مسئلہ ۱۲۱۹: دو رکعت تراویح کی نیت کی قعدہ اولٰی بھول گیا تین پڑھ کر بیٹھا اور سجدہ کیا تو نماز ہوئی یا نہیں؟ اور ان رکعتوں میں جو قرآن شریف پڑھا اس کا اعادہ ہوا یا نہیں؟ اور چار پڑھ لیں تو یہ چاروں تراویح ہوئیں یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
صورت اولٰی میں مذہب اصح پر نماز نہ ہوئی، اور قرآن عظیم جس قدر اس میں پڑھا گیا اعادہ کیا جائے،
فی ردالمحتار لو تطوع بثلاث بقعدۃ واحدۃ کان ینبغی الجواز، اعتبار ابصلوۃ المغرب لکن الاصح عدمہ لانہ قد فسدما اتصلت بہ القعدۃ و ھوا لرکعۃ الاخیرۃ لان التنفل بالرکعۃ الواحدۃ غیرمشروع فیفسد ماقبلھا۔۱؎
ردالمحتار میں ہے اگر کسی نے تین نوافل ایک قعدہ كے ساتھ ادا کئے تو مغرب کی نماز پر قیاس کرتے ہوئے ان کو جائز کہنا چاہئے مگر اصح یہ ہے کہ یہ صحیح نہیں کیونکہ وہ رکعت ( آخری) باطل ہوجائے گی جس کے ساتھ قعدہ نہیں کیونکہ ایک نفل مشروع نہیں لہٰذا پہلے بھی فاسد ہوں گے۔ (ت)
(۱؎ ردالمحتار باب الوتر والنوافل مطبوعہ مصطجی البابی مصر ۱/۵۱۲)
اور چار پڑھ لیں اور قعدہ اولٰی نہ کیا تو مذہب مفتی بہ پر یہ چاروں دو ہی رکعت کے قائم مقام گنی جائیں گی باقی اور پڑھ لے کما صرح بہ فی ردالمحتار عن النھر الفائق عن الزاھدی ( جیسا کہ ردالمحتار میں نہر الفائق سے زاہدی کے حوالے سے ہے۔ ت) اور دونوں قعدے کئے تو قطعاً چاروں رکعتیں ہوگئیں ولاکراھۃ ایضا کمایفیدہ التعلیل المذکور فی ردالمحتار نعم الافضل فیھا مثنی مثنی کما لایخفی ( اب بھی کراہت نہیں جیسے کہ ردالمحتار میں مذکور علت اسی کا فائدہ دیتی ہے البتہ دو رکعات افضل ہیں جیسا کہ واضح ہے ۔ت) واﷲ تعالٰی اعلم
مسئلہ ۱۲۲۰: اگر امام پر سہوا ہوا اور سجدہ نہ کرے تو مقتدیوں کی نماز صحیح اور ان پر سے سجدہ سہو ساقط ہوجائیگا یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
بیشک ۔
فی التنویر یجب ( ای سجدۃ السھو) علی منفر د و مقتد بسھو امام ان سجد امامہ ۱ اھ ملتقطا قلت فالشرط یفید انہ ان لم یسجد الامام لم یجب علی المقتدی وبالسقوط صرح فی البحر الرائق نعم بقی نقصان یظھر ان یعید لانجبارہ ان اطلع علیہ وھذا لاینافی فی الصحۃ اذ الصحیح یقابل الفاسد والفاسد ھوالباطل فی العبادات کما صرح بہ ائمتنا فی غیر ماکتاب۔ واﷲ تعالٰی اعلم
تنویر میں ہے ( سجدہ سہو) تنہا نماز والے پر بھی واجب ، اور امام کی سہو کی وجہ سے مقتدی پر بھی لازم ہوتاہے بشرطیکہ امام سجدہ کرے اھ تلخیصا، میں کہتا ہوں یہ شرط بتارہی ہے کہ اگر امام نے سجدہ نہیں کیا تو مقتدی پر لازم نہ ہوگا، بحرالرائق میں ہے اس کے ساقط ہونے کی تصریح ہے، وہاں نقص باقی رہ جائے گا ، اور اگر امام کی غلطی پر مطلع ہوجائے تو کمی کے ازالے کی خاطر نماز لوٹا لی جائے، لیکن یہ صحت ہے اور عبادات میں فاسد باطل ہی ہوتا ہے جیساکہ مختلف کتب میں ہمارے ائمہ نے تصریح کی ہے ۔واﷲ تعالٰی اعلم
(۱؎ درمختار باب سجود السہو مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۰۲)
مسئلہ ۱۲۲۱: ۲۰ جمادی الاولٰی ۱۳۱۳ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ ایک شخص نماز فرض یا وتر میں پہلا قعدہ بھول کر کھڑا ہوگیا یا کھڑا ہونے لگا تو اس صورت میں کیا حکم ہے لوٹ آئے یا نہ لوٹے؟ اور اگر کھڑا ہوگیا یا کھڑا ہونے کے قریب تھا اس کے بعد لوٹ آیا تو نماز ہوجائے گی یا نہیں؟ اگر ہوجائے گی تو سجدہ سہو واجب ہوگا یا نہیں؟ بینوا توجروا
الجواب
اگر ابھی قعود سے قریب ہےکہ نیچے کا آدھا بدن ہنوز سیدھا نہ ہونے پایا جب تو بالاتفاق لوٹ آئے اور مذہب اصح میں اس پر سجدہ سہو نہیں اور اگر قیام سے قریب ہوگیا یعنی بدن کا نصف زیریں سیدھا اور پیٹھ میں خم باقی ہے تو بھی مذہب اصح وارجح میں پلٹ آنے ہی کا حکم ہے مگر اب اس پر سجدہ سہو واجب، اور اگر سیدھا کھڑا ہوگیا تو پلٹنے کا اصلاً حکم نہیں بلکہ ختم نماز پر سجدہ سہو کرلے پھر بھی اگر پلٹ آیا بہت برا کیا گناہگار ہوا، یہاں تک کہ حکم ہے کہ فوراً كھڑا ہوجائے ، اور امام ایسا کرے تو مقتدی اس کی پیروی نہ کریں کھڑے رہیں یہاں تک کہ وہ پھر قیام میں آئے، مگر مذہب اصح میں نماز یوں بھی نہ جائے گی صرف سجدہ سہو لازم رہے گا۔
فی تنویر الابصار والدرالمختار وردالمحتار (سھوا عن القعود الا ول من الفرض) ولو عملیا اماالنفل فیعود مالم یقید بالسجدۃ
(ثم تذکرہ عادالیہ) وتشھد ولا سھو علیہ فی الاصح ( مالم یستقم قائما) فی ظاھر المذھب وھوالاصح فتح ۱؎
تنویر الابصار، ردالمحتاراور درمختار میں ہے کہ ( اگر فرض کا قعدہ اول بھول گیا) اگر چہ وہ فرض عملی ہو، رہا معاملہ نفل کا تو لوٹ آئے جب تک رکعت کا سجدہ نہیں کیا (پھر اسے یاد آیا تو اس کی طرف لوٹ آئے) اور تشہد پڑھے اور اصح قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو نہیں (جب تک وہ سیدھا کھڑا نہیں ہوا) ظاہر مذہب کے مطابق، اور یہی اصح ہے فتح ۔
(۱؎ درمختار باب سجود السہو مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۰۲)
یعنی اذاعادہ قبل ان یستقیم قائما وکان الی القعود اقرب فانہ لاسجود علیہ فی الاصح وعلیہ الاکثر، امااذا عاد وھو ا لی القیام اقرب فعلیہ سجود السھو کما فی نورالایضاح و شرحہ بلا حکایۃ خلاف فیہ وصحح اعتبار ذلک فی الفتح بما فی الکافی ان استوی النصف الاسفل وظھرہ بعد منحن فھو اقرب الی القیام وان لم یستو فہو اقرب الی القعود ۲ ؎
یعنی سیدھا کھڑا ہونے سے پہلے لوٹا حالانکہ قعود کے قریب تھا ، تو اب اصح قول کے مطابق اس پر سجدہ سہو نہیں، اور اکثریت کی یہی رائے ہے، اور اگر لوٹا لیکن قیام کے قریب تھا تو اس پر سجدہ سہو لازم ہو جائے گا جیسا کہ نورالایضاح اور شرح میں اسے بلااختلاف ذکر کیا ہے اور کافی کی اس عبارت کو فتح میں صحیح اعتبار کیا ہے کہ اگر نصف سیدھا مگر پشت ابھی ٹیڑھی تھی تو نمازی قیام کے قریب ،اور اگر برابر نہیں تو نمازی قعود کے قریب ہوگا ،
(۲؎ ردالمحتار باب سجود السہو مصطفی البابی مصر ۱/۵۵۰)
وان استقام قائما لایعود وسجدہ للسھو فلو عادالی القعود لا تفسد لکنہ یکون مسیئا ۳ ؎
اور اگر کھڑا ہوگیا نہ لوٹا تو سجدہ سہو کرے اور اگر اب بھی واپس لوٹ آتا ہے تو نماز فاسد نہ ہوگی
(۳؎ درمختار باب سجود السہو مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۰۲)
ای یاثم کما فی الفتح فلوکان اماما لا یعود معہ القوم تحقیقا للمخالفۃ ویلزمہ القیام للحال شرح المنیۃ عن القنیۃ ۴؎ ۔
البتہ گناہگار ہوگا جیسا كہ فتح میں ہے اگر و ہ امام ہے اور کھڑا ہوکر واپس لوٹے تو مقتدی اس کی موافقت میں واپس نہ لوٹیں تاکہ مخالفت ظاہر کریں تو اس امام پر اس وقت قیام لازم ہے، شرح المنیۃ میں قنیہ سے ہے
(
(۴؎ ردالمحتار باب سجود السہو مصطفی البابی مصر ۱ /۵۵۰)
اورتاخیر واجب کی وجہ سے سجدہ سہو کرنے اور یہی حق ہے بحر اھ تلخیصاً ۔ واﷲ تعالٰی اعلم (ت)
(۵؎ درمختار باب سجود السہو مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۰۲)
مسئلہ ۱۲۲۲: ۴ ربیع الآخر شریف ۱۳۱۴ ھ
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ قعدہ اخیرہ کے بعد گمان ہو اکہ یہ قعدہ اولی تھا کھڑا ہو گیااور قبل سجدہ کے یاد آگیا تو اب عود کرکے دوبارہ التحیات پڑھ کر سجدہ سہو میں جائے یا ویسے سجدہ کو چلاجائے ؟ بینوا توجروا
الجواب
عود کرکے بیٹھنا چاہئے اور معاًسجدہ سہو میں چلاجائے دوبارہ التحیات نہ پڑھے۔
فی الدرالمختار وان قعد فی الرابعۃ مثلا قدر التشھد ثم قام عاد وسلم ولوسلم قائما صح ۱؎۔
درمختار میں ہے کہ اگر چوتھی رکعت میں مثلاً تشہد کی مقدار بیٹھ گیا پھر کھڑا ہوا تو لوٹ آئے اور سلام پھیر دے اگر کھڑے کھڑے سلام پھیردے تب بھی صحیح ہے۔ (ت)
(۱؎درمختار باب سجود السہو مطبوعہ مطبع مجتبائی دہلی ۱/۱۰۲)
ردالمحتار میں ہے:
قولہ ثم قام ، ای ولم یسجد قولہ عاد وسلم ای عاد للجلوس، وفیہ اشارۃ الی انہ لا یعید التشھد، وبہ صرح فی البحر، قال فی الامداد، والعود للتسلیم جالسا سنۃ لان السنۃ التسلیم جالسا ۲؎ الخ۔ ملخصاً واﷲ تعالٰی اعلم
ماتن کاقول '' پھر کھڑا ہوا'' یعنی پھر سجدہ نہ کیا ، ماتن کا قول '' لوٹے او ر سلام کہے'' یعنی بیٹھنے کے لئے لوٹے۔ پس اس میں اشارہ ہے کہ تشہد نہ لوٹائے۔ اور بحر میں اس کی تصریح ہے امداد میں ہے سلام بیٹھ کر پھیر نے کے لئے لوٹنا سنت ہے کیونکہ سنت یہی ہے کہ سلام بیٹھ کر پھیرا جائے ۔ (ت) واﷲ تعالٰی اعلم