Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
35 - 144
مسئلہ ۱۲۳۱: از  اترولی ضلع علی گڑھ مدرسہ اسلامیہ مرسلہ حافظ عبدالکریم صاحب مدرس ۸ جمادی الآخرہ ۱۳۲۲ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام کے ساتھ اکیلا بعد التحیات کے سجدہ سہو کا ایک سلام بعد کرنا چاہئے یا کہ دونوں طرف سلام پھیر کے؟
الجواب

ایک سلام کے بعد چاہئے، دوسرا سلام پھیر نا منع ہے، یہاں تک کہ اگر دونوں قصداً  پھیر دے گا سجدہ سہو  نہ ہوسکے گا اور نماز  پھیرنا  واجب رہے گا۔
درمختار میں ہے:
یجب بعد سلام واحد عن یمینہ فقط وھو الاصح بحر وعلیہ لو اتی بتسلیمتین سقط عنہ السجود ۱؎ الخ
فقط دائیں جانب سلام کے بعد واجب ہے اور  یہی اصح  ہے بحر۔ اور اگر سجدہ  سہو لازم تھا اور اس نے دونوں طرف سلام پھیردیا تو سجود ساقط ہو جائیگا  الخ (ت)
 (۱؎ درمختار     باب سجود السہو        مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت   ۱ /۱۰۱)
ردالمحتار میں ہے:
وعلیہ فیجب ترک التسلیمۃ الثانیۃ۲؎ الخ۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ وجل مجدہ اتم واحکم
اگر سجدہ سہو لازم ہو تو دوسرے سلام کا ترک ضروری ہوتا ہے الخ۔ واﷲ تعالٰی اعلم وعلمہ جل مجدہ اتم واحکم (ت)
 (۲؎ ردالمحتار  باب سجود السہو           ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲/۷۸)
مسئلہ ۱۲۳۲: مرسلہ حافظ عبداﷲ خاں موضع ٹھریا ضلع بریلی    ۲۹ جمادی الآخرہ ۱۳۳۷ھ

نمازی کسی رکعت میں صرف الحمد پڑھے اور سہواً سورت نہ ملائے اور پھر سہو کا سجدہ کرے تو نماز ہوجائیگی یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب

جو سورت ملانا بھول گیا اگر اسے رکوع میں یاد آیا تو فوراً کھڑے ہوکر سورت پڑھے پھر رکوع دوبارہ کرے پھر نماز تمام کرے اور اگر رکوع  كے بعد سجدہ میں یاد آیا تو صرف اخیر میں سجدہ سہو کرلے نماز ہوجائے گی اورپھیرنی نہ ہوگی ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۳۳: از تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خاں مسئولہ مولٰنا مولوی احمد بخش ساکن ڈیرہ غازی خاں مہتمم مدرسہ محمودہ محمودیہ ۲۴ ذیقعدہ ۱۳۳۶ھ

سیّدی سندی اعتضادی وعلیہ اعتمادی البحرالبحر العلامۃ الفہامۃ الالمعی اللوذعی حضرت مجدد المائۃ الحاضرہ

ادام اﷲ برکاتہم  والقابہم  الی یوم الدین آداب عجز و نیاز  بے انداز  بجا لاکر عرض کرتا ہوں کہ خاکسار کو ہر لحظہ عافیت مزاج شریف و قضائے حاجات ذات مستجمع الصفات اہم مأرب واعظم مطالب ہے ان ایّام میں ایک واقعہ پیش آیا جس میں بعض ابناء الزمان مخالف ہیں اور  مفصل طور  پر میری اس تحریر ناقص سے جو بغرض استصواب ابلاغ خدمت اقدس ہے واضح ہوگا چونکہ جناب کے بغیر خاکسار کا کوئی محلِ اعتماد نہیں اس لئے تکلیف دی ہے کہ براہ بندہ نوازی جواب باصواب سے جو مدلل و مفصل ہو خاکسار کو معزز وممتاز فرمائیں عین عنایت ہوگی اور اس تقریر کے اخیر میں اپنی رائے صائب سے آگاہ فرماکربدستخط خاص مزیّن فرمادیں۔

       بسم اﷲ الرحمن الرحیم ؎ 

                          یارب بک الاعتصام ومنک التوفیق 

                               ویا شفیق یارفیق نجنی من کل ضیق

( اے میرے رب کریم ! تو ہی میرا  آسر ا ہے اور تجھ ہی سے توفیق ہے۔ اے شفیق ورفیق! مجھے تکلیف سے نجات عطافرما)

مسئلہ : اگرمو تم سے سہو ہو تو اعادہ صلوٰۃ اُس پر واجب نہیں کیونکہ جمیع فقہاء نے متون اور شروح میں تصریح فرمائی ہے کہ موتم پر اپنے سہو سے سجدہ سہو لازم نہیں کیونکہ اگر وہ اکیلہ سجدہ سہو ادا کرے تو مخالفت امام لازم ہے اور اگر امام بھی اس کے ساتھ سجدہ کرے تو معاملہ برعکس ہوجاتا ہے یعنی اصل تابع اور تابع اصل بن جاتاہے، اس بیان سے یہ مستفاد کیا جائے گا کہ گویا مقتدی کی نماز میں کوئی ایسا نقص واقع نہیں ہوا  یا کراہت جس کے جبر کےلئے سجدہ سہو  واجب ہو  پس اس بناء پر اعادہ لازم نہیں کیونکہ اعادہ وجود کراہت پر متفرع ہے واذلیس فلیس( جب کراہت نہیں تو اعادہ نہیں۔ ت)
علامہ شامی نے نہر فائق سے نقل کیا ہے کہ :
ثم مقتضی کلامھم انہ یعیدھا بثبوت الکراھۃ مع تعذرالجابر ۱؎ انتھی۔
کلام فقہاء سے معلوم ہوتا ہے کہ نماز ثبوت کراہت کی وجہ سے لوٹائی جائے گی جبکہ نقصان کو پورا کرنا دشوار ہو انتھی۔(ت)
 (۱؎ ردالمحتار     باب سجود السہو        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۸۲)
جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عدمِ لزوم سجدہِ سہو اس امر پر مبنی ہے کہ اس کا ادا کرنا ناممکن ہے نہ یہ کہ اس کی نماز میں کوئی نقص یا کراہت واقع نہیں بلکہ نماز مکروہ ہے اور حسبِ کلیہ مسلّمہ فقہاء کہ '' جو نماز کراہت سے ادا ہو اس کا اعادہ لازم ہے'' اعادہ لازم ہے
جواب: اگر ایسا ہو تو لازم آتا ہے کہ فقہاء نے احادیث کی مخالفت کی جس سے یہ مفہوم  ہے کہ امام مقتدی سے سجدہ سہو کو اٹھالیتا ہے جیسا کہ قرأت کو ۔
حدیث اوّل: مشکوٰۃ شریف میں ہے:
عن ابی ھریرۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الامام ضامن (الحدیث) ۱؎
حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: امام ضامن ہوتا ہے ( الحدیث) (ت)
 (۱؎ مشکوٰۃ المصابیح    باب فضل الاذان واجابت المؤذن    فصل ثانی    مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی بھارت  ص۶۵)
جس سے ثابت ہوتا ہے کہ امام مقتدی کی نماز کا متکفل ہے اگر مخالف سجود سہو کی اس کفالت سے خارج ہونے کا دعوٰی کرے تو اس کے لئے مولاناعلی قاری رحمۃ اﷲ علیہ کا قول اپنی شرح مرقاۃ میں ای
متکفل لصلوٰۃ المؤتمین بالاتمام۲؎
( یعنی امام مقتدیوں کی نماز کے اتمام کے لئے کفیل ہوتا ہے ۔ت)
 (۲؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ باب فضل الاذان واجابت المؤذن فصل ثانی    مطبوعہ  مکتبہ امدادیہ ملتان        ۲/ ۱۶۵)
اور ناقلاً عن ابن حجر رضی اﷲ تعالٰی عنہ :
والضمانۃ امالحملھم نحوا القرأۃ عن المسبوق اوالسہو عن الساھی ۳؎۔
امام کے ضامن ہونے کا یہ معنٰی ہے کہ وہ مسبوق کی طرف سے قرأت اور بھول جانے والے کے سہو کا ضامن ہوتا ہے ۔ (ت)
 (۳؎ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ باب فضل الاذان واجابت المؤذن فصل ثانی    مطبوعہ  مکتبہ امدادیہ ملتان        ۲/۱۶۵)
اور علاّمہ عینی کا قول شرح صحیح بخاری میں :
یعنی ان صلوٰتھم فی ضمن صلوٰۃ الامام صحۃ و فسادا ۴؎
یعنی مقتدیوں کی نماز صحت اور فساد کے لحاظ سے امام کی نماز کے تابع ہے ۔ (ت)
(۴؎ عمدۃ القاری شرح بخاری     باب اذالم یتم الامام واتم من خلفہ     مطبوعہ  ادارۃ الطباعۃ منیر بیروت    ۵/۲۲۹)
ونیزان کا قول :
ونستدل بما فی صحیح ابن حبان الامام ضامن بمعنی یضمنھا صحۃ و فسادا۵؎ ۔
اور ہم صحیح ابن حبان کی اس روایت سے استدلال کرتے ہیں کہ امام ضامن ہے یعنی وہ نماز کی صحت اور فساد کا ضامن ہوتا ہے (ت)
 (۵؎ عمدۃ القاری شرح بخاری   باب اذا طول الامام وکان للرجل حاجۃ الخ    مطبوعہ  ادارۃ الطباعۃ منیر بیروت ۵ / ۲۳۹)
اور نیز ان کا قول:
وقال ابن الملک لانھم المتکفلون لھم صحۃ صلوتھم وفسادھا وکمالھا ونقصانھا بحکم المتبوعیۃ والتابعیۃ ۱؎۔
اور ابن الملک نے کہا کہ اگر اپنے مقتدیوں کی نماز کے فساد و صحت اور نماز کے کامل وناقص ہونے کے ضامن ہوتے ہیں متبوع اور تابع کے اعتبار سے یہ حکم ہوگا (ت)
 (۱؎ عمدۃ القاری)
کفایت نہ کریں تو گو سروخشت ۔
حدیث دوم : مراقی الفلاح میں ہے :
قال قال رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم الامام لکم ضامن یرفع عنکم سھوکم وقراء تکم ۲؎
رسول اﷲ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا: امام تمھارے لئے ضامن ہے اور تمھاری سہو  اور  قرأت کو  اٹھا لیتا ہے ۔ (ت)
 (۲؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی    باب سجود السہو  مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی    ص ۲۵۲)
اسی حدیث کے مطابق حضرت ابن حجر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے حدیث اول کی تفسیر فرمائی ہے جو پہلے ذکر ہوچکی ہے اور جس کا ترجمہ  كب سے نام حق میں '' سہو اور امام برگیرد'' (اس کے سہو کو امام اٹھا لیتا ہے ۔ت) سے کیا گیا نیز  اس حدیث کے متعلق حضرت امام طحطاوی رحمۃ اﷲ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ رفع سہو کے ساتھ رفعِ قرأۃ کا ذکر کرنے سے یہ اشارہ ہے کہ جیسا کہ مقتدی پر ترک قرأۃ سے کوئی گناہ نہیں اسی طرف سہو کے ترک کرنے سے بھی کوئی گناہ نہیں، اس کے بعد نہر فائق کی عبارت متقدمۃ الذکر نقل کرکے فرماتے ہیں:
وقد علمت مفاد الحدیث افادہ بعض الافاضل ۳؎
 ( آپ  حدیث کا وہ معنٰی جان چکے جو بعض افاضل نے بیان کیا ۔ت)
 (۳؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح باب سجود السہو  مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ص  ۲۵۲)
یعنی کہ مفاد حدیث کے مخالف ہے جو نہر سے منقول ہوا۔
حدیث سوم : علامہ شامی نے معراج الدرایہ سے نقل کیا ہے کہ عدم لزوم  سجدہ سہو کے ثابت کرنے کےلئے بہتر یہ ہے کہ اس حدیث سے استدلال کیا جائے جو حضرت ابن عمر رضی اﷲ تعالٰی عنہ نے رسول اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے روایت کی :
لیس علی من خلف الامام سھو ۴؎
( جو امام کے پیچھے ہو اس پر (سجدہ ) سہو نہیں ۔ت)
 (۴  ؎ ردالمحتار             باب سجود السہو   مطبوعہ  ایچ ایم سعید کمپنی کراچی     ۲/۸۲)
Flag Counter