اول سہو مقتدی کی مطلقاً نفی فرمائی ہے یعنی اس کے لئے کوئی حکم نہیں کما قررناہ ( جیسا کہ ہم نے اس کی تقریر کردی ہے ۔ت)
(۷) امام اجل ابو جعفر طحاوی شرح معانی الآثار جلد اول صفحہ ۲۳۸:
اُقتدی مفترض بمتنفل ،
( فرض پڑھنے والا نفل پڑھنے والے امام کی اقتداء کرے ۔ ت)
میں فرماتے ہیں:
اماحکمہ بطریق النظر فانا قدرأینا صلوٰۃ المامومین مضمنۃ بصلٰوۃ امامھم بصحتھا اوفسادھا یوجب ذٰلک النظر الصحیح من ذلک انا رأینا الامام اذاسھا وجب علی من خلفہ لسھو ما وجب علیہ ولو سھوا ھم و لم یسہ ھولم یجب علیھم مایجب علی الامام اذاسھا ۲؎ ۔
لیکن اس کا حکم بطریق نظر ہے ہم دیکھتے ہیں کہ مقتدیوں کی نماز صحت و فساد كے اعتبار سے امام كی نماز كے تابع ہے ، یہ نظر صحیح لازم کرتی ہے کہ جب امام بھول گیا تو اس کی بھول کی بنا پر جو کچھ امام پر لازم ہوا وہ اس کے پیچھے والوں پر بھی لازم ہوگا۔ اور اگر مقتدی بھول جائیں اور امام نہ بھولے تو مقتدیوں پر وہ چیز لازم نہیں ہوتی جو امام کے بھولنے پر اس پر لازم ہوتی ہے ۔ (ت)
(۲؎ الطحاوی شرح معانی الآثار باب الرجل یصلی الفریضۃ خلف من یصلی تطوعاْ مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۸۰)
امام ( طحاوی) نے
لم یجب علیھم السجود
( مقتدیوں پر سجدہ واجب نہیں ۔ ت)
نہ فرمایا بلکہ
مایجب علی الامام
( جو امام پر لازم ( وہ مقتدیوں پر لازم ہے) ۔ت) کہ سجدہ واعادہ دونوں كو شامل ۔
(۸) ذخیرہ پھر ہندیہ جلد اول صفحہ ۱۳۰ میں ہے :
لوسھا الاول بعد الاستخلاف لا یوجب سھوہ شیئا۳؎ ۔
اگر پہلا امام خلیفہ بنانے کے بعد بھولتا ہے تو اس کی بھول کوئی شئ لازم نہیں کرتی ، (ت)
(۹) کافی امام اجل حاکم شہید جس میں جمیع کتب ظاہر الروایہ کو جمع فرمایا ہے ضمناًشرح امام سرخسی جلد اول صفحہ ۲۲۵میں ہے:
اذا احدث الامام فی خلال صلوتہ وقد سھا فاستخلف رجلا یسجد للسھو بعد السلام وان لم یکن الامام الاول سھا لزمہ سجود السھو لسھو الثانی ولو سھا الاول بعد الاستخلاف لا یوجب سھوہ شیئا ۱؎۔
اگر بھولے ہوئے امام نے دوران نماز کسی کو اپنا خلیفہ بنایا تو سلام کے بعد خلیفہ سجدہ سہو کرے اور اگر پہلا امام بھولا نہیں تھا اور دوسرا امام ( خلیفہ) بھول گیا تو پہلا امام واپس آیا تو وہ بھی خلیفہ کی بھول کی وجہ سے سجدہ کرے ، اور اگر پہلا امام خلیفہ بنانے کے بعد بھولا تو اس بھول سے سجدہ سہو لازم نہ آئے گا (ت)
(۱؎ المبسوط للسرخسی باب سجود السہو مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۲۲۵)
امام سرخسی نے فرمایا : لانہ صار فی حکم المقتدی ۲ ؎ ( کیونکہ وہ مقتدی کے حکم میں ہوگیا ہے ۔ ت)
(۲؎ المبسوط للسرخسی باب سجود السہو مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت ۱/۲۲۵)
یہ خود محرر المذہب امام محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہ کا نص جلی ہے جو بوجہ عدم ذکر خلاف خود امام اعظم وامام ابو یوسف سب کا نص ہے رضی اﷲ تعالٰی عنھم اجمعین، ان عبارات سے روشن بین سالبہ کلیہ ہے کہ مقتدی کا سہو اصلاً کسی چیز کو واجب نہیں کرتا اور عام کا حکم اس کے ہر فرد میں قطعی ہوتا ہے خود نص ائمہ ثلثہ ابو حنیفہ و ابویوسف و محمد رضی اﷲ تعالٰی عنہم سے ثابت کہ مقتدی پر اپنے سہو کے ہر گز نہ سجدہ ہے نہ اعادہ ۔
(۱۰) لایؤم امام اجل طحاوی نے بعد عبارت مذکورہ صریح تر فرمایا:
ثبت ان المأمومین یجب علیھم حکم السھو لسھو الامام وینتفی عنھم حکم السھو بانتفائہ عن الامام ۳؎۔
یہ بات ثابت ہوگئی کہ امام کے سہو کی وجہ سے مقتدیوں پر سجدہ سہو واجب ہے اور امام سے نفی کی صورت میں مقتدیوں سے بھی اس کی نفی ہوگی ۔ (ت)
(۳؎ الطحاوی شرح معانی الآثار باب الرجل یصلی الفریضۃ خلف من یصلی تطوعا مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۱/۲۸۰)
(۱) امام جلیل شمس الائمہ سرخسی مبسوط جلد اول صفحہ ۲۲۹ میں فرماتے ہیں: