فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ) |
مسئلہ۱۲۲۳ : از شہر کہنہ بریلی ۱۱ جمادی الآخر ۱۳۱۷ھ چہ می فرمایند علمائے دین دریں مسئلہ کہ ترک آرد قعدہ اولٰی را لیکن باستادن نزدیک ترشد آں گاہ نشست بازباقی نماز گزارد دریں حال نماز او جائز است یا نے ؟ بینوا توجروا
علمائے دین اس مسئلہ میں کیا فرماتے ہیں کہ نمازی نے پہلا قعدہ ترک کردیا، وہ سیدھا کھڑا ہونے کے قریب تھا وہاں سے لوٹ آیا اور باقی نماز ادا کی اس صورت میں نماز جائز ہوگی یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب ہر کہ در فرض یا وتر قعدہٕ اولٰی فراموش کردہ استادہ تابتمام ایستادہ نشود بسوئے قعود رجو عش باید پس اگر ہنوز بقعود اقرب بود سجدہ سہو نیست و اگر بقیام نزدیک ترشدہ باشد سجدہ سہو لازم آید تانیمہ زیریں ازبدن انسان راست نشدہ است بہ نشستن نزدیک است وچوں ایں نصف راست شدوپشت ہنوز خمیدہ است با ستادن قریب است واگر بتمامہ راست ایستاد آنگاہ نشستن روا نیست اگر بقعدہ اولٰی بازمیگر د د گناہگار شود اما راجح آنست کہ نماز دریں صورت ہم از دست نرود وسجدہ سہو واجب شود۔
جو شخص فرض یا وتر کا قعدہ اولٰی بھول کر کھڑا ہوجائے اگر سیدھا کھڑا نہیں ہوا تھا تو اسے قعدہ کی طرف لوٹ آنا چاہئے اب اگر بیٹھنے کے قریب تھا تو اس پر سجدہ سہو لازم نہیں اور اگر قیام کے قریب تھا تو سجدہ سہو لازم ہوگا، جب بدن کا پچھلا حصہ سیدھا نہیں ہوا تو وہ بیٹھنے کے قریب ہوگا اور اگر نصف حصہ سیدھا ہوگیا مگر پشت ابھی ٹیڑھی تھی تو وہ کھڑے ہونے کے قریب ہے، اور اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو اس وقت بیٹھنا جائز نہیں، اب اگر قعدہ اولٰی کی طرف لوٹتا ہے تو گناہگار ہوگا لیکن راجح یہی ہے کہ اس صورت میں بھی نماز باطل نہ ہوگی سجدہ سہو لازم ہوگا۔
فی الدرالمختار سھا عن القعود الاول ولو عملیا ثم تذکرہ عادالیہ ولا سھو علیہ فی الاصح مالم یستقم قائما فی ظاھر المذھب وھوالاصح فتح وان استقام قائما لا یعود فلو عاد لاتفسد لکنہ یکون مسیئا ویسجد لتاخیر الواجب وھوالا شبہ کما حققہ الکمال وھوالحق بحر ۱؎اھ مختصرا
درمختار میں ہے (اگر نمازی فرض کے قعدہ اولٰی میں بھول گیا) اگر چہ فرض عملی ہو پھر یاد آگیا تو اس کی طرف لوٹ آئے اور اصح قول کے مطابق سجدہ سہو نہ ہوگا جب تک وہ سیدھا کھڑا نہ ہوجائے، ظاہر مذہب یہی ہے اور یہی اصح ہے فتح، اور اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو نہ لوٹے اگر لوٹ آیا تو نماز فاسد نہ ہوگی البتہ گناہگار ہوگا، تاخیر واجب کی وجہ سے سجدہ سہو کرے یہی مختار ہے جیسا کہ اس کی تحقیق کمال نے کی اور یہی حق ہے بحر اھ اختصاراً،
(۱؎ درمختار باب سجودالسہو مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۰۲)
وفی ردالمحتار قولہ ولا سھو علیہ فی الاصح یعنی اذاعادقبل ان یستقیم قائما وکان الی القعود اقرب فانہ لاسجود علیہ فی الاصح وعلیہ الاکثر اما اذا عاد و ھو الی القیام اقرب فعلیہ سجود السھو کما فی نورالایضاح وشرحہ بلاحکایۃ خلاف فیہ وصحح اعتبار ذلک فی الفتح بما فی الکافی ان استوی النصف الاسفل وظھرہ بعد منحن فھو اقرب الی القیام، وان لم یستو فھو اقرب الی القعود، قولہ لکنہ یکون مسیئا ای ویاثم کما فی الفتح فلوکان اماما لا یعود معہ القوم تحقیقا للمخالفۃ ویلزمہ القیام للحال شرح المنیۃ عن القنیۃ ۱؎ اھ ملتقطا۔ واﷲ تعالٰی اعلم
ردالمحتار میں ہے کہ ماتن کا قول کہ ''اس پر اصح قول کے سجدہ نہیں یعنی جب وہ سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے پہلے لوٹا اور وہ بیٹھنے کے قریب تھا تو اب اس پر سجدہ نہیں ، یہی اصح ہے اور اکثر کا قول ہے، جب وہ لوٹا حالانکہ قیام کے قریب تھا تو اب اس پر سجدہ سہو لازم ہوگا جیسا کہ نورالایضاح اور اس کی شرح میں اس مسئلہ کو بغیر کسی اختلاف کے ذکر کیا ہے اور کافی کی عبارت کو فتح میں صحیح کہا ہے کہ اگر نمازی کا نصف سیدھا ہوگیا حالانکہ پشت ابھی ٹیڑھی تھی تو یہ قیام کے قریب ہوگا اور اگر نصف اسفل سیدھا نہیں تو وہ قعود کے قریب ہے۔ ماتن کے قول '' یکون مسیئا'' کا معنٰی یہ ہے کہ وہ گناہگار ہے فتح، اوراگر وہ امام ہے تو وہ نہ لوٹے اور لوٹ گیا تو نماز فاسد نہ ہوگی لیکن گناہگار ہوگا۔ اور واجب کی تاخیر کی وجہ سے سجدہ سہو کرے، یہی اشبہ بالحق ہے جیسا کہ کمال نے اس کی تحقیق کی، اور یہی حق ہے بحر اھ مختصراً۔ اس پر فی الحال قیام لازم ہے شرح منیہ میں قنیہ کے حوالے سے ہے اھ ملتقطا واﷲ سبحنہ وتعالٰی اعلم
(۱ ؎ ردالمحتار باب سجود السہو مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۵۰)
مسئلہ ۱۲۲۴: ۲۲شوال ۱۳۱۷ھ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ امام بھول گیا سجدہ سہو کرلے تو اس صورت میں نماز امام و مقتدین اور بعد سجدہ سہو کے جو مقتدی ملے ان سب کی نماز کیسی ہوگی؟ اور حقیقت میں سہو نہیں تھا بینوا توجروا الجواب امام و مقتدیانِ سابق کی نماز ہوگئی جو مقتدی اس سجدہ سہو میں جانے کے بعد ملے ان کی نماز نہیں ہوئی کہ جب واقع میں سہونہ تھا دہنا سلام کہ امام نے پھیرا ختمِ نماز کا موجب ہوا یہ سجدہ بلا سبب لغو تھا تو اس سے تحریمہ نماز کی طرف عودنہ ہوا اور مقتدیان مابعد کو کسی جزء امام میں شرکت امام نہ ملی لہذا ان کی نماز نہ ہوئی ولہذا اگر سجدہ سہو میں مسبوق اتباع امام کے بعد کو معلوم ہو کہ یہ سجدہ بے سبب تھا اس کی نماز فاسد ہوجائے گی کہ ظاہر ہوا کہ محلِ انفراد میں اقتدا کیا تھا، ہاں اگر معلوم نہ ہوا تو اس کےلئے حکم فساد نہیں کہ وہ حال امام کو صلاح وصواب پر حمل کرناہی چاہۓ۔ در مختار میں ہے :
سلام من علیہ سجود سھویخرجہ من الصلٰوۃ خروجاموقوفا ان سجد عادالیھا والالا ؎۱۔
اس کا سلام جس پر سجدہ سہو تھا نماز سے موقوف خروج ہے اگر سجدہ کرلیا تو وہ نماز کی طرف لوٹ آیا ورنہ نہیں۔ (ت)
(۱؎ درمختار باب سجودالہسو مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱ /۱۰۳)
ردالمحتار میں ہے:
انہ اذاسجدوقع لغوا فکانہ لم یسجد فلم یعد الی حرمۃ الصلٰوۃ ؎۲۔
جب اس نے سجدہ کیا تو یہ لغو ہوگا گویا اس نے سجدہ سہو کیا ہی نہیں، لہذا وہ حرمت نماز کی طرف نہیں لوٹا۔ (ت)
(۲؎ ردالمحتار باب سجودالسھو مطبوعہ مصطفی البابی مصر ۱ /۵۵۵)
خزانۃ المفتین میں فتاوٰی قاضی خاں سے ہے:
اذاظن الامام ان علیہ سہوا فسجد للسہو و تابعہ المسبوق فی ذلک ثم علم ان صلوتہ تفسدو ان لم یعلم انہ لم یکن علی الامام سھو لم تفسد صلٰوۃ المسبوق ؎۳۔
جب امام کو یہ گمان ہو کہ اس پر سجدہ سہو ہے اور اس نے سجدہ سہو کیا اور مسبوق نے بھی اس کی اتباع میں سجدہ کیا پھر اس نے جانا کہ امام پر سجدہ سہو نہ تھا تو مشہور یہی ہے کہ اس کی نماز فاسد ہوگی اور اگر اسے اس بات کا علم نہیں کہ امام پر سجدہ سہونہیں تھا تو مسبوق کی نماز فاسد نہ ہوگی ۔ (ت)
(۳؎ فتاوٰی قاضی خاں فصل فی المسبوق مطبوعہ نولکشور لکھنؤ ۱ /۴۸)
طحطاوی علی مراقی الفلاح میں ہے:
ھوالمختار کذافی المحیط۴؎
( یہی مختار ہے جیسا کہ محیط میں ہے ۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
(۴؎ طحطاوی علی مراقی الفلاح باب سجود السہو مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب کراچی ص ۲۵۳)