Brailvi Books

فتاویٰ رضویہ جلد نمبر۸(کتاب الصلٰوۃ)
3 - 144
سابعاً  : علماء ارشاد فرماتے ہیں کہ مسجدمیں پیڑ بونا ممنوع ہے کہ اُس سے نماز کی جگہ رُکے گی مگر جبکہ اس میں منفعتِ مسجد ہو اس طرح کہ زمین مسجد اس قدر گل ہو کہ ستون بوجہ شدتِ رطوبت نہ ٹھہر تے ہوں تو جذب تری کیلئے پیڑ بوئے جائیں کہ جڑیں پھیل کر زمین کی نم کھینچ لیں۔
ظہیریہ و خانیہ وخانیہ و خلاصہ وہندیہ و بحرالرائق وغیرہا میں ہے،
یکرہ غرس الشجر فی المسجد لانہ یشبہ بالبیعة تکون فیہ منفعۃ للمسجد بان کان الارض نزۃ لا تستقر اسا طینھا فیغرس فیہ الشجرلیقل النزۃ۔ ۳؎
مسجد میں درخت لگانا مکروہ ہے کونکہ یہ بیعۃ(گرجے) کی مشابہت ہے اور نماز کی جگہ مشغول کرنا ہے ۔ البتہ اس صورت میں جائز ہوگا جب اس میں کوئی نفع ہو، مثلاً زمین سیلابی ہے اس پر ستون کھڑے نہیں ہوتے تو اس میں درخت لگائے جائیں تاکہ سیلابیت کم ہوجائے۔(ت)
(۳؎ فتاوٰی قاضی خاں فصل فی المسجد    مطبوعہ نولکشور لکھنؤ        ۱ /۳۱  )
ظہیریہ کے لفظ یہ ہیں:
فتغرس لتجذب عروق الاشجار ذلک النز  فحِ  یجوز و الافلا وانما جو زمشائخنا فی المسجد الجامع ببخارٰی لما فیہ من الحاجۃ اھ۔۱؎
پس درخت لگائیں تاکہ ان کی جڑیں اس تری کو جذب کرلیں ، تو اب درخت لگانا جائز ہوگا ورنہ نہیں ، ہمارے مشائخ نے بخاراکی جامع مسجد میں درخت لگانے کو جو جائز قراردیا ہے اس میں یہی ضرورت و حاجت پیش نظر ہے اھ (ت)
(۱؎ بحرالرائق بحوالہ الظہیریۃ    فصل لمافرغ من بیان الکراھۃ الخ    مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی    ۲ /۳۵ )
ظاہر ہے کہ ستون مسجد مسقف ہی میں ہو تے ہیں اور پیڑ درجہ اندرونی میں نہیں بوئے جاتے بلکہ سائے میں پرورش نہیں ہوتے معہذا جب تری کی وہ بیشتری کہ ستون نہیں ٹھہرتے تو ایسی رطوبت پھلواری وغیرہ کے چھوٹے چھوٹے پودوں سے دفع نہیں ہوسکتی، نہ ان کی جڑیں اتنی پھیلیں کہ اطراف سے جذب کرلیں اور بڑے پیڑ اندر بوئے جانا معقول نہیں تو واجب کہ اس سے مراد صحن مسجد میں بونا ہے اور اسے انھوں نے مسجد میں بونا قراردیا _________ جب تو غرس فی المسجد کی صورت جواز میں رکھا ، اور مثالِ ظہیریہ نے تو اس معنی کو خوب واضح کردیا ۔ قطعاً معلوم کہ جامع بخارا نامسقف نہیں نہ زنہار اُس کے درخت زیرِسقف ہیں بلکہ یقیناًصحن میں بوئےگئے، اور اسی کو علمائے کرام نے غرس فی المسجد جانا۔
ثامناً علماء فرماتے ہیں دروازہ مسجد پر جو دُکانیں ہیں فنائے مسجد ہیں کہ مسجد سے متصل ہیں ،
فتاوٰی امام قاضی خاں پھر فتاوٰی علمگیریہ میں ہے:
یصح الاقتداء لمن قام علی الدکاکین التی تکون علی باب المسجد لانھامن فناء المسجد متصلۃ بالمسجد۔۲؎
اس شخص کی اقتداء درست ہے جو اس دکان پر کھڑا ہے جو مسجد کے دروازے پر ہے کیونکہ یہ فنائے مسجد میں ہونے کی وجہ سے مسجد سے متصل ہے۔(ت)
(۲؎ فتاوٰی قاضی خاں    فصل فی المسجد        مطبوعہ نولکشور لکھنؤ       ۱ /۳۲ )

ظاہر ہے کہ جو دُکانیں دروازہ پر ہیں صحن مسجد سے متصل ہیں نہ درجہ مسقفہ سے ،تو لاجرم صحنِ مسجد مسجدہے، اور یہیں سے ظاہر کہ صحن کو فنا کہنا محض غلط ہے اگر وہ فنائے مسجد ہوتا تو دکانیں کہ اس سے متصل ہیں متصل بہ فنا ہوتیں ، نہ متصل بہ مسجد ، پھر ان دکانوں کے فنا ٹھہرنے میں کلام ہوتا کہ فنا وہ ہے جو متصل بہ مسجد ہو نہ وہ کہ متصل بہ فنا ہو، ورنہ اس تعریف پر لزوم دَور کے علاوہ متصل بالفنا بھی فنا ٹھہرے تو سارا شہر یا لااقل تمام محلہ فنائے مسجد قرار پائے کما لایخفی(جیسا کہ مخفی نہیں۔ت) اور یہ ادعا کہ صحن وفنا کا مفہوم واحد جہل شدید ہے کہ کسی عاقل سے معقول نہیں ، شاید یہ قائل اُن دکانوں کو بھی صحن مسجد کہے گا۔
تاسعاً  : انصاف کیجئے تو یہ خاص جزئیہ بھی یعنی صحنِ مسجد میں جنب کا جانا نا جائز ہونا کلماتِ علماء سے مستفاد ہوسکتا ہے، ائمہ فرماتے ہیں جنب کو مسجدمیں جانا جائز نہیں مگر جبکہ پانی کا چشمہ مسجد میں ہواور اس کے سوا کہیں پانی نہ ملے تو تیمم کرکے لے آئے ۔
مبسوط وعنایہ وردالمحتار و فتاوٰی حجہ و فتاوٰی ہندیہ وغیرہا اسفار میں ہے:
واللفظ للثلثۃ الاول مسافر مر بمسجد فیہ عین ماء وھو جنب ولایجد غیرہ، فانہ یتیمم لدخول المسجد لان لاجنا بۃ تمنعہ من دخول المسجد علٰی کل حال عندنا۔ ۱؎
پہلی تین کتب کے الفاظ یہ ہیں :ایک جنبی مسافر ایسی مسجد سے گزرا جس کے اندر پانی کا چشمہ ہے اور اس کے علاوہ وہ پانی نہیں پاتا تو وہ دخول مسجد کے لئے تیمم کرے کیونکہ ہمارے نزدیک ہر حال میں جنابت اسے دخول مسجد سے مانع ہے ۔(ت)
(۱؎ المبسوط للسرخسی    باب التیمم    مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت      ۱/ ۱۱۸)
ظاہر ہے کہ عامہ بلاد میں عامہ مساجد جماعات مسقف ہوتی ہیں اور چشمہ آب عادۃً صحن ہی میں ہوتا ہے اور کلماتِ فقہاء امورِ عادیہ غالبہ ہی پر مبتنی ہوتے ہیں، بہت نادرہے کہ حصّہ اندرونی میں چشمہ آب ہو ،تو انھوں نے صحن ہی میں جنب کو جانے پر یہ احکام فرمائے فافھم وتبصر(پس سمجھو اور غور کرو۔ت) ان کے سوا اور بہت وجوہ کثیرہ سے استنباط ممکن مگر بعد اُن دلائل قاہرہ کے جوابتدأً زیرگوش سامعین ہوئے حاجتِ تطویل نہیں۔
عاشرا :  یاھذا اُن براہینِ ساطعہ کے بعد صحن مسجد کا جزء مسجد ہونا اجلٰی بدیہیات تھا جس پر اصلاً تصریح کتب کی احتیاج نہ تھی بلکہ جو اسے مسجد نہیں مانتا وہی محتاج تصریح وقطعی تھا اور ہر گز نہ دکھاسکتا نہ کبھی دکھا سکے ، تاہم فقیر نے بطور تبرع یہ چار استنباط بھی کلمات ائمہ سے ذکر کئے کہ یہ بدیہی مسئلہ اپنے غایت وضوح واشتہار کے باعث اس قبیل سے تھا جس پر خادمِ فقہ کو کتبِ ائمہ میں تصریح جزئیہ ملنے کی امید نہ ہوتی کہ ایسی روشن و مشہور باتوں پر فقہائے کرام کم توجہ فرماتے ہیں ۔ مثلاًاگر کوئی اس امر کی تصریح کتابوں سے نکالنا چاہے کہ مسجد کے درجہ شتوی میں جسے اہل سورت جماعت خانہ کہتے ہیں تین درہیں بائیں طرف کا در بھی جزءِ مسجد ہے اور اس میں بھی جنب کو جانا ممنوع یا نہیں تو غالباً ہر گز اس کا جزئیہ نہ پائے گا مگر بحمداﷲتعالٰی جب فقیر یہاں تک لکھ چکا مسئلہ کا خاص جزئیہ کلمات علماء میں یاد آیا جس میں ائمہ دین نے صاف تصر یحیں فرمائی ہیں کہ مسجد کے صیفی وشتوی یعنی صحن و مسقف دونوں درجے یقینا مسجد ہیں ۔ اب سنئے
(۱)امام طاہربن عبدالرشید بخاری فتاوٰی خلاصہ پھر(۲)امام فخرالدین ابو محمد عثمان بن علی زیلعی تبیین الحقائق شرح کنزالدقائق پھر(۳)امام حسین بن محمد سمعانی خزانۃالمفتین پھر (۴)امام محقق عل الاطلاق کمال الدین محمد بن الہمام فتح القدیرپھر (۵)علامہ عبدالرحمن بن محمدرومی مجمع الانہرشرح۱ملتقی الابحر پھر  (۶)علامہ سیّدی احمد مصری حاشیۂ مراقی الفلاح شرح نورالایضاح پھر (۷)خاتم المحققین سیدی محمد بن عا ب دین شامی ردالمحتار میں فرماتے ہیں:
واللفظ للخلاصۃ ولخزانۃ رجل انتھی الی المام والناس فی الصلوۃ الفجر ان رجال ان یدرک رکعۃ فی الجماعۃ یاتی برکعتی الفجر عند باب المسجد وان لم یمکن یاتی بھما فی المسجد الشتوی ان کان الامام فی الصیفی وان کان الامام فی الشتوی ھویاتی فی الصیفی وان کان المسجد واحدا یقف فی ناحیۃ المسجد الا یصلیھما مخالطاللصف مخالفا للجمایۃ فان فعل ذلک یکرہ اشد الکراھۃ  اھ۔۱؎
خلاصہ اور خزانہ کی عبارت یہ ہے : ایک آدمی مسجد میں پہنچا، امام اور لوگ نماز فجر ادا کر رہے تھے اب اگر آنے والا شخص امید رکھتا ہے کہ اسے ایک رکعت جماعت کے ساتھ مل جائے گی تو وہ مسجد کے دروازہ کے پاس دو (۲) سنّتیں ادا کرے، اور اگر  وہاں ممکن نہ ہو مسجد شتوی (یعنی سردیوں والے حصّہ) میں دو رکعات ادا کرے ، جب امام صیفی مسجد (یعنی گرمیوں والے حصّہ) میں ہو اور اگر اس کا عکس ہو یعنی امام شتوی مسجد میں ہو تو یہ صیفی میں پڑھے ۔ اگر مسجد واحد ہی ہو تو مسجد کے ایک گوشے میں ادا کرے اور ان دو(۲) رکعتوں کی ادائیگی کے لئے صف کے متصل کھڑا نہ ہو کیونکہ یہ جماعت کی مخالف ہے۔ اگر ایسا کیا تو یہ شدید مکروہ ہوگا اھ(ت)
(۱؎ خلاصۃ الفتاوٰی    کتاب الصّلوٰۃ الجنس فی السنن    مطبوعہ نو کشور لکھنؤ  ۱ /۶۱و۶۲)
ردالمحتارمیں ہے:
قولہ عندباب المسجد ای خارج المسجد کما صرح بہ القھستانی۲؎ الخ۔
ماتن کا  قول ''مسجد کے دروازے کے  پاس'' یعنی مسجد سے باہر ، جیسے کہ قہستانی نے اس پر تصریح کی ہے الخ (ت(
(۲؎ ردالمحتار    باب ادراک الفریضہ        مطبوعہ ایچ ایم سعید کمپنی کراچی        ۲ /۵۶ )
Flag Counter