Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
33 - 144
مسئلہ۱۲۲۵: از رامپور سررشتہ پولیس مرسلہ جعفر حسین صاحب محرر سہ شنبہ ۱۹ محرم الحرام ۱۳۱۸ھ

زید نماز مغرب میں اخیر رکعت میں آکر جماعت میں شریک ہوا، خالد جو امام تھا ایک طرف سلام پھیر کر سجدہ سہو میں چلا گیا، اب زید ایک طرف سالم پھیر کر سجدہ سہو میں جائے یا بدوں سلام کے سجدہ کرے؟ بعض علماء کہتے ہیں کہ اگر اس نے بھی قصداً سلام پھیرا تو نماز مسبوق کی فاسد ہوگئی ورنہ نہیں، اور شامی اور بحرالرائق وغیر ہما میں جو

روایت لکھی ہے وہ درباب اخیر سلام ہے، نہ درباب سلام سہو۔ اور فریقین کی دلیل یہی دونوں کتاب کی روایت ہے اس کا فیصلہ چاہئے، رامپور کے علماء سے بخوبی فیصلہ جس سے تسلی ہو نہ ہوسکا۔ بینوا توجروا
الجواب

حکم مسئلہ میں قول اول صحیح ہے فی الواقع مسبوق سلام سے مطلقاً ممنوع وعاجز ہے جب تک فوت شدہ رکعات ادا نہ کرلے امام سجدہ سہو سے قبل یا بعد سلام پھیرتا ہے اس میں اگر قصداً اس نے شرکت کی تو اس کی نماز جاتی رہے گی کہ یہ سلام عمدی اس کے خلال نماز میں واقع ہوا، ہاں اگر سہواً پھیرا تو نماز نہ جائے گی۔
لکونہ ذکر امن وجہ فلا یجعل کلاما من غیر قصد وان کان العمد والخطاء والسھو کل ذلک فی الکلام سواء کما حققہ علماءنا رحمھم اﷲتعالٰی
کیونکہ یہ من وجہ ذکر ہے لہذا اسے بغیر قصد کے کلام قرار نہ دیا جائے اور اگر چہ عمد، خطا اور سہو کلام میں برابر ہیں جیسا کہ ہمارے علماء رحمہم اﷲ تعالٰی نے اس کی تحقیق کی ہے ۔(ت)
بلکہ وہ سلام جو امام نے سجدہ سہو سے پہلے کیا اگر مسبوق نے سہواً امام سے پہلے یا معاً بلاوقفہ اس کے ساتھ پھیرا تو ان صورتوں میں مسبوق پر سہو بھی لازم نہ ہوا کہ وہ ہنوز مقتدی ہے اور مقتدی پر اس کے سہو کے سبب سجدہ لازم نہیں، ہاں یہ سلام اخیر اگر امام کے بعد پھیرا تو اس پر سجدہ اگر چہ کرچکا ہو دوبارہ لازم آیا کہ اپنی آخر نماز میں کرے گا اس لئے اب یہ منفرد ہوچکا تھا۔
خزانۃ المفیتن میں شرح مختصر امام طحاوی رحمۃ اﷲ تعالٰی سے ہے:
علیہ سجدۃ من صلب الصلٰوۃ سلم وھو ناس لھا ثم تذکر بعد ذٰلک فانہ بھٰذاالسلام لا یخرج عن حرمۃ الصلٰوۃ بالاجماع حتی صح الاقتداء وان عاد الامام و سجد یسجد ھذا المقتدی معہ علی طریق المتابعۃ ولایعتد بھذہ السجدۃ لانہ لم یدرک الرکوع ویتشھد مع الامام ولایسلم اذاسلم الامام ویسجد سجدتی السھو مع الامام فاذاسلم الامام ثانیا لایسلم ھوایضا بل یقوم الی قضاء ماسبق اھ ؎۱ باختصار
اگر کسی شخص پر نما ز کا سجدہ تھا اس نے بھول کر سلام پھیر دیا اسے پھر سجدہ یاد آگیا تو وہ اس سلام کی وجہ سے بالاتفاق حرمت نماز سے خارج نہیں ہوا حتی کہ اس کی اقتداء درست ہے اور اگر امام لوٹا اور سجدہ کیا اور مقتدی نے امام کی متابعت میں سجدہ کرلیا تو یہ اس کا یہ سجدہ معتبر نہ ہوگا کیونکہ اس نے امام کو رکوع میں نہیں پایا، امام کے ساتھ تشہد پڑھے لیکن جب امام سلام کہے تو یہ سلام نہ کہے البتہ امام کے ساتھ دونوں سجود سہو کرے جب امام دوبارہ سلام پھیرے تو وہ اب بھی سلام نہ کہے بلکہ گزشتہ رکعات کی قضا کیلئے کھڑا ہوجائے
 (۱؎ خزانۃ المفتین    فصل فیما یوجب السہو و ما لایوجب    قلمی نسخہ    ۱ /۳۹)
دیکھو مسبوق کو سجدہ سہو سے قبل وبعد دونوں وقت سلام سے منع فرمایا، حلیہ شرح منیہ للامام ابن امیر الحاج میں ہےـ:
موافقۃ المقتدی المدرک للامام فی سجود السھو ظاھر واماالمسبوق فلا یتابعہ بالسلام للخروج عن الصلوۃ وقد بقی علیہ ارکان الصلوٰۃ ویتابعہ فی سجود السھو وعن ابراھیم النخعی انہ لایسجد بسھوہ اصلا لان محل السھو بعد السلام وانہ لایتابعہ فیہ فلا یتصور المتابعۃ فی السھو ولنا ان سجود السہو یؤدی فی تحریمۃ الصلوۃ فکانت الصلٰوۃ باقیۃ واذا بقیت التبعیۃ فیتابعہ فیما یؤدی من الافعال ؎۱۔
مدرک مقتدی کی امام کے ساتھ سجدہ سہو میں موافقت واضح ہے ۔ رہا مسبوق کا معاملہ تو وہ امام کے اس سلام میں اتباع نہ کرے جو نماز سے خارج ہونے کے لئے تھا کیونکہ اس پرنماز کے ارکان کی ادائیگی رہتی ہے البتہ سجدہ سہو میں اتباع کرے۔ امام ابراہیم نخعی سے منقول ہے کہ مسبوق امام کے سہو کی وجہ سے ہرگز سجدہ سہو نہ کرے کیونکہ سجدہ سہو سلام کے بعد ہوتا ہے اور جب وہ سلام میں امام کی اتباع نہیں کررہا تو سجدہ میں متابعت کیسے متصور ہوسکتی ہے ہماری رائے یہ ہے کہ سجدہ سہو نماز کی حرمت میں ادا ہوتا ہے تو ابھی نماز باقی ہے اور جب تابعیتِ امام باقی ہے تو ان افعال میں امام کی اتباع کی جائے جو اداہورہے ہیں (ت)
 (۱؎حلیۃ المحلی شرح منیۃ المصلی)
محقق علی اطلاق فتح میں فرماتے ہیں:
لوسبق الامام الساھی الحدث بعد سلامہ استخلف لیسجد الخلیفہ کما لوبقی علیہ التسلیم ولیس للمسبوق ان یتقدم فی ھذا الاستخلاف لا نہ لایقدر علیہ اذمحلہ بعد السلام   وھو غیر قادر علی السلام وانما یسجد قبل السلام حالۃ الاقتداء بمن یسجد قبلہ وھو ھنا قد صار اماما للمستخلف ومع ھذالو تقدم لم تفسد لانہ یقدر علی الاتمام فی الجملۃ بان یتاخر ویقدم مدرکالیسلم بھم و یسجد ویسجد الخلیفۃ المسبوق معھم لانہ الان مقتد ثم یقوم الٰی قضاء ماسبق بہ ؎۱ الخ
اگربھول جانے والے امام کو حدث لاحق ہوگیااور اس نے کسی کو خلیفہ بنایا تاکہ سجدہ سہو کرائے جیسا کہ امام پر سلام کہنا باقی ہو تو حدث لاحق ہوجائے تو خلیفہ یہ کام سرانجام دے اور مسبوق کے لئے جائز نہیں کہ وہ ایسی صورت میں خلیفہ بنے کیونکہ وہ سجدہ سہو پر قادرنہیں ہوتا کیونکہ یہ سجدہ سلام کے بعد ہوگا اور مسبوق سلام پر قادر نہیں البتہ وہ شافعی کی اقتدامیں سلام سے  پہلے امام کی سجدہ سہو میں اقتدا کرسکتا ہے اور مذکور صورت میں تو مسبوق امام کا امام بن جائیگا اس کے باوجود اگر مسبوق آگے ہوگیا تونماز فاسد نہ ہوگی کیونکہ نماز کے اتمام پر قادر تو ہے ہی مثلاً یوں کہ خود پہلے ہٹ جائے اور کسی مدرک مقتدی کو آگے کردے جو نمازیوں کو سلام پھرائے اور سجدہ سہو کرائے اور خلیفہ مسبوق بھی ان کے ساتھ سجدہ کرے کیونکہ اب یہ مقتدی ہے پھر گزشتہ نماز کیلئے قیام کرے (ت)
 (۱؎ فتح القدیر     باب سجود السہو        مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور   ۱ /۴۴۴)
     رہی عبارتِ بحرالرائق کہ بعد بیان اس امر کے کہ مسبوق سجدہ سہو میں امام کی متابعت کرے گا ۔ فرمایاـ:
ثم المسبوق انما یتابع الامام فی السھو لا فی السلام فیسجد معہ ویتشھد فاذا سلم الامام قام الی القضاء فان سلم فان کان عامد افسدت والا فلا ولاسجود علیہ ان سلم قبل الامام اومعہ وان سلم بعدہ لزمہ لکونہ منفرداحینئذ ؎۲۔
پھر مسبوق امام کی سجدہ سہومیں اتباع کرے مگر سلام میں نہیں، پس مسبوق امام کے ساتھ سجدہ کرے تشہد پڑھے، اور امام سلام پھیرے تو یہ گزشتہ نماز کےلئے کھڑاہو جائے، اور اگر مسبوق سلام پھیرتا ہے تو اگر  عمداً کیا تو نماز فاسد ورنہ نہیں، اگر مسبوق نے امام سے پہلے یا اس کے ساتھ سلام سہواً پھیردیا تو اب اس پر سجدہ سہو نہیں ،اور اگر امام کے بعد سلام پھیرا تو اب سجدہ سہولازم ہوگا کیونکہ اب وہ منفرد ہے (ت)
 (۲؎ بحرالرائق باب سجود السہو     ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۱۰۰)
اسی طرح اس سے ردالمحتار میں ہے:
حیث قال قولہ والمسبوق یسجد مع امامہ قید بالسجود لانہ لایتابعوہ فی السلام بل یسجد معہ یتشھد ۳؎ الخ
ماتن کا قول '' مسبوق اپنے امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے'' یہاں سجدہ کے ساتھ مقید ہے کیونکہ سلام میں اتباع نہیں بلكہ سجدہ کرے اور تشہد پڑھے الخ (ت)
 (۳؎ ردالمحتار    سجود السہو   مصطفی البابی مصر        ۱/۵۴۹)
     اس میں تحقیق وقول فیصل یہ ہے کہ ان سلم بعدہ ( اگرمسبوق نے امام کے بعد سلام  پھیرا ۔ت) سے یقینا سلام اخیر مراد  ہے جس کے بعد سمجھ نہیں کہ اس سے پہلا سلام جس کے بعد امام نے سجدہ سہو کیا اگر مسبوق سہواً امام کے بعد بھی پھیرے گا اس پر سہو لازم نہیں ہوسکتا کہ وہ اب بھی مقتدی ہے تو لکونہ منفرداحینئذ (کیونکہ اب وہ منفرد ہے ۔ت) وہاں قول صادق نہیں اور قول بحر لافی سلام ( سلام میں نہیں۔ت) وقول شامی قید بالسجود لانہ لایتابعہ فی السلام       ( ماتن نے سجدہ کی قید لگائی ہے کیونکہ سلام میں اتباع نہیں کی جائیگی ۔ت) میں  یا تو نظر باطلاق لفظ و عموم حکم مطلق سلام مراد ہے خواہ سجدہ سہو سے پہلے ہو یا بعد یا بقرینہ مقام سلام قبل سجدہ سہو مراد لیجئے یعنی سجدہ سہو میں مسبوق بھی اگر چہ متابعت امام کرے گا مگر فقط سجدے میں شریک ہوگا ولہذا متابعت میں سجود کی قید لگادی کہ پیروی اسی پر مقصود ہے سلام میں مسبوق متابعت نہیں کرسکتا۔
و ھذا معنی واضح جلی یسبق الی الذھن اول مایسمع ھذا الکلام اذا صفت القریحۃ عن ظلام الاوھام۔
یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ مذکورہ کلام سنتے ہی انسان کا ذہن اس طرف چلاجاتا ہے بشرطیکہ اوہام کی تاریکیوں سے ذہن صاف ہو۔ (ت)
اور اسے خاص سلام اخیر بعد سجود سہو پر حمل کر نا بے دلیل ہے جس پر اصلاً قرینہ نہیں بلکہ ظاہراً قرینہ اس کے خلاف کی طرف مشیر کما لا یخفی علی العارف البصیر ( جیسا کہ عارف بصیر پر مخفی نہیں۔ت) باقی دوجگہ جو لفظ ان سلم ( اگر سلام پھیرا ۔ت) واقع ہے اگر سیاق سخن ونظم کلام دیکھئے تو وہ بھی مثل ان سلم بعدہ ( اگر مسبوق نے امام کے بعد سلام پھیرا ۔ت) سلام بعد سجود سہو میں ہیں کہ اذا سلم الامام ( جب امام نے سلام پھیرا۔ ت) سے یقینا یہی سلام اخیرمراد ہے جو یسجد معہ ویتشھد (امام کے ساتھ سجدہ کرے اور تشہد پڑھے ۔ت) کے بعد اور قام الی القضاء ( گزشتہ نماز کے لئے کھڑا ہوجائے ۔ت) اس سے متصل ہے تو کلام آتی اسی صورت کی طرف ناظر ہونا زیادہ متبادر ہے خصوصاً ان تشقیقوں میں ایک شق ان سلم بعدہ (اگر امام کے بعد سلام پھیرے ۔ت) بلاشبہہ مختص بسلام آخر ہے اور حکم پر نظر کیجئے تو دونوں ان سلم ( اگر سلام پھیرے ۔ت) متوسط میں جو بیان ہے سلام قبل سجدہ و بعد سجدہ دونوں کو عام ہے کما اشرنا الی کل ذلک ( جیسا کہ ہم نے ان تمام شقوں کی طرف اشارہ کیا ۔ ت) علامہ سید طحطاوی رحمۃ اﷲ تعالٰی نے حاشیہ مراقی الفلاح میں قول شارح :
ان سلم مع الامام مقار نالہ اوقبلہ ساھیا فلا سہو علیہ لانہ فی حال اقتدائہ وان سلم بعدہ یلزمہ السھو لانہ منفرد؎۱۔
اگر مسبوق نے امام کے ساتھ یا پہلے بھول کر سلام پھیرا تو اب اس پر سجدہ سہو نہیں کیونکہ وہ حالتِ اقتداء میں ہے اور اگر امام کے بعد سلام پھیرا تو اب سجدہ سہو لازم ہوگا کیونکہ وہ اب تنہا نماز ادا کررہا ہے ۔(ت)
 (۱؎ مراقی الفلاح مع حاشیۃ الطحطاوی    باب سجود السہو        مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی   ص۲۳۵)
کی یہی شرح فرمائی:
حیث قال قولہ وان سلم مع الامام الخ سواء فی ذلک تسلیمۃ التحلیل الاولٰی وتسلیم سجود السھو لظھور العلۃ فی ذلک وقولہ وان سلم بعدہ ای بعد سلام الامام من سجود السھو فقط اماسلامہ بعد سلام الامام الاول من الصلوٰۃ فلا یلزم بہ السھو لانہ لما سجد للسھو معہ عادالی الاقتداء ولا سھو علی المقتدی فتامل فیہ کلہ ۱؎اھ
ان کے الفاظ یہ ہیں قول '' اگر مسبوق نے امام کے ساتھ سلام کہا الخ'' میں نماز سے فارغ ہونے کے لئے سلام یا سجدہ سہو کے لئے سلام دونوں برابر ہیں کیونکہ علت ایک ہے قولہ اگر مسبوق نے اس کے بعد سلام پھیرا یعنی امام کے فقط سجود سہو کے سلام کے بعد پھیر ا اگر امام کے  پہلے سلام کے بعد پھیرا تو بھی مسبوق پر سجدہ سہو نہیں کیونکہ جب وہ امام کے ساتھ سجدہ سہو کرے گا تو وہ اقتداء کی طرف لوٹ آیا اور مقتدی پر سجدہ سہو نہیں ہوتا، اس تمام گفتگو میں خوب غور فکر سے کام لو اھ (ت)
 (۱؎ حاشیۃ الطحطاوی علی مراقی الفلاح    باب سجود السہو    مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی  ص ۲۵۳)
بالجملہ بحر  وشامی کی ان عبارات سے فریق ثانی کا مسئلہ نزاعیہ پر استدلال محض باطل اور فریق اول کا ان سے استناد بوجہ تطرق  احتمال گونہ ناکامل ،اور حکم مسئلہ میں حق فریق اور کے ساتھ ہے ۔ واﷲ سبحٰنہ و تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۲۶، ۱۲۲۷ :۲۶ذیقعدہ  ۱۳۱۸ھ

کیا فرماتے ہیں علمائے دین ان مسائل میں کہ:

(۱) چار رکعت نماز میں درمیانی قعدے میں تشہد کے بعد سہو ہے اللھم صل کہاں تک پڑھے کہ سجدہ سہو واجب ہوجائے۔

(۲)جماعت میں سجدہ سہو کے قبل كا سلام اس شخص کو جس کی ایک دورکعت باقی ہے اور اس کو یہ معلوم نہ ہو کہ یہ سلام اختتام نماز کا ہے یا سجدہ سہو کا ہے ، چاہئے  یا نہیں؟
الجواب

(۱) اللھم صل علی محمد وبہ یفتی( اللھم صل علٰی محمد اور اس پر ہی فتوٰی ہے ۔ت) واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم

(۲) جائز نہیں، اور اگر قصداً پھیرے گا تو نماز جاتی رہے گی لوقوعہ خلال صلوٰتہ ( کیونکہ یہ سلام

نماز کے درمیان ہے ۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
Flag Counter