حدیث چہارم:
حضرت قطب شعرانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ کشف الغمہ میں بہ صفحہ ع وع فرماتے ہیں:
وکانو ا لا یسجدون لسھو ھم خلف الامام ویقولون الامام یحمل اوھام من خلفہ من المامومین وکذلک کان یقول صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم من سھا خلف الامام فلیس علیہ سھو و امامہ کافیہ فان سھا الامام فعلیہ وعلی من خلفہ السھو ۱؎ انتھی
صحابہ اپنے سہو کی وجہ سے امام کے پیچھے سجدہ نہیں کرتے تھے اور یہ کہتے کہ امام اپنے مقتدیوں کے وہموں کو
اٹھا لیتا ہے ، اور اسی طرح رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا جو امام کے پیچھے بھول گیا اس پر (سجدہ) سہو نہیں اور اس کا امام کافی ہے اور اگر امام بھول گیا تو امام اور اس کے مقتدی دونوں پر سجدہ سہو لازم ہوگا انتہی (ت)
(۱؎ کشف الغمہ باب سجود السہو مطبوعہ دارالفکر بیروت ۱/۱۵۹)
جس سے حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا فرمان مبارک وامامہ کافیہ ( اور اس کا امام کافی ہے ۔ت) اور پھر اسی پر عمل صحابہ رضی اﷲ تعالٰی عنہم مخالف کے بر خلاف کافی حجۃ ہے اگر مخالف ان احادیث متذکرہ بالا کے متعلق کہے کہ سوائے حدیث اول کے باقی احادیث کسی کتاب حدیث سے منقول نہیں اور نہ کوئی سند ذکر کی گئی ہے اور ان کے ناقلین حضرت قطب شعرانی رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور طحطاوی اور صاحب مراقی الفلاح اور صاحب معراج الدرایہ نقادِ حدیث میں سے نہیں لہذا یہ احادیث قابل اعتبار نہیں، تو اس کے جواب میں مجھے مختصر طور پر یہ کہنا ضروری ہے کہ حدیث اول کے متعلق مولانا علی قاری اور ابن حجر رضی اﷲ تعالٰی عنہ اور علامہ عینی رحمۃ اﷲ علیہ کے اقوال اگر اتمام حجت کے لئے کافی سمجھے گئے تو دوسروں کے مناقب بیان کرنے اور حفظ مراتب کے لئے موعظۃ سے چنداں کوئی حاصل نظر نہیں آتا دوسرے یہ کشف الغمہ کے متعلق اس قسم کا خیال اس کتاب کے مقدمہ سے ناواقف ہونے کی دلیل ہے جس میں فرماتے ہیں کہ کتب صحاح فلان وفلان سے یہ سب احادیث ماخوذومنقول ہیں، تیسرے یہ کہ ایسے عذرات اہل تحقیق کے نزدیک قابل وقعت نہیں،
قال بعض الاذکیاء فالمختار عندی جواز نقل الحدیث من الکتب الصحاح والحسان بلاشرط ومن غیرھا بشرط التنقیح علی اھل العلم ومؤ لفاتھم، وفی الاشباہ من الفقہ الحنفی نقل السیوطی عن ابی اسحٰق الاسفرائی الاجماع علی جواز النقل من الکتب المعتمدۃ ولا یشترط اتصال السندالی مصنفیھا ۲؎انتھی
بعض اذکیاء نے فرمایا کہ میرے نزدیک کتب صحاح اور حسان سے حدیث کا بلا شرط نقل کرنا جائز ہے اور ان کے علاوہ دیگر کتب سے اہل علم اور ان کی تصانیف سے بشرطِ تحقیق نقل کرنا جائز ہے ، فقہ حنفی کی اشباہ میں ہے کہ امام سیوطی نے ابو اسحاق اسفرائی سے نقل کیا ہے کہ معتمد کتب سے ان کے مصنفین تک اتصال سند کے بغیر بھی نقل حدیث کے جواز پر اجماع ہے انتہی (ت)
(۲؎ الاشباہ والنظائر احکام الکتابۃ مطبوعہ ادارۃ القرآن والعلوم الاسلامیہ کراچی ۲/۱۹۸)
الغرض ان احادیث کے ہوتے ہی فقہاء کے اس قول سے سجدہ سہو لازم نہیں ایسے معنی کا ارادہ کرنا جو احادیث کے برخلاف ہے تمام فقہاء پر حملہ کرنے کے علاوہ عمداً ترک عمل بالحدیث نہیں تو اور کیا ہے پس بہتر ہے کہ فقہاء کے کلام سے بھی وہی مراد ہو جو احادیث سے ثابت ہو۔
سوال: صاحب النہر الفائق ثقات حنفیہ سے ہے، پس یہ کس طرح گوارا ہوسکتا ہے کہ اس کی رائے کے برخلاف حکم کیا جائے کہ کلام فقہاء کا مقتضی نہ کراہت ہے اور نہ اعادہ۔
جواب: من ابتلی ببلیتین فلیخترا ھونھما
( جو شخص دو مشکلات میں گھر جائے وہ ان میں سے آسان کو اختیار کرے۔ ت)
صرف صاحب نہر فائق كا خلاف بمقابلہ اس کے کہ سب فقہاء کے کلام احادیث کے برخلاف ہو اور احادیث نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام پر عمل نہ ہو نہایت ہی آسان ہے
ولعل اﷲ یحدث بعد ذلک امرا
( شاید اس کے بعد اﷲ کوئی امر پیدا فرمادے ۔ت)
اس کے بعد ان چند مسائل اور روایتِ فقہاء کا ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں جس سے صاف ثابت ہے کہ مقتدی پر سجدہ سہو کے نہ کرنے کی وجہ سے اعادہ لازم نہیں:
(۱) سجود تلاوت کے باب میں فقہاء فرماتے ہیں کہ اگر موتم نے آیت سجدہ تلاوت کی تو سجدہ تلاوت لازم نہیں نہ موتم پر اور نہ امام پر اور نہ کسی دوسرے مقتدی پر، اور اس کی دلیل صاحبِ شرح منیہ نے بعینہٖ وہی لکھی ہے جو سجود سہو کے لازم ہونے کی ہے،
یعنی ان سجد الامام یلزم انقلاب المتبوع تابعا والالزم مخالفتھم لہ ۱؎ انتھی
( اگر امام سجدہ کرے گا تو یہ متبوع کا تابع ہونا لازم آئے گا ورنہ یہ اس کی مخالفت لازم آتی ہے انتہی ۔ت)
(۱؎ ردالمحتار بحوالہ شرح منیہ وغیرہ باب سجود التلاوۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱/۵۶۶)
اگر اس دلیل کا مقتضی ثبوت کراہت اور اعادہ صلوٰۃ ہو تو لازم آتا ہے کہ سجود تلاوت کے متعلق بھی ایسا حکم ہو حالانکہ یہاں نہ اعادہ سجدہ تلاوت ہے اور نہ اعادہ صلوٰۃ۔
(۲) فتاوٰی قائدی کی روایت مندرجہ ذیل سے مدعا ثابت ہے اور وہ یہ ہے:
اذا سہا المقتدی لایلزمہ سجود السہو انما یجب بالسھو و السبب انما یعمل عملہ اذا امکن اعتبارہ فی حق الحکم فاما اذالم یمکن اعتبارہ فی حق الحکم کان ملحقا بالعدم کما قال ابو حنیفۃ وابویوسف فی تلاوۃ المقتدی و کما فی بیع المحجور
وشرائہ وھھنا لایمکن اعتبار سھو المقتدی فی حق الحکم و ھو وجوب سجدۃ السھو؎۱ انتھی
جب کوئی مقتدی بھول جائے تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوتا کہ سجدہ سہو اس وقت لازم ہوتا ہے جب حقِ حکم میں نمازی کا اعتبار ممکن ہو اور جب حق حکم میں نمازی کا اعتبار ممکن نہ ہو تو سجدہ سہو کالعدم تصور ہوتا ہے جیسا کہ امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف نے مقتدی کی تلاوت کے بارے میں فرمایا، اور محجور کی بیع وشراء میں ہے اور یہاں حق حکم یعنی وجوب سہو میں مقتدی کی سہو کا اعتبار ممکن ہی نہیں انتہی (ت)
(۱؎ فتاوٰی قائدی )
(۳) علامہ شامی صفحہ ۴۹۶ میں فرماتے ہیں اس مسئلہ کے متعلق کہ جہاں سجود ساقط ہوجائے اعادہ لازم ہوتا ہے یا نہیں
والذی ینبغی انہ ان سقط بصنعہ کحدث عمد مثلا یلزم والا فلا تامل ۲؎انتھی
اور وہ صورت جس میں نماز سے خروج بالا رادہ ہو مثلاً عمداً وضو توڑدیا تو اب سجدہ سہو ساقط مگر اعادہ نماز لازم ، اور اگر ایسی صورت نہیں تو اعادہ لازم نہ ہوگا ، غور کیجئے انتہی (ت)
جس سے صاف ظاہر ہے کہ مانحن فیہ میں اس لئے کہ سقوط سجدہ سہو مقتدی کے اپنے فعل اختیار ی سے نہیں ہوا بلکہ اس لئے کہ امام کے پیچھے وہ ادا نہیں کرسکتا نہ قبل السلام نہ بعد السلام، اعادہ واجب نہیں،
(۴) علامہ شامی رحمۃ اﷲ علیہ صفحہ ۳۰۶ پر فرماتے ہیں:
وینبغی تقیید وجوب الاعادۃ بما اذالم یکن الترک لعذر کالامی اومن اسلم فی اخر الوقت فصلی قبل ان یتعلم الفاتحۃ فلا تلزم الاعادۃ ۳؎ انتہی
وجوب اعادہ کو اس قید کے ساتھ مقید کیا جانا چاہئے کہ یہ اس صورت میں ہے جب ترک (واجب)کسی عذر کی بنا پر نہ ہو مثلاً اُمی کا ترک فاتحہ یا وہ شخص جو نماز کے آخری وقت میں اسلام لایا اور اس نے فاتحہ سیکھنے سے پہلے نماز ادا کی تو اب اعادہ نماز لازم نہیں ہوگا (ت)
جس سے عیاں ہے مانحن فیہ میں بوجہ اس کے کہ ترک سجود بوجہ تعذر ہو ا کل صرح بہ الفقہا ( ان تمام کی فقہاء نے تصریح کی ہے ۔ ت) اعادہ لازم نہیں۔
(۵) فی الدرالمختار یجب علی منفرد ومقتد بسھو امامہ ان سجد امام لوجوب المتابعۃ ۴؎ انتھی فی ردالمحتار
درمختار میں ہے کہ تنہا نمازی پر سجدہ سہو لازم ہوتا ہے اور امام کی بھول کی وجہ سے مقتدی پر بشرطیکہ امام سجدہ کرے کیونکہ مقتدی پر امام کی متابعت لازم ہے۔ انتہی ،
قولہ ان سجد امامہ امالو سقط عن الامام بسبب من الاسباب بان تکلم اواحدث معتمد ا اوخرج من المسجد فانہ یسقط عن المقتدی بحر، والظاھر ان المقتدی تجب علیہ الاعادۃ کالامام ان کان السقوط بفعلہ العمد لتقرر النقصان بلاجابر من غیر عذر ۱؎ تامل انتھی
قولہ '' اگر امام نے سجدہ کیا'' اور اگر امام سے کسی وجہ سے سجدہ ساقط ہوگیا مثلاً اس نے کلام کیا یا جان بوجھ کر حادث ہوگیا یا مسجد سے نکل گیا تو اب مقتدی سے بھی سجدہ سہو ساقط ہو جائے گا بحر، اور ظاہر یہی ہے کہ اگر سقوط سجدہ عمداً ہو تو امام کی طرح مقتدی پر بھی اعادہ لازم ہوگا کیونکہ اب بغیر کسی عذر کے ایسے نقصان کا ثبوت ہوا جس کا کوئی ازالہ نہ ہوا ، غور کرو، انتہی (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب سجود السہو مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی ۲ /۸۲)
مانحن فیہ میں اگر چہ مقتدی کا اپنا سہو ہے نہ کہ سہو امام ، لیکن جبکہ سجدہ سہو کے ساقط ہونے میں عمد کو دخل نہیں لہذا اعادہ بھی واجب نہیں۔
(۶) آج تک اعادہ صلوٰۃ کا عمل نا مسموع ہے اگر وجوب اعادہ سے حکم کیا جائے لکھو كھہا نمازیوں کی نمازیں ناجائز وتباہ ہوجاتی ہیں اور نمازی تارک صلوٰۃ اور آثم ٹھہرتے ہیں، حالانکہ حضرت رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں: الدین یسر ۲؎ ( دین میں آسانی ہے ۔ت)
(۲؎ صحیح بخاری باب الدین یسر مطبوعہ قدیمی کتب خانہ کراچی ۱ /۱۰)
ونیز فرماتے ہیں:
یسروا ولا تعسروا بشروا ولا تنفروا۳؎
( آسانی کرو، تنگی نہ کرو اور اچھی خبر دو، نفرت نہ پھیلاؤ۔ ت)