فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ ۱۲۲۸: ۱۰ جمادی الاولٰی ۱۳۱۹ھ کیافرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قعدہ اوّل میں شک ہوا مگر یقین نہیں اور سجدہ سہو کا کیا، اب نماز جائز ہے یا نہیں؟ بینواتوجروا
الجواب جائز ہے ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۲۹ :۲۵ ربیع الاول شریف ۱۳۲۰ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام نے جہری نماز میں بعد الحمد قبل سورۃ اتنی دیر سکوت کیا کہ چھوٹی سورت پڑھ لیتا ،ا س صورت میں کیا حکم ہے؟
الجواب الحمد شریف کے بعد امام نے سانس لیا اور آمین کہی اور شروع سورت کے لئے بسم اﷲ الرحمن الرحیم پڑھی اور بسم اﷲ کو خوب ترتیل سے اداکیا تو اس قدر میں ایك سورت چھوٹی پڑھنے کی ضرور دیر ہوجائے گی مگراس میں حرج نہیں بلکہ یہ سب باتیں مطابق سنت ہیں، ہاں اگر ان کے علاوہ محض سکوت اتنی دیر کیا کہ تین بار سبحان اﷲ کہہ لیتا تو یہ سکوت اگر بربنائے تفکر تھا کہ سوچتا رہا کہ کیا پڑھوں، تو سجدہ سہو واجب ہے اگر نہ کیا تو اعادہ نماز کا واجب ہے ، اور اگر وہ سکوت عمداً بلاوجہ تھا جب بھی اعادہ واجب ۔ واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۳۰: ۸ربیع الآخر شریف ۱۳۲۰ھ چہ می فرمایند علمائے دین ومفتیان شرع متین اندریں صورت ( کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس صورت میں ۔ ت) کہ ایک شخص نماز فرض پڑھتا ہے اور اس نے سہواً پچھلی دورکعت میں بھی بعد الحمد کے ایک ایک سورت پڑھی بعدہ سلام پھیر ا اب اس کی نماز فرض ہوئی یا سنت ؟ جیسا ہو ویسا ہی ارقام فرمائے اور اگر وہ سجدہ سہو کرلیتا تو کیا اس کی نماز فرض ہوجاتی یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب فرض ہوئی اور نماز میں کچھ خلل نہ آیا ، نہ اس پر سجدہ سہو تھا بلکہ اگر قصداً بھی فرض کی پچھلی رکعتوں میں سورت ملائی تو کچھ مضائقہ نہیں صرف خلاف اولٰی ہے، بلکہ بعض ائمہ نے اس کے مستحب ہونے کی تصریح فرمائی۔ فقیر کے نزدیک ظاہراً یہ استحباب تنہا پڑھنے والے کے حق میں ہے امام کے لئے ضرور مکروہ ہے بلکہ مقتدیوں پر گراں گذرے تو حرام ۔
درمختار میں ہے:
ضم سورۃ فی الاولیین من الفرض وھل یکرہ فی الاخر یین المختارلا۱؎ ۔ ملخصاً
فرض کی پہلی دو رکعات میں سورت کا ملانا، کیا آخری دو رکعتوں میں سورۃ ملانا مکروہ ہے ؟ مختار قول کے مطابق مکروہ نہیں ۔ ملخصاً (ت)
(۱؎ درمختار باب صضۃ الصلوٰۃ مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۷۱)
ردالمحتار میں ہے ؛
ای لایکرہ تحریما بل تنزیھا لا نہ خلاف السنۃ قال فی المنیۃ وشرحھا فان ضم السورۃ الی الفاتحۃ ساھیا یجب علیہ سجدتا السھو فی قولک ابی یوسف لتاخیر الرکوع عن محلہ وفی اظھر الروایات لایجب لان القرأۃفیھا مشروعۃ من غیر تقدیر والاقتصار علی الفاتحۃ مسنو ن لا واجب اھ
یعنی مکروہ تحریمی نہیں بلکہ تنزیہی ہے کیونکہ خلاف سنت ہے۔ منیہ اوراس کی شرح میں ہے اگر بھول کر فاتحہ کے ساتھ سورۃ ملائی تو امام ابویوسف کے قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو ہوگا کیونکہ رکوع اپنے مقام سے مؤخر ہوگیا ہے، اورا ظہر روایات کے مطابق اس پر سجدہ سہو لازم نہیں کیونکہ ان آخری رکعتوں میں بغیر مقرر کرنے کے قرأت مشروع ہے اور فاتحہ پر اکتفا سنت ہے واجب نہیں اھ
وفی البحر عن فخر الاسلام ان السورۃ مشروعۃ فی الاخریین نفلا وفی الذخیرہ انہ المختار وفی المحیط وھو الاصح اھ والظاھران المراد بقولہ نفلا الجواز ولامشروعۃ بمعنی عدم الحرمۃ فلا ینا فی کونہ خلاف الاولی کما افادہ فی الحلیۃ ۲؎ اھ ما فی ردالمحتار
اور بحر میں فخر الاسلام سے ہے کہ آخری رکعات میں سورۃ ملانا نفلی طور پر مشروع ہے۔ اور ذخیرہ میں ہے کہ مختار ہے۔ اور محیط میں اسی کو اصح کہا ہے اھ اور نفل سے واضح طور پر یہاں مراد جواز و مشروعیت بمعنی عدم حرمت ہے پس یہ اس کے خلافِ اولٰی ہونے کے منافی نہیں، جیسا کہ حلیہ میں ہے، ردالمحتار کی عبارت ختم ہوگئی۔
(۲؎ ردالمحتار باب صضۃ الصلوٰۃ مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۳۳۸)
اقول لفظ الحلیۃ ثم الظاھر ابا حتھا کیف لاوقد تقدم من حدیث ابی سعید الخدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ فی صحیح مسلم وغیرہ انہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یقرافی صلٰوۃ الظھر فی الرکعتین الاولین قدر ثلثین اٰیۃ وفی الآخریین قدر خمسۃ عشرۃ اٰیۃ اوقال نصف ذلک فلا جرم ان قال فخر الاسلام فی شرح الجامع الصغیر واما السورۃ فانھا مشروعۃ نفلا فی الاخریین حتی قلنا فی من قرأفی الاخریین لم یلزمہ سجدۃ سھو انتھی ثم یمکن ان یقال الاولٰی عدم الزیادۃ ویحمل علی الخروج مخرج البیان لذلک حدیث ابی قتادۃ رضی اﷲ تعالٰی عنہ ( یرید ما قدم بروایۃ الصحیحین ان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یقرأ فی الظھر فی الاولیین بام القراٰن وسورتین وفی الرکعتین الاخریین بام الکتاب الحدیث) وقول المصنف المذکور ( ای ولایزید علیھا شیأ) وقول غیر واحد من المشائخ کما فی الکافی وغیرہ ویقرأ فیھما بعدالاولیین الفاتحۃ فقط ویحمل علی بیان مجرد الجواز حدیث ابی سعید رضی اﷲ تعالٰی عنہ وقول فخر الاسلام فان النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کان یفعل الجائز فقط فی بعض الاحیان تعلیما للجواز وغیرہ من غیر کراھۃ فی حقہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کما یفعل الجائز الاولی فی غالب الاحوال والفعل لاینا فی عدم الاولویۃ فیند فع بھذا ماعساہ یخال من المخالفۃ بین الحدیثین المذکورین و وبین اقوال المشائخ واﷲ سبحٰنہ اعلم ۱؎اھ
اقول ( میں کہتا ہوں) کہ حلیہ کے الفاظ کہ پھر ظاہر سورت کا مباح ہونا ہے اور یہ کیسے نہ ہو کہ پیچھے صحیح مسلم وغیرہ کے حوالے سے گزرا کہ حضرت ابوسعید خدری رضی اﷲ تعالٰی عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم ظہرکی پہلی دورکعات میں تیس آیات اور آخری دو میں پندرہ آیات ( یا نصف) تلاوت فرماتے۔فخرالاسلام نے شرح الجامع الصغیر میں فرمایا آخری دورکعات میں سورت بطور نفل مشروع ہے حتی کہ اگر کسی نے سورت پڑھی تو ہم کہتے ہیں کہ اس پر سجدہ سہو لازم نہیں ہوگا انتہی، پھر یہ کہنا ممکن ہے کہ عدم اضافہ (سورت) اولٰی ہے اور اس پر دلیل حدیث ابو قتادہ رضی اﷲ رتعالٰی عنہ ہے ( اس سے مراد وہ حدیث ہے جو بخاری و مسلم کے حوالے سے گزری کہ نبی اکرم صلی تعالٰی علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعات میں سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اورآخری دورکعتوں میں صرف فاتحہ پڑھتے ۔ الحدیث) اور مصنف کا قول مذکورہ ( یعنی اس (فاتحہ) پر اضافہ نہ کیا جائے) اور متعدد مشائخ کا قول جس طرح کافی وغیرہ میں ہے کہ پہلی دو رکعات کے بعد صرف فاتحہ پڑھی جائے اور حدیث ابو سعید رضی اﷲ تعالٰی عنہ کو محض جواز بیان پر محمول کیا جائے، اورفخر الاسلام کاقول کہ نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم بعض جائز افعال کو تعلیم جواز وغیرہ کے لئے بجا لائے جبکہ یہ آپ کے حق میں مکروہ نہیں جس طرح آپ جائز کو غالب اوقات بجالاتے تھے اور فعل عدم اولی کے منافی نہیں ہوتا، اس گفتگو سے وہ تمام معاملہ ختم ہوجاتا ہے جو خیال کیا گیا تھا کہ ان مذکورہ دونوں احادیث اور اقوالِ مشائخ میں مخالفت ہے اھ
(۱؎ حلیہ المحلی شرح منیہ المصلی )
ولعلک لایخفی علیک ان حمل المشروع نفلا علی مکروہ تنزیھا مستبعد جدا وقر أۃالسورۃ فی الاخر یین لیست فعلا مستحبا مستقلا یعتریہ عدم الاولویۃ بعارض کصلٰوۃ نافلۃ مع بعض المکروھات وانما المستفاد من العلۃ ھھنا ھو استحباب فعلھا فکیف یجامع عدم الاولویۃ والذی یظھر للعبد الضعیف ان سنیۃ الاقتصار علی الفاتحۃ انما تثبت عن المصطفی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فی الامامۃ فانہ لم یعھد منہ صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم صلٰوۃ مکتوبۃ الا اماما الانادرا فی غایۃ الندرۃ فیکرہ للامام الزیادۃ علیھا لا طالتہ علی مقتدین فوق السنۃ بل لو اطال الی حد الاستثقال کرہ تحریما اما المنفرد فقد قال فیہ النبی صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم فلیطول ماشاء وزیادۃ خیر ولم یعرضہ مایعارض خیریتہ فلا یبعد ان یکون نفلا فی حقہ فان حملنا کلام المشائخ علی الامام وکلام الا مام فخر الاسلام تصحیح الذخیرۃ والمحیط علی المنفرد حصل التوفیق وباﷲ التوفیق ھذا ماعندی واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم۔
شاید آپ پر یہ بات مخفی نہیں رہی کہ نفل مشروع کو مکروہ تنزیہی پر محمول کرنا نہایت ہی بعید ہے اور آخری رکعتوں میں سورت کا پڑھنا مستقل فعل مستحب نہیں کہ اسے کسی عارضہ کی وجہ سے عدم اولویت لاحق ہو جیسے کہ نفل نماز کسی مکروہ پر مشتمل ہو اور یہاں علت سے قرأت سورت کا استحباب ثابت ہو رہا ہے تو اب یہ عدم اولویت کے ساتھ کیسے جمع ہوسکتا ہے۔ اس عبد ضعیف پر یہ چیز واضح ہوئی ہے کہ فاتحہ پر اکتفا کرنا نبی اکرم صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم سے امامت کی صورت میں منقول ہے کیونکہ آپ کی فرض نماز جو بھی منقول ہے وہ امام ہونے کی صورت میں ہی ہے البتہ شاذونادر ہی کوئی فرض نماز اس کے علاوہ ہوگی لہذا امام کے لئے فاتحہ پر اضافہ مکروہ ہوگا کیونکہ یہاں مقتدیوں پر سنت سے بڑھ کر طوالت کی کہ مقتدیوں پر گراں گزری تویہ کراہت تحریمی ہوگی۔ اگر آدمی تنہا نماز ادا کررہا ہے تواس میں رسالتمآب صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم کا یہ ارشاد گرامی ہے کہ نماز جتنی لمبی کرنا چاہے کرے، اور فاتحہ پر اضافہ خیر ہے اور اس کے خیر ہونے کے خلاف کوئی دلیل بھی نہیں تو منفرد کے حق میں اس اضافہ کا نفل ہونابعید نہیں ، اگر ہم کلام مشائخ کو امام پر اور امام فخر الاسلام اور تصحیح ذخیرہ اور محیط کو منفردپر محمول کرلیں تو موافقت پیدا ہوجائے گی اورتوفیق دینے والا اﷲ ہی ہے اور یہ میرے نزدیک ہے ۔ اﷲ تعالٰی ہی خوب جاننے والا ہے